آج کل زندگی کے لطف کی بات اکثر سننے میں آتی ہے۔ سننے ہی میں نہیں، دیکھنے میں بھی آتی ہے۔ جیسے جیسے تمدن کی سہولتیں دنیا میں بڑھتی جارہی ہیں، عیش و عشرت کی نت نئی صورتیں نکلتی چلی آرہی ہیں۔فیشن کی موجودہ ترقیوں سے پہلے زندگی کا لطف بہت محدود اور مختصر تھا، جیسا کہ آج کل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب لطف دینے والے تماشے، نت نئے تماشے جگہ جگہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ موسیقی اور رقص کی جنتیں کبھی بڑی دشواریوں سے ملتی تھیں، مگر اب بالکل عام اور ارزاں ہیں، سنیما کے رو پہلے پردوں نے لذتوں کی صدا گھر گھر بانٹ دی ہے۔ سنیما گھروں سے باہر بھی سچ مچ کی پریاں سڑکوں اور گلیوں میں اٹھلاتی نظر آتی ہیں۔ رسیلے گانے تو گویا ہوا ہی میں گھلے ہوئے ہیں۔ پھر زندگی کے ہر کام میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ انگلیوں کے ایک اشارے پر روشنی ہوجاتی ہے، ہوا چلنے لگتی ہے، اور پانی بہنے لگتا ہے۔ دنوں کا سفر گھنٹوں میں اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہوجاتا ہے اور آرام ایسا کہ گھر یاد نہ آئے۔
اتنی سہولتوں اور تفریحوں کے ہوتے ہوئے حیرت ہے کہ پھر بھی زندگی کے لطف میں کمی کی شکایت کی جاتی ہے، تعجب ہے کہ سکھ چین نہیں ملنے کا شکوہ کیا جاتا ہے، ہر شخص اپنے آپ کو کسی نہ کسی درد سر میں مبتلا بتاتا ہے کسی کا دل و دماغ اندیشے اور فکر سے خالی نہیں؟ یہ بات واقعی سوچنے کی ہے اور تردد کی بھی ہے۔ ظاہر میں تو آج کی دنیا اندر سبھا دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اندر ہی اندر شمشان بھومی کی طرح جل رہی ہے۔ یہ تو بڑی خطرناک علامت ہے، یہ تو کچھ ویسا ہی اندرونی بخار ہے جو دق کے مریض کو ہوجاتا ہے، یا پھر جوالامکھی ہے جو ایک شاندار شہر کی چکنی زمین کے نیچے آہستہ آہستہ سلگ رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف زندگی کے لطف کی فراوانی ہے اور دوسری طرف بے لطفی کا یہ سامان! اس سے اتنا معلوم ہوجاتا ہے کہ ہماری نئی دنیا کی بنیاد ہی میں کہیں کوئی اینٹ ٹیڑھی پڑگئی ہے۔ تبھی اتنی شاندار عمارت اس طرح ڈول رہی ہے، جیسے اب گری، تب گری۔
معلوم ہوتا ہے کہ نئی دنیا کے بنانے والوں سے کوئی بنیادی چوک ہوگئی ہے، اس زمین میں اور اس زمین پر زندگی کے بارے میں کوئی گتھی الجھی ہی رہ گئی ہے۔ یا کوئی گرہ ڈال دی گئی ہے۔ مجھے تو یہ گرہ آنت ہی میں پڑی معلوم ہوتی ہے نتیجہ یہ ہے کہ آج کا انسان اوپر سے دیکھنے میں تو ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے مگر اندر سے بے چین ہے۔ بعض وقت اس پر درد کا شدید دورہ بھی پڑجاتا ہے۔ تب دنیا دیکھتی ہے کہ یہ سجا سجایا آدمی کتنا دکھی ہے۔ اس کو کوئی روگ لگ گیا ہے جو ہوسکتا ہے جان لیوا ہی ثابت ہو۔ معاملہ نازک ہے، یونہی چھوڑ دیتے ہیں تو ہر قسم کے آرام کے باوجود روگ بڑھتا ہی جائے گا۔ پورے علاج کی کوشش کرتے ہیں تو آنت کا آپریشن کرنا پڑے گا، پتہ نہیں آپریشن کامیاب ہو یا ناکام؟ ذرا ہاتھ بہکا تو جان گئی، یہ بھی مشکل اور وہ بھی مشکل۔ کیا کریں؟
سب سے پہلے تو زندگی ہی کو سمجھنا چاہیے۔ آخر یہ ہے کیا چیز؟ زندگی ہزاروں برس سے چلی آرہی ہے۔ اور اس کو سمجھنے اور برتنے کے لیے سیکڑوں فلسفے آئے اور گئے، ہم اس وقت کسی فلسفے وغیرہ کے چکر میں پڑنا نہیں چاہتے، ہمارے پیشِ نظر نارمل آدمی کی نارمل زندگی ہے۔ لہٰذا ہم صرف کامن سنس سے کام لینا چاہتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھئے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی بنیادی صفات دو ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کی زندگی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے، کوئی بکھری اور الجھی سی چیز نہیں، انسان کی زندگی ایک کل (ٹوٹل) ہے اس کُل کے دو پہلو ہیں اول یہ کہ آدمی کی ہستی مستقل ہوتے ہوئے بھی دنیا کی دوسری مخلوقات سے جڑی ہوئی ہے، آدمی کے سامنے اور پیچھے بہت سی بے جان چیزیں ہیں، اور بہت سے جانور ہیں، جن کے بغیر آدمی دھرتی پر نہیں رہ سکتا۔ دوم یہ کہ آدمی کی زندگی اس طرح خانوںمیں بٹی ہوئی نہیں ہے کہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں وہ کچھ وقت کے لیے خدا کا پجاری ہے۔ اور کچھ وقت کے لیے کسی حاکم کا ملازم ہے اور کچھ وقت کے لیے وہ آپ اپناہی خادم ہے۔ لہٰذا خدا کے ساتھ تو وہ نیک رہے، اور حاکم کے ساتھ صرف کرائے کا ٹٹو اور اپنے ساتھ موج مارنے والا۔ یہ آدمی کی ذلت ہے کہ اس کو اس طرح گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا سمجھ لیا جائے۔ آدمی خدا،حاکم اور نفس تینوں کے ساتھ ایک ہی قسم کا انسانی تعلق رکھتا ہے۔ ہر حال میں اس کو ایک ہی اخلاقی اصول کی پیروی کرنی ہے۔ ہر جگہ وہ حق اور سچائی پر عمل کرنے والا ہے، چاہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، چاہے نفع ہو یا نقصان۔
دوسری صفت جو انسانی زندگی کے ایک کل ہونے سے نکلتی ہے، یہ ہے کہ انسان ایک سراسر ذمہ دار مخلوق ہے۔ دوسری مخلوقات خصوصاً حیوانات سے انسان کا امتیاز یہ نہیں کہ وہ ہنس سکتا ہے، بول سکتا ہے، یا سوچ سکتا ہے۔ ہنسنا، بولنا اور سوچنا تو دوسرے جانوروں کی صفت بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن ذمہ داری ایک ایسی صفت ہے جس میں خدا کی کوئی دوسری مخلوق انسان کی شریک نہیں۔ صرف انسان وہ ہستی ہے جو اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے جواب دہ ہے، انسان کے ہر فعل کا کچھ نہ کچھ اثر ہوتا ہے۔ اس کے ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آدمی خدا کے تحت پوری دنیا کا ناظم ہے۔ آدمی کے اس انتظام میں ایک تو خود اس کے باہمی تعلقات ہیں، پھر پتھر، پیڑ اور جانور۔ چنانچہ کوئی ذرا سی بھی حرکت کرتا ہے تو اس کا کچھ نہ کچھ اثر آس پاس کی تمام چیزوں اور لوگوں پر پڑتا ہے۔ آدمی کی ہر حرکت سے جیون ساگر میں ایک لہر سی اٹھ جاتی ہے۔ جیسے پانی میں کنکر ہی ڈال دیجیے تو دائرے پر دائرے بنتے چلے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس مخلوق کی ایک ایک جنبش کا یہ اثر ہو اس کو اپنے عمل کے بارے میں کتنا محتاط اور ذمہ دار ہوناچاہئے۔
اگر زندگی کا یہ مفہوم آپ کے دل میں بیٹھ گیا تو اب اس زندگی کے لطف کا مسئلہ خود بخود حل ہوجاتا ہے یعنی جب زندگی ایک کل ہے اور انسان ایک ذمہ دار مخلوق ہے تو ظاہر ہے کہ انسان کی زندگی کا لطف صحیح معنوں میں ایسا ہی ہوسکتا ہے کہ ایک طرف پوری زندگی اس سے مستفید ہو (نہ یہ کہ بعض حواس تو وقتی طور پر لطف اٹھالیں مگر دوسرے حواس محروم رہ جائیں اور پھر زندگی بھر اس تفرقے کا خمیازہ بھگتنا پڑے)۔ دوسری جانب یہ کہ ایک فرد کا لطف دوسرے کی بے لطفی کا سبب نہ بنے، کوئی اس طرح مزہ نہ اڑائے کہ دوسرے کا مزہ کرکرا ہوجائے۔ آدمی کی شخصیت بہت سے اجزا سے مرکب ہے اور یہ اجزا ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ ایک جز کی کسی بھی حرکت کا اثر دوسرے تمام اجزاء پر پڑتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہمارے جسم میں بہت سے اعضاء ہیں اور ہر عضو کی تکلیف یا راحت دوسرے اعضاء پر فوری اثر ڈالتی ہے۔ نوکِ زبان سے کوئی چیز چھوجاتی ہے تو اس کی لذت دل و دماغ سبھی محسوس کرتے ہیں۔ انگلی کے ایک پور میں ذرا سی ٹھیس لگتی ہے تو زبان سے آہ اور آنکھ سے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہماری آنکھیں کوئی جلوہ دیکھیں گی یا کان کوئی نغمہ سنیں گے تو اس کے لطف یا کوفت کا اثر دل و دماغ پر ضرور ہی پڑے گا۔ جسم کا ہر رنج و راحت روح کی اذیت اور مسرت کا باعث ہوگا اور یہ بات یک طرفہ نہیں ہے۔ دوسری طرف بھی جسم کی کوئی خوشی یا غم صحیح معنی میں خوشی یا غم نہیں ہوسکتا جب تک کہ روح کے لیے بھی خوشی خوشی اور غم غم نہ ہو۔ آدمی کی شخصیت میں ایک برقی نظام ہے اور اس نظام کے سارے تار ایک دوسرے سے ملے جلے ہیں۔ ایک سرے پر جو لہر اٹھتی ہے وہ فوراً دوسرے سرے تک چلی جاتی ہے۔ لہٰذا زندگی کا کوئی لطف اس وقت تک حقیقی لطف نہیں ہوسکتا جب تک کہ پوری شخصیت، دل سے دماغ تک جسم سے روح تک لطف اندوز نہ ہو۔
آدمی ایک سماجی مخلوق ہے۔ وہ الگ تھلگ دوسرے سے بے پروا ہوکر نہیں رہ سکتا۔ اس کا ہر بھلا اور برا اپنے پڑوسی کے بھلے اور برے سے لگا ہوا ہے۔ لہٰذا یہ کوئی محض اخلاقی اور مذہبی نصیحت نہیں ہے کہ اپنے پڑوسی کے لیے وہی چاہو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ یہ ایک سراسر افادی اور کاروباری اصول بھی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک عملی پالیسی ہے، اگرچہ یہ پالیسی ایمانداری کی ہے اور واقعی ایمانداری ہی بہترین پالیسی ہے۔ اگر سائنس کا یہ اصول صحیح ہے کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ کوئی شخص برائی بو کر بھلائی نہیں کاٹ سکتا۔ دھن، دھوکے اور دھونس سے ممکن ہے کبھی کوئی جزوی و وقتی فائدہ ہوجائے، لیکن پورا اور پائیدار فائدہ صرف محبت، ایثار اور خلوص ہی سے ہوسکتا ہے۔ یہ تو حفظانِ صحت کا ایک موٹا سا اصول ہے کہ اگر گردوپیش صاف ستھرا نہ ہو تو محض اپنے گھر میں صفائی کسی فرد یا خاندان کو وباؤں سے نہیں بچاسکتی۔ جب تک پورے محلے اور شہر کی آب و ہوا درست نہ ہو۔ کوئی ایک فرد یا چند افراد صحت مند نہیں رہ سکتے، اگر عام فضا جراثیم سے پاک نہ ہو تو چلتے پھرتے بلکہ بیٹھے بیٹھے بھی چھوت لگ جائے گی۔ اسی طرح جب ایک ہی سڑک پر لوگوں کی آمدورفت ہو تو وَن وے ٹریفک کی بے اصول خود غرضی سے آئے دن حادثات ہوتے ہی رہیں گے۔ محفوظ اور پرامن طریقہ یہی ہے کہ آنے والے ایک اصول کے تحت دوسرے راہ گیروں کا لحاظ کرکے آئیں اور جائیں۔ آج کی سیاسی اصطلاح میں یہ معاملہ حق اور فرض کا ہے۔ اگر آپ دوسروں سے زندگی کے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہوں تو ضروری ہے کہ جو حقوق آپ کی زندگی پر ہیں، انہیں ادا کریں۔ یعنی اپنا حق لینے سے پہلے اپنا فرض دیجیے۔ کیونکہ جو آپ کا حق ہے وہ دوسروں کا فرض ہے اور جو آپ کا فرض ہے وہی دوسروں کا حق ہے۔ دنیا جگہ ہی ہے لین اور دین کی ؎
کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
اس طرح زندگی کا لطف ٹیڈی بوائز کی طرح مزا اڑانے کا نام نہیں۔ وہ تو سراسر بے لطفی ہے۔ دوسروں کے ساتھ اپنی بھی زندگی کا لطف کھلنڈرے پن اور اوباشی سے نہیں حاصل ہوسکتا۔ انسان کی زندگی بڑی ذمہ داری کی نعمت ہے۔ اس لیے اس کا لطف بھی سنجیدگی، اعتدال اور احتیاط سے میسر آسکتا ہے۔ دنیا میں کوئی چیز بے قیمت حاصل نہیں ہوتی۔ یہاں ادلے بدلے کا اصول ہی چلتا ہے۔ انعام کسی کام کا ہی ملتا ہے۔ جب ہم کچھ چھوڑتے ہیں تب ہی کچھ پاتے ہیں۔ لہٰذا زندگی کا لطف لینے کے لیے بھی ہمیں اپنے اوپر کچھ ضبط سے کام لینا پڑے گا۔ کچھ پابندیاں لگانی پڑیں گی، کچھ حدیں قائم کرنی پڑیں گی۔ تب وہ صحت مند، پائیدار، مکمل اور نفع بخش لطف میسر آئے گا۔ جس کو ہم راحت، مسرت اور نشاط کے الفاظ سے تعبیر کرسکتے ہیں اور یہ لطف بالکل مختلف ہوگا، اس مریضانہ عارضی ناقص اور نقصان دہ لہو و لعب سے جس کو عیش و عشرت کہا جاتا ہے۔ عیاشی زندگی کا لطف نہیں، قطعی بے لطفی ہے۔ لطف تو وہی ہے نا جس سے زندگی میں نکھار اور سنوار آجائے، زندگی زیادہ قیمتی اور دلکش معلوم ہونے لگے۔ نہ کہ آدمی کی مٹی پلید ہوجائے، حلیہ بگڑ جائے، طبیعت پر سستی اور افسردگی طاری ہوجائے۔ چند لمحے کے مزے کا انجام جنم بھر کی بدمزگی ہو!!
——