زندہ تو سب ہی ہوتے ہیں مگر زندگی گزارنے کا سلیقہ بہت کم لوگوں کو آتا ہے۔ زندگی کیا ہے؟ اگر محض یہی سوچا جائے تو خود یہ سوال ایک الجھن اور ایک گتھی بن جاتا ہے اور ہم پریشان ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ زندگی کے کچھ مطالبے ہوتے ہیں۔ وہ ہم سے چند فرائض کی تکمیل چاہتی ہے، ایسے فرائض جنھیں ہم اپنی خوشی سے منتخب کرتے ہیں، جن کا بوجھ خوش اسلوبی سے اٹھانے کی ہم نے قسم کھائی ہوتی ہے لیکن جب یہ فرائض ہم سے پورے نہیں ہوتے تو وبالِ جان بن جاتے ہیں اس لیے کہ ہماری زندگی، ہماری روح اور ہمارے باطن کا سفر بہت طویل ہے۔ اس سفر کو طے کرنے میں ہم تھکن سے چور چور ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم وہ چیز ڈھونڈنے کے خواہاں ہوتے ہیں جو خود ہم میں موجود ہے لیکن ہم اس سے بے خبر ہیں، ہم اس راز کو نہیں جانتے اور بھٹکتے رہتے ہیں۔ اگر ہم اس راز کو پاکر خود اپنی تلاش کرلیں تو کیا ہمیں منزل نہ ملے۔ بقول رومی ؎
’’زندگی تم سے صرف اس قوت اور سکت کا مطالبہ کرتی ہے جو تمہارے اندر ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔‘‘
اتنے طویل اور دور دراز سفر کے لیے زندگی کا اتنا چھوٹا سا مطالبہ! لیکن زندگی کے مطالبوں کو زندگی ہی پورا کرسکتی ہے۔ زندگی جو عمل سے عبارت ہے۔ تمام اچھے برے حالات کامقابلہ کرنے کی قوت عمل کی دین ہوتی ہے اور عمل میں ہی زندگی کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ ڈاکٹر مارڈن کہتے ہیں:
’’ہماری ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی کامیابی کے متمنی نہیں ہوتے۔ ہم زندگی کے مادی پہلو کو دیکھنے کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ دل میں پوشیدہ عظیم قوتوں کا ہمیں خیال ہی نہیں آتا، جب کہ یہی قوتیں زندگی کی تعمیر و تکمیل کرنے والی ہوتی ہیں۔ ہم اپنی خواہشوں کے مطابق سوچنے کے بجائے موجودہ کمیوں اور مایوسیوں میں ڈوبے رہتے ہیں۔ ہم خدا کی اس قوت کو بھی بھلادیتے ہیں جس کے سامنے کوئی ناکامی ٹھہر ہی نہیں سکتی۔‘‘
لہٰذا جس عمل میں کامیابی کی لگن شامل ہو وہ زندگی کو خوشگوار اور شخصیت کو پائیدار بناتا ہے۔ زندگی اور شخصیت دونوں کی تعمیر میں انسانی خیالات کو بہت دخل ہے۔ اس سلسلے میں نپولین کا خیال ہے:
’’خیالات ہی انسانی زندگی کو بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ اگر آپ غربت فاقہ کشی اور بیماری کے خیالات کو اپنے ذہن میںجگہ دیں گے تو یہی چیزیں آپ کو زندگی میں حاصل ہوں گی۔ اگر آپ اس کے برعکس سوچنا شروع کریں تو حالات خود بخود بدلتے چلے جائیں گے۔ خیالات شخصیت کو بنانے یا بگاڑنے میں پوری شدت سے کام کرتے ہیں۔ آپ جن چیزوں کا تصور کرتے ہیں ان کے مطابق آپ کی شخصیت ڈھلتی چلی جاتی ہے۔‘‘
خیالات کے ساتھ ساتھ صحت کا بھی انسانی زندگی میں بہت عمل دخل ہے۔ اگر صحت خراب ہو تو اچھے خیالات پیدا ہی نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ جو انسان بہترین صحت کا مالک ہے وہی زندہ ہے کیوں کہ اس کے جسم کی ہر رگ میں زندگی کی لہر دوڑ رہی ہے۔ زندگی کی بازی گاہ میں صحت مند ہی کامیاب و کامران ہوسکتا ہے۔ نتیجتاً زندہ رہنے اور بہتر طور پر زندگی گزرانے کے لیے لازم ہے کہ ہم خود میں جینے کی سکت ، عمل کی قوت، کامیابی کی لگن، خیالات میں پاکیزگی پیدا کریں تب ہی ہمارا شمار زندوں میں ہوسکے گا۔ ورنہ جیتے جی ہم مردہ لاش قرار دئے جائیں گے۔