حیات صاحب معاشرے کے ایک زندہ دل فرد تھے، ان کی ہر بات سے سادگی ٹپکتی تھی۔ آس پاس کے لوگوں کے لیے ان کی زندہ دلی ایک راز تھی۔ انھیں کبھی کسی نے ٹیکسی یا موٹرکار میں بیٹھے نہیں دیکھا تھا۔ اگر کوئی پڑوسی یا دوست انھیں اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دیتا تو وہ مسکرا کر جواب دیتے!
’’معاف کیجیے میں پیدل چلنے کا عادی ہوں۔‘‘
حیات صاحب گاڑی میں بیٹھنا اس لیے بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ اس طرح وہ بہت سی ایسی چیزوں کا نظارہ نہیں کرسکیں گے جو ہر روز ان کے راستے میں آتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ زندگی کی رنگا رنگی سے جدا ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لوگ کار یا گاڑی میں ہزاروں میل سفر کر کے لطف حاصل کرتے ہیں، وہی لطف میں مطب سے گھر اور گھر سے مطب تک ایک میل پیدل چل کر حاصل کرلیتا ہوں۔
حیات صاحب سے میری دلچسپی روز بروز بڑھنے لگی۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ڈاکٹر تھے۔ ان کی عمر پچاس سال سے زیادہ تھی، لیکن وہ چاق چوبند نوجوان نظر آتے تھے۔ ان کی بیگم ان سے بھی زیادہ سادگی پسند تھیں۔ میں جب بھی ان کے مکان کے سامنے سے گزرتا، وہ اپنے چھوٹے سے برآمدے میں پودوں کی دیکھ بھال یا ان کی آبیاری میں مصروف نظر آتیں۔ میں ان سے متعارف نہیں تھا تاہم اگر ہماری نظریں ایک دوسرے سے مل جاتیں تو ان کے چہرے پر ایک دل آویز مسکراہٹ بکھر جاتی جیسے ایک شفیق ماں اپنے بچے کو خوش آمدید کہہ رہی ہو۔
میں کبھی کبھی فرصت کے وقت حیات صاحب کے مطب میں چلا جاتا تو وہ بڑے تپاک سے میر اخیر مقدم کرتے۔ انھوں نے کبھی مجھ پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ میں ان کا قیمتی وقت ضائع کر رہا ہوں۔ ان سے بات چیت کر کے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف اپنے کام میں پوری پوری دلچسپی لیتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک ہمدرد دل بھی دیا ہے۔ انھیں مریضوں کی فیس سے ذیادہ ان کے دکھ کا خیال رہتا ہے۔
ان سے گفتگو کے دوران یہ اندازہ بھی ہوا کہ جس موضوع پر بھی گفتگو کی جائے، وہ اس کے متعلق پوری واقفیت رکھتے ہیں۔ اگر کہیں پودوں کی خصوصیات اور اقسام کا ذکر چھڑ جاتا تو وہ رنگ برنگ اور قسم قسم کے پودوں پر بے تکان بولتے چلے جاتے۔ اگر کسی تتلی کا ذکر ہو رہا ہوتا، تو وہ تتلیوں، ان کی نسل اور افزائش کے بارے میں ایسی ایسی باتیں بتاتے جن کا بہت کم علم دوسروں کو ہوتا۔ وہ دیس بدیس کے رسم و رواج اور رہن سہن کے طریقوں کو یوں بیان کرتے جیسے ان کی عمر کا ایک بڑا حصہ سیر و سیاحت میں گزرا ہو۔
ایک دفعہ باتوں باتوں میں شکار کا ذکر چل نکلا۔ انھوں نے مختلف جانوروں کی تاریخ بتانی شروع کردی۔ انھیں معلوم تھا کہ جنگلی ہرن کس قسم کے جنگل میں ملتے ہیں، ایک لومڑی کو کس طرح زندہ پکڑا جاسکتا ہے اور اگر جنگل میں چلتے چلتے پگ ڈنڈی پر ناگ آجائے تو اس خطرناک صورت حال کا مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔
معلومات کا اتنا بڑا ذخیرہ ہونے کے باوجود وہ سیدھے سادے بزرگ تھے جو ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتے اور ان کے چہرے سے ہر وقت یہ تاثر ملتا کہ وہ آپ کی مدد کے لیے ہر وقت تیا رہیں۔ ان کی انہی عادات نے انہیں شہرت، عزت اور نیک نامی بخش رکھی تھی۔ ایک روز میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھ ہی لیا:
’’آپ کی زندہ دلی کا راز کیا ہے؟‘‘
ڈاکٹر حیات کے چہرے پر دلآویز مسکراہٹ پھیل گئی، وہ کہنے لگے:
’’دنیا میں کوئی بات راز نہیں، ہم اپنی جہالت کی بنا پر بہت سی چیزوں کو راز بنا دیتے ہیں۔ اگر انسان اس الجھن میں رہے کہ اسے مسرت کیسے حاصل ہوگی، تو وہ کبھی زندہ دل نہیں ہوسکتا۔ اگرانسان یہ سوچ لے کہ مسرت اس کی زندگی کا پیدائشی حق ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے پژمردہ نہیں کرسکتی۔ ایک عام آدمی زندگی کی سادگی اور پرکاری سے جتنا دور ہوتا چلا جاتا ہے، اتنا ہی مسرت اس سے بھاگنے لگتی ہے۔ دولت سے خوشی حاصل نہیں ہوتی، زندگی کی چھوٹی چھوٹی نعمتیں انسان کو بڑی بڑی خوشیاں عطا کرسکتی ہیں۔‘‘
ایک روز میں ڈاکٹر صاحب کے مطب میں بیٹھا تھا کہ ایک خاتون داخل ہوئی، وہ بے حد سہمی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اسے بار بار بتا رہے تھے کہ اسے کوئی تکلیف نہیں ہے، لیکن وہ ہر بار پیٹ کی طرف اشارہ کر کے یہی کہتی رہی کہ اسے اپنے معدے میں درد محسوس ہوتا رہتا ہے اور آپریشن کے بغیر یہ درد ٹھیک نہیں ہوسکے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے نہایت ہی مشفقانہ انداز میں سمجھایا کہ اسے آپریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ جب وہ چلی گئی تو میں نے ڈاکٹر سے پوچھا:
’’آپ اس کا آپریشن کیوں نہیں کردیتے۔‘‘
’’اسے آپریشن کی ضرورت نہیں۔ اگر اسے آپریشن سے آرام آسکتا تو یہ کب کی صحت مند ہوچکی ہوتی۔ در اصل اسے وہم کی بیماری ہے۔‘‘
’’اس کے وہم کا کیا علاج ہے ڈاکٹر صاحب؟‘‘
’’یہ لاعلاج ہے او ریہ مریضوں کے اس طبقے سے تعلق رکھتی ہے جو اپنے آپ کو ہر وقت اذیت میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔ انھیں ذرا سی بات پر نزلہ ہو جاتا ہے۔ ادھر انہیں نزلہ ہوا، ادھر انہیں بخار کا احساس ستانے لگا، شام تک انہیں بخار ہو جاتا ہے۔ بخا رکے بعد پیٹ درد پھر جسم کے ایک ایک حصے میں درد محسوس کرنے لگتی ہیں۔ ان سے جب بھی ملیے یہ کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوں گی، حالانکہ انہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی۔ ہٹے کٹے ہونے کے باوجود یہ لوگ ذہنی طو رپر مریض بن جاتے ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ یہ عورت جو ابھی ابھی معدے کی کسی بیماری کا ذکر رہی تھی اور آپریشن کے لیے مصر تھی تین بار آپریشن کرا چکی ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عورت کبھی تندرست نہیں ہوگی؟‘‘
’’جی نہیں، یہ بات نہیں۔ اس خاتون کا ایک ہی علاج ہے کہ اسے باتوں باتوں میں یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ اسے کوئی بیماری نہیں۔ جس روز وہ یہ بات سمجھ گئی، اس وقت سے اسے کوئی بیماری نہیں رہے گی۔ اس کے برعکس، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں واقعی کوئی ذہنی یا جسمانی تکلیف ہوتی ہے، لیکن وہ بیماری کے احساس کو اپنے آپ پر غالب نہیں آنے دیتے اور علاج کے بغیر ہی تندرست ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بیمار پڑ جائیں تو کسی طبیب کا مشورہ نہ لیں۔ اپنی صحت کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھیں، لیکن اپنے کسی خدشے کو ایک دائمی حقیقت ہرگز نہ سمجھنے لگیں۔‘‘
ایک روز میں خود معدے کے درد میں مبتلا ہوگیا۔ شروع میں میں نے اس درد کو وہم سمجھا، لیکن درد بڑھتے بڑھتے ناقابل برداشت ہوگیا۔ میں درد برداشت کرنے کی جتنی کوشش کرتا، اتنی ہی میری حالت ابتر ہوتی جاتی۔ مجبوراً ڈاکٹر صاحب کو اپنے گھر بلانا پڑا۔ انھوں نے تشخیص کی، دوا دی اور آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ دو تین روز تک مجھے افاقہ ہوگیا، بعد میں جب وجہ پوچھی و ڈاکٹر صاحب کہنے لگے:
’’آپ دوپہر کے کھانے کے بعد فوراً دفتر کے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔اس عادت نے آپ کا معدہ خراب کر دیا ہے۔‘‘
’’میں تو دوپہر کو کھانا ہی نہیں کھاتا ڈاکٹرصاحب۔‘‘
’’یہ بھی بری عادت ہے کہ آپ بغیر کھائے پئے اپنے کام میں لگے رہیں۔ اس سے نہ صرف آپ کے معدے پر برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہے، بلکہ آپ کا عصبی نظام بھی خراب ہوجائے گا۔ آپ کا مزاج چڑچڑا ہوجائے گا۔ چڑچڑے مزاج کا انسان دن بھر اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے ایک مصیبت بنا رہتا ہے۔ صحت کا خیال رکھنے کے بعد ہر فرد کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جو اس کی طبیعت کے موافق نہ ہو۔ پیشے کا صحیح انتخاب کام میں دلچسپی بڑھا دیتا ہے۔ غلط پیشے کا انتخاب آپ کے مستقبل کو تباہ کرسکتا ہے پھرذمے داریوں کا شدید احساس بھی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ بے کار اور آوارہ گھومنے والے لوگ ہمیشہ تندرست رہتے ہیں۔‘‘
’’جی نہیں، آپ کا یہ خیال درست نہیں کہ ایک بے کار، آوارہ اور کاہل انسان محض اس لیے خوش رہتا ہے کہ اس کی کوئی ذمے داری نہیں ہوتی۔ میں ایسے پچیس مریضوں کو جانتا ہوں جنہیں کوئی کام نہیں ہوتا، آوارہ گھومتے رہتے ہیں اور ہر بات میں کاہلی کا ثبوت دیتے ہیں اس کے باوجود اپنی زندگی سے مطمئن نہیں۔ ان میں صرف ایک آدمی ایسا ہے جو واقعی ہر ذمے داری سے بے نیاز ہے لیکن اس کا ذہن جب کوئی بات سوچتا ہے تواس میں تخریب کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ وہ کوئی تعمیری بات نہیں سوچ سکتا۔ دراصل دل پسند کام میں مصروف رہنا سب سے بڑی نعمت ہے۔ اگرکام میں مصروف رہتے وقت آپ کو یہ احساس ہوجائے کہ آپ کا کام معاشرے کے لیے مفید ہے اور اس کے ذریعے بہت سے لوگ خوشی کی دولت سے مالا مال ہو رہے ہیں، تو یہ احساس آپ کو ہمیشہ جوان، صحت مند اور مسرور رکھے گا۔‘‘
ایک روز ایک صاحب ڈاکٹر صاحب سے ملنے آئے وہ بہت خوش نظر آرہے تھے۔ انھوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور سونے کے دو بٹن میز پر رکھ دیے۔
’’یہ بٹن کہاں سے لے کر آئے آپ؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
’’ایک غیر ملکی مہمان کے کوٹ سے اتارے ہیں۔‘‘
’’یہ کام آپ نے کب سے شروع کیا ہے؟‘‘
’’آپ ہی نے و کہا تھا کہ انسان کا کوئی نہ کوئی مشغلہ ہونا چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب بڑی دیر تک ہنستے رہے، وہ صاحب چلے گئے، تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔
’’یہ صاحب بھی کبھی معدے کے مریضوں میں سے تھے۔ انھوں نے دنیا بھر کا علاج کرایا، لیکن ان کی بیماری جانے کا نام نہیں لیتی تھی۔ ایک روز میں نے ان سے کہا آپ کوئی شغل اختیار کرلیں، آپ تندرست ہوجائیں گے۔ یہ صاحب پوچھنے لگے کہ کون سا شغل اختیا رکروں۔ میں نے کہا کہ اپنی پسند سے کام لو۔ انھوں نے بٹن چرانے کا مشغلہ اختیا رکرلیا۔ یہ شغل اگرچہ کسی اعتبار سے اچھا نہیں، لیکن اس کا یہ افادی پہلو نمایاں ہے کہ اب یہ صاحب معدے کی خرابی کا ذکر نہیں کرتے۔ میں کوشش کروں گا کہ یہ کوئی اچھا سا شغل اختیا رکریں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک اور صاحب آگئے آتے ہی ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہنے لگے:
’’آج موسم بڑا خراب ہے، صبح سے بارش ہو رہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے ان کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’موسم خراب نہیں ہے صاحب، آپ کی طبیعت خراب ہے۔ اگر آپ یہ سوچیں کہ بارش فصلوں کے لیے انتہائی ضروری ہے اور اس کے نتیجے میں اناج سستا ہوجائے گا تو آپ کو یہ خراب موسم سہانا نظر آنے لگے گا۔ ذرا ذرا سی باتیں ہمارا اطمینان چھین لیتی ہیں۔ ایک فرد کا عدم اطمینان معاشرے میں کئی قسم کی بے اطمینانیوں کو جنم دیتا ہے۔‘‘
اس سے پہلے کہ ڈاکٹر صاحب کچھ اور کہتے وہ صاحب بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے:
’’ایسے حضرات کبھی مطمئن نہیں ہوسکتے۔ زندگی میں قدم قدم پر دشواریاں ہیں، اگر انسان ہر وقت ان کا رونا روتا رہے، تو زندگی دو بھر ہوجاتی ہے۔ وہ بات جو ہمیں برہم کرتی ہے، وہی بات ہمین اطمینان بھی دے سکتی ہے۔ روزہ مرہ کی زندگی میں مطمئن رہنا کوئی مشکل کام نہیں، بشرطے کہ انسان خیالی پلاؤ نہ پکاتا ہو۔ جو کچھ میسر ہو، اس پر قناعت کرے اور بہتر زندگی کے لیے دل جمعی کے ساتھ کوشش کرے، تو زندگی ایک حسین حقیقت میں تبدیل ہوجائے گی۔‘‘
ایک روز داکٹر صاحب اپنے ایک ملاقاتی سے کہہ رہے تھے:
’’یہ کوئی فخر کی بات نہیں کہ آپ آٹھ سال سے جہاں رہتے ہیں، وہاں آپ کا کوئی بھی پڑوسی آپ کو نہیں جانتا۔ پڑوسیوں سے ملنا غم اور تکلیف میں ان کا ہاتھ بٹانا اور ان کی مشکلات کے وقت ہمدردانہ مشورہ دینا اچھی عادات میں سے ہیں۔ لوگوں سے زیادہ سے زیادہ ملنا اور اختلاف رائے ہونے کے باوجود ان کے نظریات کو غور سے سننا آپ کی زندگی کی بہت سی مشکلات کو کم کردے گا۔ آپ کسی شخص سے محض اس لیے ملنا پسند نہیں کرتے کہ وہ ہر وقت پان کھاتا رہا ہے، کوئی خوبی کی بات نہیں۔ انسان سے محبت کرنا اپنی شخصیت کو حسین بنانا ہے۔
دوسروں کی عادات پر ہر وقت ناک بھوں چڑھانے سے آپ خود پسندی او روہم کا شکار ہوجائیں گے۔ یہ رجحان آپ کی زندگی کو اطمینان سے محروم کردے گا۔ نفرت کا ہلکا سا احساس آپ کے اندر اضطرابی کیفیت کو جنم دے گا اور آپ کے اعصاب ہر وقت تنے رہیں گے۔ جو شخص دوسروں کی ذرا سی بات پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرے، وہ دراصل اپنی ہی شخصیت کو مجروح کر رہا ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب پھر اپنے ایک ایسے مریض کا ذکر کرنے لگے جو کلرک سے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے تک پہنچ گیا تھا، وہ اچانک بیما رپڑ گیا۔ شروع شروع میں اسے کمزوری محسوس ہوتی، پسینہ آنے لگتا، پھر کپکپی طاری ہوجاتی اور وہ بے تحاشا قے کرنے لگتا۔ اس پر بیماری کا یہ دورہ اس وقت پڑتا جب وہ اسسٹنٹ منیجر کے دفتر میں کام کرنے کے لیے بیٹھا ہوتا۔ بعض اوقات گھر پر اس قسم کے دورے پڑجاتے۔ وہ اتنا کمزو رہوگیا کہ کوئی دم کا مہمان نظر آے لگا۔ اس کی بیماری کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ اسسٹنٹ منیجر کو دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا تھا اور اسے اس کی کوئی بات پسند نہ تھی۔ اس کے علاج کے دوران مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو پسند نہیں کیا۔ اسے اپنے والدین تک سے نفرت تھی۔ ان سے کہا گیا کہ ہر شخص کچھ اچھائیوں اور کچھ برائیوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور آپ اس کے اچھے اوصاف پر نظر نہیں رکھتے، تو اس نے جواب دیا کہ مجھے کسی میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ میں نے ان کے احباب کی خوبیاں گنوائیں، لیکن وہ ان کو خوبیاں ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ اس کشمکش میں اس نے جان دے دی۔
ایک روز مجھے یہ دل گداز خبر ملی کہ بیگم حیات ایک مختصر سی علالت کے بعد فوت ہوگئی ہیں۔ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ ان کی سادہ، اجلی شخصیت اس طرح ایک دم نظروں سے اوجھل ہوجائے گی۔ میں ڈاکٹر حیات کے بارے میں سوچ رہا تھا، جن کے منہ سے پھول جھڑتے تھے، آج تنہائی میں آنسو بنا رہے ہوں گے۔ ان کے گھر تک جاتے جاتے میرے قدم کئی بار رکے، لیکن ڈاکٹر حیات کا مسکراتا ہوا چہرہ کہہ رہا تھا۔ ’’میں نے زندگی کی ہر شکست کو فتح میں تبدیل کر دیا ہے۔‘‘
میں ڈاکٹر حیات کے ہاں پہنچا، و وہ لوگوں کے ہجوم میں بیٹھے حسب عادت دلکش انداز میں گفتگو کر رہے تھے۔ ان کی گفتگو کا موضوع ان کی مرحوم بیوی تھیں۔ وہ ان کی ایک ایک خوبی بیان کرتے کرتے اچانک خاموش ہوجاتے۔ اس خاموشی کا سبب غالباً ان کا وہ غم تھا جسے وہ برداشت کر رہے تھے۔ چند دنوں کے بعد ڈاکٹرصاحب پھر اسی انہماک سے اپنے کام میں مصروف تھے۔
٭٭
ایک دن میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھ ہی لیا:
’’ڈاکٹر صاحب آپ کو بیگم صاحبہ کی یاد تو بہت ستاتی ہوگی؟‘‘
’’مجھے ان کی یاد ستاتی نہیں، بلکہ ان کی یاد آتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’موت یا کوئی حادثہ ایک فطری امر ہے اور مقررہ وقت پر یہ اتفاقات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ کسی مرنے والے یا زخم خوردہ سے ہمدری انسانیت کا ایک اہم اور مقدس فرض ہے لیکن ہم مرنے والے کے بارے میں جن جذبات کا اظہار کرتے ہیں، وہ اپنے نقصان یا اپنی خود غرضی کے پس منظر میں ہوتا ہے۔ اس طرح ہم شعوری طور پر اپنے آپ کو کسی الجھن میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔‘‘
’’معاف کیجیے ڈاکٹر صاحب، آپ کی بات واضح نہیں ہوئی ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے بات کو مثال سے واضح کرتے ہوئے کہا:
ایک ادھیڑ عمر کی خاتون لالچی اور خود غرض تھیں۔ اچانک ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ انھیں اتنا صدمہ ہوا کہ ان پر مسلسل غشی کے دورے پڑنے لگے۔ اس خاتون میں انا کا جذبہ بھی بہت زیادہ تھا۔ خاوند کی موت نے اسے یہ احساس دیا کہ اب اس کی انا کو جگہ جگہ ٹھیس پہنچنے لگی۔ یہ خیال آتے ہی وہ چلانا شروع کردیتیں، اب میرا یہاں کون ہے، میں کس کے سہارے زندہ رہوں گی، مین تنہا ہوں۔‘‘
’’لیکن ڈاکٹر صاحب، خاوند کی موت پر اس قسم کے جذبات کا اظہار بالکل فطری ہے۔‘‘
’’جی ہاں، لیکن یہ بھی سوچئے کہ اس نے ایک بار بھی اپنے خاوند کی کسی خوبی کا ذکر کیا اور اپنے معصوم بچے کے بارے میں کچھ کہا؟ اس مثال سے میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کسی حادثے یا ناخوش گوار واقعے پر انسان کو ہمت نہیں ہار دینی چاہیے، بلکہ قدرت کی رضاکے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے ہر دکھ، ہر درد کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
’’ڈاکٹر صاحب، ہر شخص آپ کی طرح قوتِ ارادی کا اظہار نہیں کرسکتاـ۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کہنے لگے:
’’بھائی میں ایک عام انسان ہوں، اگر میں یہ سوچنا شروع کردوںکہ میری بیوی مجھے بے یار و مددگار چھوڑ گئی ہے تو ظاہر ہے یہ احساس آہستہ آہستہ مجھے اپنی گرفت میں لے لے گا۔ مطالعے اور مشاہدے سے ہمارے نظریات میں وسعت آتی ہے، ہماری قوت فیصلہ بڑھتی ہے اور ہم بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کرنے کا عزم کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ وہ ہاتھ پاؤں بھی نہ ہلائے اور ا سکے سب کام اپنے آپ ہوتے چلے جائیں تو یہ ناممکنات میں سے ہے۔‘‘
’’کوشش کے باوجود بھی کچھ کام ہمیں ناممکن کیوں نظر آتے ہیں؟‘‘
’’اس لیے کہ وہ کام ہم خلوص سے نہیں کرتے۔ جس کام میں ہمارا خلوص شامل نہیں ہوگا، اس کے بارے میں ہمارا فیصلہ کبھی درست نہیں ہوگا۔ ایک بات اور یاد رکھیے کہ کوئی کام کرتے وقت ہم جو غلطیاں کرتے ہیں، انہیں ذہن پر سوار نہ کیجیے بلکہ سوچئے کہ انسان سے غلطی ہوتی ہی ہے۔ اس احساس کے تحت غلطی کو درست کرنے کی کوشش کیجیے۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب، میں آپ کا بہت وقت ضائع کرتا ہوں۔‘‘ ایک روز میں نے ان سے کہا۔
وہ کہنے لگے: ’’جو بات کیجیے، اس کے بارے میں کبھی منفی انداز میں نہ سوچئے۔ آپ جب بھی مجھ سے ملنے آئیں، یہ تاثر لے کر آئیے کہ تبادلہ خیال کے ذریعے ہم وقت کا بہت ہی صحیح استعمال کرتے ہیں۔ مثبت انداز فکر ہمیں آگے برھنے میں مدد دیتا ہے۔ اپنے ہر لمحے کو قیمتی تصور کریں اور زیادہ سے زیادہ خوش رہنے کی عادت ڈالیں۔ منفی اندازِ فکر کی ایک مثال سن لیجیے۔ ایک لڑکا جب مدرسے میں پڑھتا ہے تو وہ کالج میں جانے کی آرزو رکھتا ہے۔ کالج کے بعد اس کا مطمح نظر یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی اعلی عہدے پر فائز ہوجائے اور جب وہ کسی عہدے پر فائز ہو جاتا ہے تو کسی دولت مند خاتون سے شادی کی آرزو اسے چین نہیں لینے دیتی۔ اپنی ان تمام آرزوؤں کی تکمیل کے بعد ایک وقت آتا ہے کہ اسے اپنی کسی خواہش کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے زندگی کا بہترین حصہ آرزوؤں کی تکمیل میں گزار دیا اور اسے کچھ نہیں ملا۔
’’اس کے برعکس ایک مثبت اندازِ فکر رکھنے والا فرد یہ سوچتا ہے کہ وہ علم کی پیاس بجھائے گا، معاشرے کا ایک مفید فرد بنے گا اور انسانیت کی خدمت کرے گا۔ ایسا فرد زندگی کے ایک خاص موڑ پر پہنچ کر آسودگی سی محسوس کرے گا۔ اپنے ماضی پر اسے تاسف نہیں ہوگا اور مستقبل اسے زیادہ سہانا نظر آئے گا۔ ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنے مستقبل کے لیے کچھ نہ کچھ سوچتا رہے، لیکن اس سوچ کو اپنے اوپر مسلط نہیں کرلینا چاہیے۔‘‘lll
مرسلہ: اقبال احمد ریاض
وانم باڑی (ماخوذ اردو ڈائجسٹ)