زندگی کا پل صراط

ڈاکٹر صفدر محمود

روایت ہے کہ کسی گاؤں کی مسجد کے مولوی صاحب نے وعظ کے دوران یہ انکشاف کیا کہ ہر شخص کو جنت میں داخل ہونے کے لیے پل صراط سے گزرنا پڑے گا جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوگا اور صرف نیک لوگ اسے عبور کرسکیں گے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ہمارے علمائے دین لوگوں کو صراط مستقیم پر لگانے اور انہیں برائیوں سے دور رکھنے کے لیے ڈرایا دھمکایا کرتے تھے اور یوم حساب کا نقشہ یوں کھینچا کرتے تھے کہ دسمبر کی سخت سردی میں بھی سننے والوں کے پسینے چھوٹ جاتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ جب مولوی صاحب نے ان الفاظ میں پل صراط کی تصویر کشی کی تو پیچھے بیٹھا ایک سادہ لوح دیہاتی اٹھا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب اگر پل صراط واقعی بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے تو پھر آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ پل صراط سرے سے موجود ہی نہیں۔
دیہات کے عام بچوں کی طرح پل صراط کی کہانی میں نے بچپن میں سنی لیکن اسے آسانی سے فراموش نہ کرسکا۔ میں سوچتا رہا کہ یہ تمثیل برسوں سے مسجد کے منبروں سے سنائی جارہی ہے تو اس کے پس منظر میں ضرور کوئی سوچ، کوئی فلسفہ ہوگا۔ پھر ذہنی شعور بیدار ہوا اور مطالعے کی دنیا میں قدم رکھا تو پل صراط کا مفہوم سمجھنے کے لیے اولیائے کرام اور بزرگان دین کی تحریریں پڑھنا شروع کیں لیکن پل صراط کا ذکر کہیں نہ پایا۔
ہر انسان کی طرح جب زندگی کی گھاٹیوں سے گزرنا شروع کیا تو اس سفر کے دوران بڑے بڑے مشکل مقامات آئے۔ اور جب کبھی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تو مجھ پر فلسفہ حیات کے راز منکشف ہونا شروع ہوئے۔ تب میری سمجھ میں آیا کہ دراصل زندگی گزارنا ہی پل صراط عبور کرنے کے مترادف ہے۔ اور مولوی صاحب جو پل صراط سے کامیابی کے ساتھ گزرنے پر جنت کی بشارت دیتے ہیں تو اس سے مراد وہ زندگی ہے جو دینی اصولوں کے مطابق گزاری جائے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں بدی کی کشش انسان کو قدم قدم پر اپنی جانب کھینچتی ہے اور حسن دنیا بار بار دامن دل کو آگ لگاتا ہے۔ ایک طرف دنیا کی آسائشیں ہیں، لذت ہے، جھوٹا وقار اور معاشرتی رتبہ ہے، آرام دہ زندگی ہے تو دوسری طرف فقط صبر اور دنیاوی آلائشوں سے دامن بچا کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی منزل مقصود ہے جس کا ثمر، نگاہیں دیکھ سکتی ہیں نہ تصور بتاسکتا ہے۔ ان حالات میں راہِ مستقیم پر کاربند رہنا اور دنیاوی نعمتوں کا ٹھکرانا ہی دراصل پل صراط سے گزرنا ہے اور یہ وہی پل صراط ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔
ظاہرہے کہ زندگی کے پل صراط سے گزرنے کے لیے جہاں سیدھا اور سچا طرز حیات اختیار کرنا لازم ہے وہاں اس کی ایک بنیادی شرط توازن بھی ہے کیونکہ توازن کے بغیر کسی پل پر سے گزرا نہیں جاسکتا۔ میرے نزدیک متوازن اسلامی فلسفہ حیات کا سنگ میل ہے لیکن آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ متوازن زندگی بسر کرنا کس قدر کٹھن اور مشکل کام ہے۔ غور کیجیے تو محسوس ہوگا کہ غیر متوازن زندگی گزارنا، متوازن طرزِ حیات سے کہیں زیادہ آسان اور سہل ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کی حقیقتوں سے گھبرا کر یا لذتوں سے کنارہ کش ہوکر جنگلوں میں چلے جانا اور یادِ الٰہی میں مست ہوجانا (اگرچہ یہ فقر کی منزل کا حصہ نہیں) قدرے آسان ہے۔ اسی طرح خوف آخرت سے بے نیاز ہوکر عیش و عشرت میں ڈوب جانا اور اپنے ضمیر کی ابدی نیند سلا دینا قدرے آسان ہے لیکن دنیا میں رہ کر دنیوی زندگی اختیار کرنا، خوفِ خدا کے سبب ہر بدی سے بچنا بالکل ایسا ہے جیسے انسان سمندر میں رہے اور اس کا دامن بھی نہ بھیگے۔ یہ توازن زندگی کے ہر شعبے کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر آپ بااختیار ہیں اور اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرتے، اگر آپ دولت مند ہیں اور دولت کو نیکی پھیلانے کے لیے استعمال کرتے اور مواقع میسر ہونے کی باوجود غلط راستوں اور شیطانی لذتوں سے کنارہ کش رہتے ہیں، اگر آپ تنگ دست ہیں لیکن ہزار مشکلات کے باوجود اور مواقع میسر ہوتے ہوئے بھی غلط ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی قبول نہیں کرتے تو یقینا آپ پل صراط سے گز رر ہے ہیں۔ جس نے توازن برقرار رکھا، وہ پل صراط سے گزرگیا اور جو پل صراط سے گزر گیا وہ جنت میں داخل ہوا۔
متوازن طرزِ حیات کے تصور کو سمجھنے کے لیے سیرتِ النبیﷺ کا مطالعہ ضروری ہے کیونکہ حضور ﷺ کی زندگی مسلمانوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے اور اس قدر متوازن زندگی کی مثال بنی نوع آدم کی زندگی میں نہیں ملتی۔ آپؐ کا طرزِ حیات دنیوی خوبیوں کا حسین امتزاج ہے۔ آپؐ باپ تھے، بیٹا اور بھتیجا تھے، خاوند تھے، معاشرے میں ایک فرد کی مانند رہتے تھے، ان سب حیثیتوں میں آپؐ پاکیزہ ترین زندگی کا ایک اعلیٰ نمونہ بھی تھے۔ آپؐ نے دنیا ترک کی نہ اسے سینے سے لگایا۔ دراصل یہی وہ توازن ہے جو پل صراط سے گزرنے کے لیے ضروری ہے۔
زندگی میں توازن برقرار رکھنے کے لیے راسخ عقیدے اور مستحکم ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک انسان کا منتہائے مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی نہ ہو، اس وقت تک اسے سکون قلب ملتا ہے نہ متوازن زندگی۔ ہاں، ایک قسم ان حضرات کی بھی ہوتی ہے جو محض دکھاوے یاشہرت کی خاطر اور نیک نامی کے لیے صاف ستھری زندگی گزارتے ہیں۔ یہ انداز زندگی ان کے ایمان کا حصہ ہوتا ہے۔ نہ خوف خدا کا نتیجہ۔ ایسے حضرات اندر سے ڈرپوک اور کمزور ہوتے ہیں اور ساری زندگی شہرت کی آرزو کی صلیب پر لٹکے رہتے ہیں۔
میں پولیس کے ایک ایسے سپاہی سے واقف ہوں جو نیک، عبادت گزار اور مردِ مجاہد تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سپاہی کی تنخواہ اتنی قلیل ہوتی تھی کہ اس میں گزارا کرنا کارِ دارد تھا۔ وہ کئی بچوں کا باپ تھا۔ تنگی، عسرت اور فاقہ کشی اس کا مقدر تھالیکن مجال ہے جو اس نے کبھی حرام کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو جبکہ اس کے ارد گرد ہمہ وقت رشوت کا سلسلہ جاری رہتا۔ انتہائی ایماندار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ شخص بے حد ذمہ دار اور فرض شناس بھی تھا۔ جب بھی اسے پولیس کے دستے کے ساتھ علاقے میں جانا پڑتا، وہ گھر سے اپنا کھانا لے کر چلتا جو فقط چند روکھی سوکھی روٹیوں پر مشتمل ہوتا۔ جب اس کے ساتھی گاؤں کے رئیسوں کی دعوتیں اڑاتے اور مرغ کھاتے، وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنا رومال کھولتا، سوکھی روٹی پانی کے ساتھ کھا کر سجدہ شکر بجالاتا۔ ہر چند کہ اس کے افسر اس کا تمسخر اڑاتے، مگر اس کے ماتھے پر شکن تک نہ ابھرتی، بلکہ آہستہ آہستہ اس کی دیانت سے متاثر ہوکر کچھ اور لوگ بھی راہ راست پر آگئے۔ برائی کا اثر جلدی پھیلتا ہے، گناہ کا جال تیز رفتاری سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے، اس کے مقابلے میں نیکی کا اثر آہستہ آہستہ پھیلتا ہے مگر دیرپا ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک ایسے اسسٹنٹ کلکٹر، کسٹم ڈیپارٹمنٹ سے ملاقات ہوئی جو ریٹائر ہوچکا ہے۔ مجھے اس کی ایمانداری کے واقعات سن کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ نمازی اور پرہیزگار ہونے کے علاوہ یہ شخص بے حد ایماندار تھا حتیٰ کہ وہ گھر سے ہمیشہ اپنی سائیکل پر جاتا اور صرف سرکاری مقصد کے لیے سرکاری کار استعمال کرتا۔
میں نے پرہیز گاری اور ایمانداری کا علیحدہ علیحدہ ذکر جان بوجھ کر کیا ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ انسان نمازی ہو اور پھر ایماندار بھی ہو۔ میں نے ایسے سینکڑوں واقعات اور ہزاروں افسران دیکھے ہیں جو بظاہر نیک اور عبادت گزار ہوتے ہیں لیکن رشوت کو بھی جائز سمجھتے ہیں بلکہ اسے جائز ثابت کرنے کے لیے عجب دلائل دیتے ہیں ۔ اکثر اوقات ایسی عبادت دکھاوا ہوتی ہے، ورنہ اس نماز کا کیا فائدہ جو انسان کے کردار، عادات و اطوار اور سوچ اور فکر کو متاثر نہ کرے۔
میں نے زیادہ تر مثالیں، سرکاری ملازمین کی دی ہیں، شاید اس لیے کہ میرا پالا اسی طبقے سے پڑتا ہے یا اس طبقے کے پاس اتنے اختیارات ہوتے ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر وہ دولت کے انبار لگاسکتے ہیں لیکن ان تمام تر وسائل کے باوجود غربت اور تنگ دستی کا انتخاب کرنا، اللہ تعالیٰ کی رضا پہ راضی رہنا، دوستوں، عزیزوں اور افسروں کو دباؤ برداشت کرنا، اپنی خواہشات کو قربان کرنابڑا ہی مشکل کام ہے۔ اکثر اوقات ایسا انسان معاشرے سے کٹ کے رہ جاتا ہے۔ دراصل ایسی ہی صورت حال کو پل صراط کہتے ہیں۔ یہاں ذرا سی لغزش سے انسان بلندی سے نیچے گرسکتا ہے۔ گویا پل صراط کی بال سے زیادہ باریکی اور تلوار سے زیادہ تیزی سے مراد انہی نفسانی ومادی خواہشات کو قربان کرکے نیکی کا راستہ اختیار کرنا ہے جس پر چلنے والا شخص زندگی بھر پل صراط سے گزرتا رہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہماری یہی زندگی پل صراط کے مانند ہے جسے کامیابی سے عبور کرنا ہی انسانی معراج ہے۔
(مرسلہ: اقبال احمد ریاض، وانمباڑی، ماخوذ: اردو ڈائجسٹ، لاہور)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں