سیانے عمر بھر کے تجربات کی بنیاد پر زندگی گزارنے کے کچھ گُر بتاتے ہیں۔ سننے والا انھیں سمجھتے ہوئے بھی نظر انداز کردیتا ہے۔ زندگی کے ساتھ چلتے چلتے ہر شخص کو ان باتوں کا فہم آتا جاتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ یہ سمجھ آتے آتے بہت کچھ کھودینے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ لیکن دیر آید درست آید۔ چلئے اُن باریک پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں، جو کبھی معاشرتی دباؤ اور کبھی غلط فہمیوں کے باعث نظر انداز کردیے جاتے ہیں:
یوں تو معاشرہ لوگ بناتے ہیں لیکن ہمارے ہاں رواج کچھ یہ ہوچلا ہے کہ لوگ معاشرے کی نظر میں خود کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ اس کوشش میں وہ بہت کچھ کھوبھی بیٹھتے ہیں، جن میں ان کی انفرادیت اور قوتِ فیصلہ سرفہرست آتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کی نظر میں اچھا دکھنے کی سوچ عام ہے۔ کوئی بھی معاملہ ہو یہی جملے سننے میں آتے ہیں: ’’لوگ کیا کہیں گے؟ برادری میںناک کٹ جائے گی، ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ زمانے کی پرواہ کرتے ہوئے کچھ فیصلے کرتولیے جاتے ہیں،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مضمرات بھی سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ صرف فیصلے ہی نہیں، ایسا انسانی کردار اور تعلق داری میں بھی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے رویوں اور کردار میں ایسی تبدیلی لاتے ہیں، جو معاشرے کے لیے قابلِ قبول اور اپنی ذات کے لیے غیر موزوںثابت ہوتی ہے۔ مثلاً حامی بھرنے کی عادت۔ لوگ محض دوسروں کی نظر میں اچھا بننے کے لیے اُن کی ہر بات مانتے ہیں، اپنی اہم مصروفیات کو دوسروں کے غیر اہم کاموں کے لیے قربان کردیتے ہیں۔ ایک صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے تعلیمی نتائج کے خراب ہونے کی وجہ یہ رہی تھی کہ وہ دوسروں کی خدمت کے چکر میں پڑھنے کا وقت ہی نہیں نکال پاتے تھے۔ دوستوں کو تو انکار کرنا گویا ان سے گستاخی کے مترادف ہوتا ہے کہ کہیں دوست ناراض نہ ہوجائے، دوست اسے خود غرض ہی نہ سمجھ بیٹھے۔ حتیٰ کہ وہ دوستوں کی پیشکش پر پڑھائی چھوڑ کر کھیلنے چلے جاتے۔
اپنی ذات سے متعلق امور پر خود فیصلہ کرنے کی بجائے دوسروں کی رائے لینا خود اعتمادی کی کمی کی علامت ہے۔ اکثر لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی حق تلفی ہوتا دیکھتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین کسی بھی معاملے میں اپنے رائے پر ڈٹ جانے کو معیوب تصور کرتی ہیں کہ اس معاشرے میں لڑکی کا من مانی کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ موقع پر آواز نہ اٹھانے والی خواتین بعد کی زندگی میں ہر لمحہ ہی عدم اطمینان اور محرومی کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں اور اس وقت پر پچھتاتی ہیں، جب انھوں نے اس اہم فیصلے کی مخالفت چاہتے ہوئے بھی نہ کی تھی۔
کچھ لوگ ناکامی کے خوف سے کوئی قدم اٹھانے سے گریز کرتے ہیں، حالانکہ ناکامیاں ایک طرف تو نئی کوشش کی تحریک دیتی ہیں، دوسری طرف نئے راستوں کی طرف رہنمائی بھی کرتی ہیں۔ یہ سوچ کہ ناکامی، بدنامی کا باعث بنے گی حوصلہ کو پست کرتی ہے ایسی سوچ اور خوف کے حامل لوگ دوسروں پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔
تجربات کے حصول کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ شرمندگی ہے۔ اکثر اوقات لوگوں کو بروقت اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے۔ لیکن وہ محض اس سوچ کی بنیاد پر غلطی کا ازالہ نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ پہلے خود یہ قدم اٹھایا اب پیچھے ہٹ رہا ہے، جن لوگوں کا مشورہ نہ مانا تھا، وہ طنز کریں گے۔ جب غلطی کی تلافی کا وقت نکل جاتا ہے تو یہ پچھتاوا رہ جاتا ہے کہ کاش شرمندگی کی پرواہ نہ کی ہوتی۔
زندگی ہر لمحہ انسان کو کچھ نہ کچھ سکھارہی ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ زندگی کے سبق کو سمجھا جائے اور پھر اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ یہ سمجھ اور عمل بروقت ہونا چاہئیں۔
——