انسان کی زندگی بہت قیمتی ہے وہ ہر چیز سے بڑھ کر اس کی حفاظت کرتا ہے اور ہر قیمت پر اس کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ اور اسے نہایت آرام و سکون اور اپنی خواہشات کے عین مطابق گزارنا چاہتا ہے۔ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں وہ دوسروں کی دخل اندازی اور ہر طرح کی پابندیوں کو یکسر ناپسند کرتا ہے۔
اس ساٹھ ستر سالہ اوسط زندگی میں انسان کیا کیا خواب دیکھتا ہے اور ان خوابوں کی تکمیل کے لیے کس قدر جدوجہد کرتا ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔اعلیٰ تعلیم اور اونچے مراتب کے حصول کے لیے، دولت، شہرت اور عیش و آرام کے لیے کیسے کیسے پاپڑ بیلتا ہے اور کیا کیا مشکلات اور تکالیف برداشت کرتا ہے،یہ بھی ہم سب دیکھتے ہیں۔ اور پھر اسی جدوجہد اور کمال کے حصول کی جنگ لڑتے لڑتے انسان اچانک ختم ہوکر موت کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔ اور جب موت کی آہٹ وہ محسوس کرتا ہے تو سوچتا ہے کہ زندگی تو یونہی گزرگئی اور شاید اب خالی ہاتھ، اس دنیا سے جارہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ اسے زندگی کے اس مرحلۂ موت کا علم نہیں ہوتا، وہ جانتا ہے کہ ایک دن مرکر اسی طرح ختم ہوجانا ہے، جس طرح اب سے پہلے لے لوگ ختم ہوگئے مگر اس کے باوجود وہ اپنی خواہشات اور تمناؤں سے آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
جبکہ موت ایک کانٹے کی طرح انسانی دل میں ہمیشہ کھٹکتی رہتی ہے وہ موت سے فرار کی بڑی کوشش کرتا ہے مگر کیونکہ وہ دنیا کی اٹل حقیقت ہے، اس لیے اس سے آنکھیں چرانے پر قادر نہیں ہوتا اور بالآخر کل نفس ذائقۃ الموت کی زد میں آجاتا ہے۔اور پھر گوشت پوست کا جسم خاک میں مل جاتا ہے۔ موت ایک خوفناک سائے کی طرح اس پر چھائی رہتی ہے اور جس کاخوف اسے کرب و الم میں مبتلا رکھتا ہے، آلیتی ہے۔ جبکہ دنیا کے عیش و آرام سے دوری کا تصور ہی اسے لرزا دیتا تھا مگر جب آگہی کے در کھلتے ہیں اور زندگی کی حقیقت سے آشنائی حاصل ہوتی ہے اس وقت اس کی مہلتِ عمل ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ کیا کبھی ہم اس بات پر ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچتے ہیں کہ یہ زندگی کیا ہے؟ کیوں ہے ؟اور کس نے ہمیں کس لیے عطا کی ہے؟ جی ہاں! یہ سوالات بے کار سوالات نہیں بلکہ زندگی کے بے شمار رازوں سے پردہ اٹھانے والے سوالات ہیں۔ اور انسان کی اصل اور حقیقی کامیابی کا دارومدار انہی بنیادی سوالات کے صحیح جوابات تلاش کرنے پر ہے۔
زندگی درحقیقت حرکت کا نام ہے اور اسے حرارت، عشق کی قوت بخشتی ہے۔ جب انسان مادے کی بے ثباتی اور زندگی جاوداں کے اسرار کو سمجھ لیتا ہے، تب اسے موت سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا۔ جسم کی قید سے آزادی، اس کی آخری خواہش و تمنا نہیں رہتی بلکہ انسان اس حقیقت کو جاننے کے لیے بے تاب رہتا ہے جو اس ناپائیدار نقش کے مٹ جانے کے بعد آشکارا ہوگی۔ موت و زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد انسان موت سے نہیں بلکہ اپنے رب کے سامنے جواب دہی سے خوف کھاتا ہے۔ اپنے مقصد سے لاپرواہی، اسے بے چین کیے دیتی ہے۔
یہ دنیا دراصل امتحان گاہ ہے اور انسان کی زندگی امتحان کی مدت۔ اس امتحان میں ایک خاص سہولت ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس امتحان کا پرچہ بالکل آؤٹ ہے اور انسان سے مطلوب ہے کہ وہ ان سوالات کا بہترین جواب دے۔ اور اس سے آگے بڑھ کر یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ انسان اپنے غلط جوابات سے کبھی بھی رجوع کرسکتا ہے اور اس کا رجوع اس کی قدرومنزلت اور اس کے اسکور میں اضافہ کا ذریعہ بنتا ہے نہ کہ کمی کا۔ جی ہاں! یہ تو وہ سہولت ہے جو اس امتحان گاہ میں ہر وقت ہر آدمی کو حاصل رہتی ہے۔ مگر یہ اسی وقت تک ہے ، جب تک انسان امتحان گاہ میں ہے اس سے نکل جانے کے بعد یہ سہولت ختم ہوجاتی ہے اوراسے موت کہتے ہیں۔
ایک بار موت کے فرشتے کو اپنا پیپر دیے جانے کے بعد پھر ندامت کے آنسو بھی کام نہ آئیں گے۔ اب صرف نتیجہ کا انتظار رہے گا جو روز قیامت حساب کتاب ہونے کے بعد ملے گا۔ اور اپنے اعمال کے مطابق اچھا یا برا رزلٹ نکلے گا۔ اگر کوئی طالب علم امتحان میں پرچہ کے سوالات حل کرنے کے بجائے پیپر کی آرائش میں لگ گیا اور وقت ختم ہونے کے بعد اسے احساس ہوا کہ یہ میں نے کیا کیا، پرچہ حل کرنے کی قدرت کے باوجود میں کاپی کو خوبصورت بنانے میں لگا رہا تو وہ ناکام ہوجائے گا۔ ایسا ہی انجام اس شخص کا ہے جو دنیا کی آرائش و ترقی میں غرق ہوا اور جس مقصد کے لیے اسے پیدا کیا گیا، اس سے غافل رہا موت آنے کے بعد اس کافر یاد کرنا اس کے کام نہ آئے گا۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اصل گھر کی اہمیت کو سمجھے اور اس کی تیاری میں لگا رہے اور اپنی حقیقی منزل کو پالے۔ نیک اعمال کی وجہ سے دائمی زندگی کا خوش کن تصور انسان کو دنیاکے غموں میں بھی سکون سے رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت دل کو مطمئن رکھتی ہے۔ یہ دنیا اوراس کی تمام نعمتیں انسان کے لیے ہیں۔ اور اس لیے ہیں کہ انسان ان سب کا استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی کو حسین اور کامیاب بنائے۔ فرمایا: ’’بے شک دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔‘‘ اگر ایسا ہے تو پھر ہماری ذمہ داری ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کے احکام و خوشنودی اور اس کی زندگی کو مدنظر رکھیں، جس کے لیے ہمیں یہاں بھیجا گیا ہے۔ اور اپنی ابدی زندگی کو سنوارنے میں لگ جائیں کیونکہ یہ زندگی ملی ہی اس لیے ہے کہ اس میں آئندہ زندگی کی تیاری کی جائے۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے۔ اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔‘‘ (آل عمران: ۱۸۵)
اللہ کے رسولؐ نے ان لوگوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی ہے جو دوسروں کا حق مارنے اور ان کے مال کو ناجائز طریقے سے کھاتے ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں واضح طور پر فرمایا ہے:
لَا تَأْکُلُوا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ۔
’’تم لوگ اپنے مالوں کو آپس میں باطل اور ناحق طریقے سے نہ کھاؤ۔‘‘
ّٓاسی طرح حضورﷺ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ دنیا میں جس نے بھی کسی کا حق مارا ہوگا وہ اس حق کو قیامت کے دن اپنی نیکیوں کی صورت میں ادا کرے گا۔ قیامت کے دن جب کہ انسان ایک ایک نیکی کا محتاج ہوگا۔ میراث کا حق وارث کو دلوانا اور دینا حقوق العباد میں سے ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک بندہ خود معاف نہ کردے۔
لڑکیوں کو وراثت سے محروم کرنا نا انصافی اور ظلم ہی نہیں اللہ اور اس کے رسول کے واضح احکام سے بغاوت ہے اور اس کا نتیجہ قیامت کے روز دوزخ کی صورت میں مل کر رہے گا۔ خواہ کتنی ہی عبادات کیوں نہ جمع کرلی گئی ہوں۔
آج ہمارے سماج میں اسے بڑی آسان اور معمولی چیز سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے مگر اللہ کے رسول کی احادیث بتاتی ہیں کہ ہمارا یہ طرز فکروعمل ہمیں جہنم کی طرف دھکیل رہا ہے۔ مگر مسلمان اس سے غافل ہیں۔