ایک قابلِ تعریف انسان ڈاکٹر البرٹ رسٹن ایلن نے زندہ رہنے کے لیے ایک بنیادی قاعدہ اس طرح بیان کیا ہے: ’’زندگی ہمیں وہی کچھ دیتی ہے جو ہم اس میں ڈالتے ہیں۔ یہ خیال کرنا کہ اس کا الٹ ممکن ہے، اپنے آپ کو فریب دینا ہے۔‘‘
انسان نے دوسرے جانداروں کی نسبت اپنی زندگی کا وقت فطرت کی خلاف ورزی کرکے مختصرکرلیا ہے۔ ایک کتا دو برس میں جوان ہوجاتا ہے اور اس کی زندگی اس مدت کا پانچ سے سات گنا ہوتی ہے جبکہ انسان ۲۰ برس کی عمر میں بالغ ہوتا ہے۔ اگر ہم ۲۰ میں سات گنا مزید بڑھا دیں تو انسان کو ۱۶۰ برس زندہ رہنا چاہیے۔ کچھوے اور کئی پرندے ایک سو سے تین سو برس تک زندہ رہتے ہیں۔
زندہ اشیاء کے بارے میں مطالعے سے ہم عمرکے اس فارمولے پر پہنچتے ہیں کہ پیدائش سے بلوغت کے عرصے کا سات گنا ہر نوع حیوانی کی طبعی عمر ہے۔ یہ فطرت کی طرف سے عمر کا پیمانہ ہے اور انسان کی عمر بھی اس کے مطابق ہونی چاہیے۔ ہم جانوروں کی نسبت زیادہ عقل اور سمجھ رکھتے ہیں، اس لیے ان سے بھی زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں۔
کیا یہ بات ممکن ہے؟ ہاں پہلے بھی ایسا ہوا ہے اور اب بھی ہورہا ہے۔ روئے زمین پر مختلف دور دراز علاقوں میں ایسے لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو برسوں کے بجائے دہائیوں میں شمار کرتے ہیں۔ کوہ ہمالیہ کے اونچے پہاڑوں پر اور چین کے وسیع میدانوں میں رہنے والے لوگوں کی اوسط عمر ۱۱۰ سے ۱۲۰ برس تک ہے۔ کئی ملکوں کے سائنس دانوں نے ان کے درمیان رہ کر ان کے کھانے پینے اور بود وباش کے طریقوں کا مطالعہ کیا ہے۔
آج سے کئی برس پہلے ڈاکٹر بینڈکٹ لسٹ نے کہا تھا: ’’مجھے بتایا جائے کہ ایک آدمی کیا کھاتا ہے اور اپنے جسم کو کیسے رکھتا ہے تو میں بتاسکوں گا کہ وہ کتنے برس زندہ رہے گا۔‘‘
زمین زندگی کی ماں ہے۔ درخت اس سے خوراک حاصل کرکے پھلوں کی نشوونما کرتے ہیں جنھیں انسان اور دوسرے جاندار کھاتے ہیں۔ یہ فطرت کے چکر ( ـCycle)کی اعلیٰ مثال ہے۔ فطرت کے مطابق زندگی گزارنے ہی سے ہمیں دکھ درد سے نجات ملتی اور صحت ترقی کرتی ہے۔ زمین اور خوراک کے ساتھ تعلق ہی میں زندگی کا راز مضمر ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ پچھلے ایک سو برسوں میں ادویات، طبیعات، کیمیا اور خوراک محفوظ کرنے کے علوم میں بے پناہ ترقی کے باوجود ہمارے اکثر لوگ عہد شباب میں مرجاتے ہیں، حالانکہ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے، ہماری طرح کے اعضا رکھنے والے انسان ہماری نسبت دوگنی زندگی پاتے ہیں۔ ان کی قابلِ رشک صحت اور طویل زندگی کا راز فطرت کے اصولوں پر عمل کرنے میں ہے۔ وہ طلوع آفات سے پہلے بیدار ہوتے ہیں۔ چینی اور گندم اصلی حالت میں کھاتے ہیں۔ بہتے دریاؤں اور ندیوںمیں نہاتے ہیں۔ دوائیں استعمال نہیں کرتے اور ننگے پاؤں چلتے ہیں۔
جدید تہذیب میں کتنے لوگ اس طرح زندگی گزارتے ہیں؟ وہ ان باتوں کی اہمیت نہیں سمجھتے، انھیں تکلیف دہ اور رسم و رواج کے خلاف خیال کرتے ہیں اور اس طرح فطرت سے دور رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمارا عہد مسلسل تکان، کینسر، دائمی قبض، پرانی بدہضمی، زکام، درد سر اور دل کی بیماریوں سے عبارت ہے۔ ہم نہیں سوچتے کہ فطرت کو مسلسل چیلنج کرتے رہنے سے وہ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ آپ کے سامنے دو واضح راستے ہیں۔ یا تو آپ فطرت کی سلامتی کے راستوں پر عمل کرکے صحت اور خوشی سے بھر پور زندگی بسر کریں یا پھر اس کے راستوں سے انحراف کرکے دکھی بن کر، آخرکار اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیں۔ فطرت کے قوانین سے ہم آہنگی کا مطلب غاروں والی زندگی نہیں۔ آپ شہروں یا دیہات کے ساتھ فطرت کے قوانین سے ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔ نئی زندگی جدید تہدیب کی نقصان دہ باتوں کو بالکل چھوڑ دینے اور صحت بخش طریقوں پر برابر عمل کا تقاضا کرتی ہے۔
فطرت کا سب سے بڑا قانون حرکت کا قانون ہے۔ یعنی مسلسل اور کبھی ختم نہ ہونے والی حرکت۔ بجلی بھی حرکت ہی کی ایک شکل ہے۔ ساری کائنات ہر دم حرکت میں ہے۔ انسان کی زندگی خود حرکت میں ہے۔ اپنے آپ کو سمجھنے اور نئی زندگی میں داخل ہونے کے لیے یہ بنیادی بات ہے۔
آپ جب شام کو گھر آتے ہیں تو گزشتہ کل کی نسبت ایک مختلف انسان ہوتے ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں ہونے والی تبدیلی خواہ کتنی ہی نازک اور خفیف کیوں نہ ہو، حقیقت میں تبدیلی ہوتی ہے۔ اپنا ہاتھ پھیلا کر دیکھئے، یہ وہ ہاتھ نہیں جو کل، ایک برس یا دس برس پہلے تھا۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں اس کا تھوڑا سا حصہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہے اور اس کی جگہ نئے پٹھوں نے لے لی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کچھ حصے کی پیدائش دوبارہ ہوئی ہے اور یہ سلسلہ لگاتار جاری رہتا ہے۔ آپ کے جسم کا ہر عضو، ہر ہڈی اور ہرخلیہ کبھی نہ ختم ہونے والی تبدیلی کے زیرِ اثر ہے۔ خون کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ذرہ دو ماہ تک زندہ رہنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی نیا خلیہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہی حقیقت ذہن اور جسم میں تبدیلی لانے اور نئی زندگی حاصل کرنے کی بنیاد ہے۔
ایڈولف جسٹ نے کہا تھا: ’’فطرت سچے اور مکمل راستے کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے۔ ہمیں اس کے راستوں سے کبھی گمراہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
ایک گھریلو عورت قانون حرکت کے تحت اپنے گھر کی روز مرہ کی صفائی میں ذرہ برابر سستی نہیں کرتی لیکن وہ اس دانش کو اپنی جسمانی صحت پر استعمال نہیں کرتی۔ اگر اس کا جسم بھاری ہوگیا ہے تو وہ اسے قدرتی بات سمجھ لیتی ہے۔ سر درد اور بدہضمی کی حالت میں خیال کرتی ہے کہ اس کے والدین کو بھی یہی تکلیف رہتی تھی۔ اس طرح وہ قانون حرکت کو رد کردیتی ہے اور بھول جاتی ہے کہ گھرکے مانند اپنا جسم بھی صاف اور صحت مند رکھا جانا چاہیے۔
ہم نے زندگی اور صحت کے قدرتی ذرائع؛ سورج، ہوا، پانی، خوراک اور زمین کے ساتھ اپنے تعلق کو سمجھنے کے لیے بہت کم تحقیقاتی کام کیا ہے، حالانکہ صحت بخشنے والے ان قدرتی ذرائع پر غوروفکر کرنا بڑا ضروری ہے۔
اگر آپ واقعی تادیر زندہ رہنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی سے محبت کرتے ہیں تو اپنے ذہن اور جسم کو اس حال میں رکھنا ہوگا جو آپ کی زندگی کو طول دے اور درد اور بیماری کا یکسر خاتمہ کردے۔
انسان فطرت کے شاہکاروں میں سے ایک ہے۔ وہ اس کارخانہ قدرت کا انمول ہیرا ہے۔ باقی سب کچھ اس کے لیے بنا ہے۔ آپ ایک عظیم الشان کائنات میں رہتے ہیں جو بڑی قوت ، زور اور بڑے نظم و نسق سے چل رہی ہے۔ ایک پتا لے کر اسے بغور دیکھئے۔ سائنس کے مطابق نباتات زندگی کی سادہ ترین قسم ہے۔ تاہم انسان فطرت کی اس سادہ سی شے کی نقل نہیں بناسکا۔ اس پتے میں زندگی کی عظیم قوت موجود ہے۔
کائنات کی دوسری تمام مخلوقات فطرت سے ہم آہنگ ہیں۔ اس کے خلاف کبھی نہیں جاتیں لیکن انسان ساٹھ ستر برسوں میں اپنی زندگی پوری کرلیتا ہے۔ دنیا میں کچھ ایسے انسان بھی ہیں جو اپنا ہر دن فطرت کے قوانین کے مطابق گزارتے ہیں۔ اگر آپ بھی طویل اور مکمل صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ کو متوازن اور قدرتی طریقوں سے اپنی زندگی بسر کرنی چاہیے۔ سنیکا نے کہا تھا: ’’زندگی اس آدمی کے لیے بڑی طویل ہوتی ہے جو اسے باقاعدہ نظم وضبط کے ساتھ گزارتا ہے۔‘‘
نئی زندگی کے لیے پہلے تین اقدام
انسانی جسم اپنی ساخت میں حیرت انگیز حد تک مضبوط اور لچکدار ہے۔ یہ اپنے ساتھ غلط برتاؤ خاصی حیران کن حد تک برداشت کرتا ہے لیکن مسلسل نہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بیماری، جلد آنے والے بڑھاپے اور موت کی وجہ ایک آدھ بدپرہیزی نہیں ہوتی بلکہ ان کے پیچھے فطرت کے بنائے ہوئے قوانین صحت کی عرصے تک خلاف ورزی کارفرما ہوتی ہے۔ چالیس پچاس برس کی عمر میں صحت کی خرابی بیس تیس برس پہلے کی غلطیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔
آپ قوتِ ارادی کی مدد سے بدپرہیزیوں اور بے اعتدالیوں کو اپنی زندگی سے نکال باہر کیجیے اور اپنے بدن سے برسوں کے جمع شدہ زہر خارج کردیجیے جو تشویش، مرجھا دینے والی ذہنی حالت، ناکافی ہوا اور تنگ کمرے میں پڑے رہنے سے پیدا ہوتے ہیں۔
فطرت کے مطابق زندہ رہنا بالکل آسان ہے۔ اس کے لیے تین قاعدے ہیں جن پر ایک مرتبہ عمل پیرا ہوکر استقلال کے ساتھ جمے رہنا لازمی ہے:
۱- جسمانی زہر خارج کیجیے: غیر قدرتی زندگی گزارنے کی وجہ سے پیدا شدہ جسمانی ضعف اور کمزوری دور کرنے کے لیے آپ کو اپنے اندر جمع شدہ زہروں کو قدرتی طریقوں سے خارج کرنا ہوگا تاکہ منشائے قدرت کے مطابق آپ نئے سرے سے صحت مند زندگی بسر کریں۔
۲- جسم کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کیجیے: سالہا سال تک قوانین فطرت کی خلاف ورزی سے پیدا ہونے والے زہروں نے آپ کے جسمانی اعضا اور پٹھوں کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی صفائی کرلینے کے بعد آپ کو عوامل فطرت کے ساتھ بڑے محتاط طریقوں سے رابطہ کرنا ہوگا۔
۳- اپنی قدرتی صحت برقرار رکھئے: غیر فطری زندگی کے تباہ کن اثرات دور ہوجانے کے بعد آپ کو مسلسل فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر زندگی بسر کرنی ہوگی۔
یہ تینوں قاعدے بظاہر بڑے سادہ ہیں۔ لیکن اس نئے نظم کو اپنے جسم پر لاگو کرنے سے پہلے چند ضروری باتیں سمجھ لینا بہت ضروری ہے۔
جسم کے اندر جمع ہونے والے نقصان دہ مادے باہر نکالنے کے چار راستے ہیں۔ پہلا راستہ غذا کی نالی سے اجابت کا ہے۔ قبض سے ہونے والی بے آرامی سے ہر ایک آگاہ ہے۔ پیشاب فضلات کے اخراج کا دوسرا اہم ذریعہ ہے۔ علاوہ ازیں جسم صاف رکھنے کے لیے جلد اور پھیپھڑے کے راستے ہیں یعنی پسینہ اور سانس۔ یہ بھی اپنی جگہ بڑے اہم ہیں۔
آکسیجن غذا کا کام دیتی ہے۔ آپ کے جسم کا ہر عضو اور ہر خلیہ خون کی ندی سے غذا حاصل کرتا ہے۔ اگر خون میں غذائیت کی قلت ہے تو وہ جسم کے کمزور پٹھوں کی مرمت نہیں کرسکے گا، اس لیے جس ہوا میں آپ سانس لیتے ہیں، وہ اگر تازہ اور زندگی بخش ہے تو آپ کے خون میں باقاعدہ اور عمدہ خوراک ہوگی۔ یاد رہے کہ آکسیجن خون میں مل کر عمل تکسید (Oxidation) سے اعضا میں حرارت ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ مادہ حیات میں سے بہت سے زہریلے اور فاسد مادوں کا اخراج کردیتی ہے۔ ہمارے جسم کی جلد میں ہزاروں مسام ہیں جو دھوپ، روشنی اور ہوا میں رہنے سے پسینے اور بخارات کے ذریعے فاسد مادوں کو خارج کرتے ہیں۔ دھوپ اور پانی کے بغیر ان کا کچھ حصہ جسم میں سڑ کر جلد پر تعفن پیدا کرے گا۔
مکمل آٹا کھائیے
بہتر ہوگا کہ صفائی کے ساتھ ہم اپنے باورچی خانے کی طرف بھی توجہ دیں، جہاں بالعموم چینی اور سفید آٹا زندگی بخش اجزا کے بغیر ہوتے ہیں۔ گندم کے مکمل آٹے میں معدنی اجزا اور حیاتین بکثرت ہوتے ہیں۔ آٹے کو سفید رنگت دینے کے لیے اس پر کئی عمل کیے جاتے ہیں تاکہ دیکھنے اور کھانے میں اچھا لگے۔ ایسا آٹا اعلیٰ درجے کے حرارے ضرور دے گا لیکن غذائیت بہت کم، اس کے علاوہ چربی میں اضافہ کرے گا، اس لیے آپ کو گندم کامکمل آٹا استعمال کرنا ہوگا۔
آپ کو سفید آٹے کی بنی ہوئی اشیا سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ انہیں خوبصورت بنانے اور محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہونے والے کیمیائی مرکبات صحت کے لیے سخت مضر ہوتے ہیں۔ ان میں شامل برومین کتوں میں پاگل پن پیدا کرتی ہے۔ لہٰذا یہ عام آدمی کا ذہن متوازن رکھنے میں کوئی مدد نہیں کرتے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ فلور ملوں کے لیے برومین کا استعمال قانون کی رو سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
سفید آٹے، سفید چینی اور بازاری پنیر کا استعمال آپ کو اپنی نئی زندگی کے پہلے دن سے چھوڑ دینا چاہئے تاکہ ان کے اثرات آپ کے جسم سے بالکل ختم ہوجائیں۔
یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ آدمی اپنی قبر اپنے چمچ کے ساتھ کھودتا ہے، لہٰذا آپ کے لیے غذا کا صحیح انتخاب لازم ہے۔ مہنگی مٹھائیوں اورمیٹھی ڈشوں سے بچئے، انہیں خوبصورت زہر کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔
ہر کھائی جانے والی غذا کی تاثیر کا آپ کو علم ہونا چاہیے۔ آپ کبھی اپنی کار کے پیٹرول میں ریت ڈالنا پسند نہیں کریں گے۔ پھر اس قسم کا سلوک آپ اپنے جسم کے ساتھ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اپنی نئی زندگی کی ابتدا اندرونی غسل سے کیجیے تاکہ آپ سچی صحت سے حقیقی طور پر بہرہ ور ہوسکیں۔
ڈاکٹر بینڈکٹ کے الفاظ میں آپ اس حقیقت کو ہر دم یاد رکھئے: ’’فطرت ایک عظیم ریکارڈ کیپر ہے۔ انسان کی پیدائش کے دن سے اس کی کتابیں کھل جاتی ہیں۔ اسی لمحے سے اس کا ہر فعل، غذا کا ہر لقمہ، سورج کی ہر شعاع اور ہر سانس اس کے فائدے یا نقصان میں درج ہوتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو دھوکا دے سکتا ہے مگر عظیم فطرت کو ہرگز نہیں۔‘‘
——