کبھی کبھی ہوتا ہے نا کہ آپ بہت زیادہ مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں اور اس سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ آپ ہر طرف سے لاچار اور بے بس ہوتے ہیں۔ روز بروز زندگی کا گھیرا تنگ ہوتا جاتا ہے اور آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا ہو جو اس مشکل سے نکلنے میں آپ کی مدد کرے۔ یا آپ کی ہمت بندھائے اور آپ کی ساری پریشانی، دکھ اور تکلیف کو سمیٹ لے اور آپ ہر پریشانی سے آزاد ہوجائیں۔ اس کرۂ ارض پر ایسی ایک ہی ہستی ہے، بے غرض محبت کرنے والی، بے شمار چاہتیں لٹانے والی اور آپکے ہر دکھ کو سمیٹنے والی، ایسی ہستی ’’ماں‘‘ ہے۔
لفظ ’’ماں‘‘ تو بولتے ہوئے ہی ایسا سکون بخشتا ہے تو جب آپ ماں کی گود میں سر رکھتے ہیں تو ماں آپ کے ہر دکھ اور تکلیف کو اپنے سینے میں سمیٹ لیتی ہے اور آپ دنیا بھر کے غموں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔
ماں اور اولاد کا تعلق دنیا کے ہر تعلق، ہر رشتے سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس تعلق کو ختم نہیں کرسکتی۔
ماں کے بارے میں بہت سے لوگ بہت کچھ کہتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ زندگی کڑی دھوپ ہے، جس میں ماں ایک گھنا سایہ ہے جو اس دھوپ کی تپش کو اپنی اولاد تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ یہ ماں ہی ہے جو راتوں کو جاگ جاگ کر ہمیں سلاتی ہے۔ خود چاہے جتنی تکلیف میں ہو، اولاد کی تکلیف کو دیکھتے ہی اپنا درد بھلا دیتی ہے۔ خود بھوکا رہ کر اولاد کا پیٹ بھرتی ہے۔ اولاد بیمار ہو تو رات رات بھر اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ ہر ماں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد ہر دکھ، تکلیف اور پریشانی سے دور رہے۔
ماں گھنے سائے کی طرح اپنی اولاد کو زندگی کی تپتی دھوپ کی تمازت سے بچاتی ہے۔ چوٹ اولاد کو لگتی ہے تکلیف ماں کو ہوتی ہے۔ زخم اولاد کو لگتا ہے اور درد ماں کو ہوتا ہے۔ کتنا خوب صورت تعلق ہے۔
معلوم نہیں لوگ کس طرح اپنی ماں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں۔ بدقسمت بچے اپنی ماں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، اسے گالیاں دیتے ہیں، گھروں سے نکال دیتے ہیں، اس کی تکلیف کا خیال کیے بغیر اسے گھر کے ایک کونے میں ڈال کر بھول جاتے ہیں کہ ان کی کوئی ’’ماں‘‘ بھی ہے۔ لیکن ’’ماں‘‘ ہے نا۔ اس سب کے باوجود اس کے دل سے ہر لمحہ ایک ہی دعا نکلتی ہے۔ اس کی اولاد جہاں رہے خوش رہے۔ دنیا کی ہر پریشانی اور تکلیف سے آزاد رہے۔
یہ ہوتی ہے ’’ماں‘‘ اسی لیے ’’ماں‘‘
’’زندگی دھوپ اور تم گھنا سایہ‘‘ ll