[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

زندگی کی قیمت

محمد حنیف

اپنے بارے میں ویسے تو ہر شخص کچھ زیادہ ہی خوش فہمی میں مبتلارہتا ہے مگر میں اپنے بارے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں ایک نہایت ہی کامیاب انسان ہوں۔ میں نے اپنی اس چونتیس سالہ مختصر عمر میں جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں اتنی کامیابیوں تک بہت کم لوگوں کی رسائی ہوتی ہے اور میری ان کامیابیوںکے پیچھے میری دو خوبیوں کا ہاتھ ہے۔ ایک خوبی تو میری یہ ہے کہ میں قسمت اور مقدر وغیرہ کا بالکل قائل نہیں۔ میرا یہ ایمان ہے کہ انسان جتنی کوشش اور محنت کرتا ہے اتنا ہی پھل پاتا ہے۔ میں ان بے وقوف اور کم عقل لوگوں میں سے نہیں ہوں جو ساری ساری عمر کسی لاٹری، انعام یا پرائز بونڈ کھلنے کے منتظر رہتے ہیں۔ میری دوسری خوبی میری محتاط طبیعت ہے۔ میں بہت زیادہ محتاط طبیعت کا آدمی ہوں۔ اتنا محتاط کہ مشتاق احمد یوسفی نے اپنے ایک کردار کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اسے اگر آبِ حیات بھی دیا جائے تو وہ اس آبِ حیات کو ابال کر پئے گا۔‘‘ کچھ یہی کیفیت میری ہے۔ ڈرائیونگ کے معاملے میں تو میں ضرورت سے زیادہ ہی احتیاط کرتا ہوں۔ میں کبھی کار چلانے کے دوران کیسٹ پلئیر نہیں سنتا بلکہ اکثر اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں سے بھی باتیں کرنے سے اجتناب کرتا ہوں۔ ’’لونگ ڈرائیو‘‘ پر اگر کوئی میرے ساتھ چلے تو یقینا وہ بور ہوجائے گا۔ میری اسی احتیاط پسند طبیعت کا کمال ہے کہ میں پچھلے سترہ سال سے گاڑی چلاتا ہوں مگر آج تک کسی چھوٹے سے حادثے سے بھی دوچار نہیں ہوا۔ میں نے سترہ سال کی عمر میں گاڑی چلانی سیکھی تھی اور آج میری عمر چونتیس سال ہے اور ان سترہ سال میں میں نے اس شہر میں گاڑی چلائی ہے جہاں ٹریفک اور پیدل چلنے والے دونوں قاعدے قوانین سے بے نیاز اپنی مرضی کے تحت چلتے ہیں۔ جہاں جس کی مرضی چاہے اور جہاں سے چاہے پیدل بھاگ کر سڑک کراس کرلے۔ جس کا جی چاہے اور جسے چاہے اپنی گاڑی کے پہیوں تلے کچل کر بھاگ جائے۔ اس شہر میں میں نے اس طرح سترہ سال گاڑی چلائی ہے کہ آج تک میری گاڑی سے کسی انسان یا کسی گاڑی کو خراش تک نہیں آئی۔ میں یقینا اس کا سارا کریڈٹ قسمت کی بجائے اپنی محتاط طبیعت ہی کو دیتا ہوں کیوں کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں قسمت کا قائل نہیں ۔

مگر کل میرے ساتھ ایک عجیب سا حادثہ پیش آیا۔ جیسے ہی میں نے اپنے بنگلے کے گیٹ سے گاڑی نکالی اور چھوٹی سی سڑک سے ہوتا ہوا مین روڈ کی طرف مڑنے لگا کہ اسی موڑ پر میری بدقسمتی میری منتظر تھی۔ یقینا آپ سوچیں گے کہ جو شخص قسمت کا قائل نہیں وہ بدقسمتی کا کیونکر قائل ہے۔ دراصل مجھے یہاں بدقسمتی کا لفظ مجبوراً استعمال کرنا پڑا۔ آپ اسے زبان و بیان کی مجبوری بھی کہہ سکتے ہیں۔ بہر حال تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ جیسے ہی میں چھوٹی سی سڑک سے ہوتا ہوا مین روڈ کی طرف مڑنے لگا کہ اچانک اسی موڑ پر ایک بوڑھا شخص گاڑی کے بالکل سامنے آگیا۔ میں نے پورے پریشر سے بریک لگائے مگر پھر بھی وہ بوڑھا گاڑی کے کونے سے ٹکرا کر زمین پر گر پڑا۔ میرے ذہن میں آئی کہ گاڑی اسٹارٹ کرکے بھاگ جاؤں۔ مگر بریک کی آواز سن کر اور بوڑھے کو گرتے دیکھ کر کئی پیدل چلنے والے اور آس پاس کے دکاندار وغیرہ سب کے سب گاڑی کی طرف لپکے اور دیکھے ہی دیکھتے ہجوم لگ گیا۔ گھبراہٹ اور خوف کے مارے میرا چہرہ پیلا ہوگیا اور ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ اس بوڑھے کے ہاتھ میں چنے کی بالٹی تھی جو دور پڑی ہوئی تھی اور چنے ساری سڑک پر بکھرے ہوئے تھے۔ میں نے اس بوڑھے پر نظر ڈالی۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ زندہ تھا لیکن اس کے دائیں پیر سے خون بہہ رہا تھا۔ غالباً وہ گاڑی سے ٹکرا کر زمین پر پڑے ہوئے ایک بڑے سے نوکدار پتھر پر گرا تھا۔ جس کے باعث اس کے پیر میں گھٹنے سے نیچے شدید چوٹ آئی تھی اور خون مسلسل بہہ رہا تھا۔

لوگوں کے ہجوم میں سے ہر طرف سے مجھ پر لعن طعن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کوئی کہہ رہا تھا ’’اندھے ہو کے چلاتے ہو، نظر نہیں آتا‘‘ تو کوئی کہہ رہاتھا کہ ’’یہ کاروالے ہیں انہیں کیا اگر ایک آدھ بندہ کچل بھی دیا تو‘‘ ایک دو اسکول کے بچوں کی آوازیں بھی کانوں تک آئیں کہ گاڑی کو آگ لگاؤ مگر مجھے کچھ ہوش نہ تھا، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا ہوگا۔ لوگ میرا اور میری گاڑی کا کیا حشر کریں گے اور یہ کہ یہ بوڑھا زندہ بھی رہے گا کہ نہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ گھبراہٹ کے عالم میں میرے اندر کا سرمایہ دار کب میرے اندر سے باہر آیا اور کب میں خود گاڑی سے باہر آکر اس بوڑھے کے پاس بیٹھ گیا۔ بوڑھا ہوش میں تھا، مگر اس کے چہرے سے نہایت کرب کا احساس ہورہا تھا۔ ہجوم میں سے چند لڑکوں نے میری گاڑی کی درگت بنانی شروع کردی۔ یہ تو خدا کا کرنا اچھا ہوا کہ کہیں سے دو پولیس والے ٹہلتے ہوئے آگئے۔ لوگوں نے انھیں دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے۔ میرے کچھ ہوش بحال ہوئے تو میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بھئی میرا کوئی قصور نہیں۔ میں تو گلی سے سڑک کی طرف گاڑی کو موڑ رہا تھا کہ یہ بڑے میاں یکایک آگے آگئے۔ میں نے تو پورے پریشر سے بریک لگایا۔ بوڑھا کوئی نہایت شریف آدمی معلوم ہورہا تھا اس نے زمین پر لیٹے لیٹے میرے اس بیان کی تائید کی کہ غلطی اس کی اپنی تھی۔ بہر حال ہجو میں سے کچھ لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بوڑھے کو اسی گاڑی میں ڈال کر سول ہسپتال پہنچایا جائے۔ مجھے اعتراض تھا کیونکہ مجھے ایک ضروری میٹنگ میں جانا تھا مگر میں چپ رہا۔ پولیس والوں نے اس بوڑھے کو اٹھا کر میری گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈالا اور وہ دونوں میرے ساتھ آگے بیٹھ گئے۔ ہسپتال میں بوڑھے کے پیر پر پٹی کرانے کے بعد مجھے پولیس والوں سے ’’معاملہ‘‘ نمٹانے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ البتہ اس بوڑھے نے پولیس والوں کے سامنے مجھے اس بات کا پابند کرلیا کہ میں اسے اس کے گھر تک پہنچاؤں اور اس کے چنے کی بالٹی الٹنے سے اس کا جو نقصان ہوا ہے وہ پورا کروں۔ میں نے ہامی بھرلی۔ پولیس کے رخصت ہونے کے بعد بوڑھا مجھے عجیب نظروں سے گھورنے لگا۔ اسے یقین نہیں تھا کہ میں اسے پولیس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر تک پہنچاؤں گا دوسری طرف میری دلی کیفیت بھی عجیب تھی۔ میری چھٹی حس بھی مجھے ڈرا رہی تھی کہ نہ جانے بوڑھے کے گھر والے میرا کیا حشر کریں۔ میں نے ذہن میں سوچ رکھا تھا کہ میں اسے اس کے گھر سے تھوڑی دور چھوڑ کر واپس آجاؤں گا۔ ورنہ اگر اس کے گھر والوں نے مجھے دیکھ لیا اور انہیں معلوم ہوگیا کہ بڑے میاں کا یہ حال میں نے کیا ہے تو یقینا وہ میرے ساتھ کوئی زیادہ اچھا سلوک نہیں کریں گے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے سوچا کہ کیوں نہ بوڑھے سے پوچھا جائے کہ اس کے گھر میںان کا کون کون منتظر ہے۔ حالانکہ میں آپ کوبتا چکا ہوں کہ میں ڈرائیونگ کے دوران بات چیت نہیں کرتا مگر پھر بھی میں نے اس سے سوال کیا کہ کتنے بچے ہیں۔ اس نے جواب دیا ’’چھ‘‘۔ میں نے پوچھا ’’لڑکے یا لڑکیاں؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’تین لڑکے تین لڑکیاں‘‘ ۔ تین لڑکوں کا سن کر میرے چہرے کا رنگ اڑگیا۔ نہ جانے یہ تین لڑکے میرا کیا حشر کریں۔ مگر شاید اس نے میری پریشانی بھانپ لی اور دوسرے ہی لمحے وہ کہنے لگا کہ اس کا سب سے بڑا بیٹا گیارہ سال کا ہے جبکہ لڑکیاں جوان ہیں۔ میرے چہرے پر کچھ اطمینان کی لہر آئی۔ بعد میں اس نے خود ہی آگے بتانا شروع کیا کہ اس کا نام دین محمد ہے اور اس کی بیوی پچھلے سال ٹی بی کے مرض میں فوت ہوگئی اب وہ اپنی تین جوان لڑکیوں اور تین چھوٹے لڑکوں کے ساتھ رہتا ہے اس کی ایک لڑکی اسکول میں استانی ہے جبکہ دوسری دو لڑکیاں گھر میں سلائی کرتی ہیں یہ تینوں لڑکیاں اس کا ہاتھ بٹاتی ہیں اور اپنی شادیوں کے لیے بھی پیسے جمع کرتی ہیں۔ اس نے جب کہا کہ وہ چنے بیچ کر روز کے چالیس پچاس روپے کما لیتا ہے تو میرے ذہن میں فوراً خیال آیا کہ میرا سات سالہ بیٹا گڈو روز اتنے ہی روپے ویڈیوگیم، چوکلیٹ اور آئس کریم پر خرچ کرتا ہے۔ پھر اس نے اپنی بڑی لڑکی کی اسکول کی تنخواہ بتائی تومجھے اپنی بیوی کے بیوٹی پارلر کے بل یاد آگئے۔

اس کی باتوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مجھے اس حادثے کا زیادہ خطاوار نہیں سمجھتا بلکہ اپنی قسمت کو موردِ الزام ٹھہرا کر اسے کوستا ہے۔ حالانکہ میری نظر میں اس کی قسمت سے زیادہ اس حادثے کا ذمہ دار وہ خود تھا۔ مجھے ایسے لوگ قطعی اچھے نہیں لگتے جو اپنی غلطیوں پر ’’بدقسمتی‘‘ کا پردا ڈالتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو توہم پرست اور کم عقل سمجھتا ہوں۔ مگر اس وقت اس بوڑھے کی توہم پرستی اور کم عقلی میرے لیے فائدے مند تھی ورنہ وہ اس حادثے کا ذمہ دار مجھے بھی ٹھہرا سکتا تھا۔

سارے راستے بوڑھا میری رہنمائی کرتا رہا کیونکہ میرا کبھی ان علاقوں سے گزر نہ ہوا تھا۔ مختلف چھوٹی چھوٹی گندی گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک بہت ہی تنگ سی گلی میںداخل ہوئے۔ یہ تو میری ڈرائیونگ کی مہارت تھی ورنہ ایسی گلیوں میں کون گاڑیوں کو لے جاتا ہے۔ اس تنگ سی گلی میں ایک طرف غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ دوسری طرف گندا پانی اور کیچڑ تھا۔ ہر طرف مکھیاں بھنبھنارہی تھیں۔ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان کے آگے اس نے مجھے گاڑی روکنے کو کہا اور کہنے لگا یہ ہے میرا گھر۔میں نے گاڑی روکنے کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالا اور سو سو روپئے کے پانچ نوٹ نکالے اور بوڑھے کو دیتے ہوئے کہا: ’’لو محترم یہ رکھ لو۔اس میں سے تم اپنا نقصان بھی پورا کرلینا اور اپنا علاج بھی کراتے رہنا۔‘‘ کہنے لگا ’’مگر جناب! یہ تو ‘‘ میں نے بات کاٹی ’’کیوں کم ہیںکیا؟‘‘ کہنے لگا: ’’نہیں، نہیں یہ تو کچھ زیادہ ہیں سیٹھ صاحب، میرا نقصان تو سوسوا سو روپئے کاہوا ہے۔‘‘ میں نے اپنی فراخ دلی دکھاتے ہوئے کہا : ’’رکھ لو، ویسے بھی تم اب تین چار روز تک آرام کرو گے، کام پر نہیں جاؤگے، تو یہ کام آئیں گے۔‘‘

وہ پانچ سو روپئے لینے سے ہچکچا رہا تھا، شاید اس کے لیے یہ پانچ سو روپے بہت زیادہ تھے۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ میرا ہفتے دس دن کا سگریٹ کا خرچ ہے اس نے روپے لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے مگر فوراً کہنے لگا کہ میں ایک شرط پر آپ سے یہ پیسے لوں گا وہ یہ کہ آپ چل کر میرے گھر میں ایک پیالی چائے کی پئیں۔ میں نے کہا نہیںمجھے دیر ہورہی ہے۔ وہ کچھ اور سمجھا، کہنے لگا: ’’آپ گھبرائیں نہیں، میں اپنے بچوں سے یہ نہیں کہوں گا کہ حادثہ آپ کی گاڑی سے ہوا ہے بلکہ میں تو انہیں بتاؤں گا کہ آپ نے مہربانی فرما کر مجھے گھر تک پہنچایا ہے۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھو مجھے بہت ضروری کام ہے ابھی میں کچھ اورکہنا چاہ رہا تھا کہ اس کے گھر سے ایک بچے نے باہر جھانک کر دیکھا اور بوڑھے کو گاڑی میں دیکھتے ہی اس نے دروازے پر کھڑے کھڑے اونچی آواز میں اندر کچھ کہا اور دیکھتے ہی دیکھتے اندر سے دو اور لڑکے بھی بھاگ کر باہر آگئے۔ اسی وقت مکان کی کھڑکی کھلی اور اس میں دو تین جوان لڑکیاں کھڑی نظر آئیں۔ ان سب کے چہرے پر ایک عجیب طرح کا تجسس اور مسرت کی کیفیت تھی۔ مسرت شاید اس چیز کی کہ ان سب نے اپنے بوڑھے باپ کو پہلی بار ایک گاڑی میں بیٹھا دیکھا ہوگا اور تجسس اس بات کے لیے کہ آخر یہ گاڑی والا کون ہے؟ جب اس نے ہاتھ بڑھا کر روپے لیے تو میں نے پیچھے مڑ کر پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی جب بوڑھا گاڑی سے اترنے کی کوشش کرنے لگا تو اس کے بچوں کی نظریں اس کے پیر میں بندھی پٹیوں پر پڑیں تو یکایک سب کے چہروں کی رونق غائب ہوگئی۔ کھڑکی سے جھانکتی لڑکیوں کے چہرے بھی بجھ سے گئے۔ بچوں نے بورھے سے پوچھنا شروع کردیا کہ ابا جی کیا ہوا۔ بوڑھے نے ڈانٹ کر کہا کہ بعد میں پوچھ لینا پہلے مجھے گھر کے اندر تو پہنچاؤ۔ میں نے دیکھا کہ بوڑھے کے بچے تینوں چھوٹے تھے۔ وہ اسے سہارا دے کر اندر نہیں پہنچا سکتے تھے۔ مجبوراً بوڑھا میری طرف دیکھنے لگا۔ میں گاڑی سے اترا اور بوڑھے کو سہارا دیا۔ دروازے تک پہنچے تو بوڑھے کی لڑکیاں بھی باپ کو سنبھالنے کے لیے آپہنچیں۔ جب لڑکیوں نے بوڑھے کا ہاتھ پکڑ لیا تو میں واپس جانے کے لیے مڑا لیکن بوڑھے نے ہاتھ ہٹا کر میرا ہاتھ پکڑ لیا ’’سیٹھ صاحب آپ دروازے تک توآہی گئے ہیں، ایک پیالی چائے کی مجھ غریب کے ہاں سے پیتے جائیں۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا۔ اس نے میرا ہاتھ نہیں چھوڑا۔ مجبوراً میں اس کے ساتھ اس کے گھر میں داخل ہوگیا۔ اندر داخل ہوتے ہی میں نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی، ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ غالباً میرے باتھ روم جتنا یا اس سے کچھ چھوٹا۔ کونے میں زمین پر ایک پھٹی ہوئی دری بچھی تھی، جبکہ دوسری طرف کونے میں ایک مٹی کے تیل سے چلنے والا چولہا اور کچھ برتن رکھے تھے۔ ایک طرف ایک پرانی سلائی مشین اور کچھ کپڑے پڑے تھے جبکہ کمرے کے چوتھے کونے میں دو دیواریںکھڑی کرکے غالباً ’’غسل خانہ‘‘ بنایا گیا تھا۔ پچھلے دنوں میں اپنی فیملی کے ساتھ موہنجوڈارو کے آثارِ قدیمہ دیکھنے گیا تھا۔ وہاں میں نے ایک ایسا ہی کمرہ دیکھا تھا۔ پانچ ہزار سال میں کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ کیا یہ بوڑھا اور اس کا کنبہ واقعی آج کے دور کے انسان ہیں؟ میں سوچنے لگا۔ اس کمرے کے علاوہ گھر میں کوئی دوسرا کمرہ نہیں تھا۔ یہی کمرہ ان کا کچن تھا، یہی بیڈ روم، یہی ڈائننگ روم، یہی ڈرائنگ روم اور یہی باتھ روم۔ میں نے ذہن میں اپنے بنگلے کے کمرے گننے شروع کیے۔ غرض یہ کہ یہ کمرہ صرف کمرہ نہ تھا بلکہ ایک مکمل گھر تھا۔ اور ایک طرف ہم خوش قسمت لوگ ہیں کہ جن کے گھروں میںکمرے تو بہت ہوتے ہیں مگر ہر کمرہ نامکمل ہوتا ہے۔ کوئی بھی کمرہ مکمل گھر نہیں ہوتا۔ کوئی کمرہ صرف کچن ہے، کوئی بیڈ روم، تو کوئی ڈائننگ یا ڈرائنگ روم، ہر کمرہ نامکمل ہوتا ہے۔ جبکہ یہ ایک مکمل کمرہ ہے، ذہن عجیب و غریب سوچوں کے دائرے بنانے لگا۔ شاید ہم جیسے لوگوں کے پاس وقت اس لیے کم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے ہی گھر کے ایک سے دوسرے کمرے میں جانے کے لیے کافی بھاگ دوڑ کرنی پڑی ہے۔ اس کمرے میں ٹی وی، وی سی آر، فریج اور ائیر کنڈیشنر نام کی کوئی چیز نہیں تھی حتیٰ کہ بجلی کاپنکھا بھی نہیں تھا۔ یہ لوگ اس لحاظ سے یقینا خوش قسمت تھے کہ ان کا بجلی کا بل یقینا کم آتا ہوگا۔ کمرے میں چھت کے بیچ میں ایک چھوٹا سا بلب لٹک رہا تھا۔ نہ پٹی فٹنگ نہ جھومر اور نہ امپورٹیڈ کرسٹل کے لائٹ شیڈ۔

ابھی پچھلے دنوں میں نے باتھ روم اور کچن میں نئے لائٹ کے شیڈ لگائے ہیں۔ دکاندار کہہ رہا تھا کہ یہ امپورٹیڈ ہیں، اب یہ خدا جانتا ہے کہ امپورٹیڈ ہیں یا اسمگل ہوکر آئے ہیں۔ بہر حال اتنا مجھے یقین ہے کہ ہیں کسی غیر ملک کے، یہاں کے نہیں۔ یہاں کی تو ہر چیز الگ پہچانی جاتی ہے جیسے یہ بڈھا اور اس کے گھر کی ہر چیز۔ سب یہیں کی ہیں۔ سب دیسی کچھ بھی باہر کا نہیں۔ یہ جو چھت پر بلب لٹک رہا ہے یہ بھلا کتنی روشنی دیتا ہوگا۔ کیا یہ لوگ اس کی روشنی میں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہوں گے۔

بوڑھا جاکر اس پھٹی پرانی دری پر بیٹھ گیا۔ یقینا اگر میں بیٹھوں گا تو میرے کپڑے خراب ہوجائیں گے۔ میں ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ بوڑھے نے اپنے بچے کو آواز دی اور اس سے کہا کہ جاؤ پڑوس میں کسی کے ہاں سے کوئی اسٹول یا کرسی وغیرہ لے آؤ۔ سیٹھ صاحب کے بیٹھنے کے لیے، بچہ بھاگ کر گیا اور کہیں سے لکڑی کا اسٹول اٹھا لایا۔ میں اسٹول پر بیٹھ گیا۔ بوڑھے کے بچے سب بوڑھے کے گرد جمع ہوگئے۔ اس کی بیٹیاں کمرے کے کونے میں بت بنی بیٹھی ہیں۔ کبھی وہ مجھے دیکھتیں کبھی بوڑھے کو۔ بوڑھے نے اپنی بیٹی کو چائے بنانے کے لیے کہا۔ ایک لڑکی چولہے کی طرف گئی اور پھر دوسری لڑکی سے کھسر پھسر کرنے لگی۔ میری سمجھ میں اتنا آیا کہ گھر میں دودھ نہیں ہے۔ بھاگ کر پڑوسی سے ایک پیالی دودھ کی لے آؤ، چائے تیار ہونے لگی۔ بچوں نے بوڑھے سے پوچھا کہ اباجی کیا ہوا تو بوڑھے نے انہیں بتایا کہ میں ایک گاڑ ی سے ٹکرا گیا۔ یہ سیٹھ صاحب بیچارے مجھے ہسپتال لے گئے اور پٹی کرانے کے بعد مجھے گھر تک چھوڑنے آئے۔ لڑکیوں نے سنا تو وہ مجھے اس طرح دیکھنے لگیں جیسے انتہائی احسان مند ہوں۔ ایک لڑکی جو غالباً چودہ پندرہ سال کی ہوگی وہ بوڑھے کے قریب آئی اور پوچھنے لگی ’’ابا یہ کیسے ہوا، کس اندھے کی گاڑی سے ٹکرا گئے۔‘‘ بوڑھے نے غصے سے ڈانٹا ’’چپ بدتمیز، دراصل غلطی میری تھی۔ تجھے پتہ ہے جو تو بک بک کررہی ہے۔‘‘ اس کے بعد بوڑھا میری طرف دیکھنے لگا۔ جیسے یہ اندازہ کررہا ہو کہ میں ناراض تو نہیں ہوا۔ وہ لڑکی پھر بھی چپ نہیں ہوئی، کہنے لگی: ’’مانا کہ غلطی تمہاری تھی مگر وہ گاڑی والا کیا اندھا تھا۔، اسے نظر نہیں آرہا تھا کیا۔ ‘‘بوڑھے کا غصہ سے برا حال ہورہا تھا۔ ’’تو چپ رہتی ہے یا تیری زبان گدی سے کھینچ لوں۔‘‘ وہ بری طرح رونے لگی اور روتے روتے کہنے لگی: ’’میں ضرور بولوں گی۔ چاہے جان لے لو۔ وہ آدمی نہیں جلاد ہوگا جس نے میرے بوڑھے باپ کا یہ حال کیا۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ دوسری بہنیں اسے چپ کرانے کے لیے آگے بڑھیں۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہورہا تھا۔ مجھے اس لڑکی کی باتیں نہایت اذیت پہنچا رہی تھیں۔ میرے اندر کا سرمایہ دار جو حادثے کے بعد ہجوم اور پولیس کے خوف سے تھوڑی دیر کے لیے مجھ سے کہیں دور چلا گیا تھا، مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے وہ واپس میرے اندر آرہا ہو۔ یکایک مجھے اپنے ارد گرد کی ہر چیز کمتر، گھٹیا اور غلیظ نظر آنے لگی۔ میں نے سوچا کہ اس بوڑھے کے گھر کی چائے نہیں پیوں گا۔ کیونکہ اس کے برتن گندے ہوں گے۔ اور اس کی لڑکیوں کے ہاتھ بھی صاف نہیں ہوں گے۔ میں جلد اس گندی اور غلیظ دنیا سے باہر نکلنا چاہتا ہوں ، جہاں میری حسین دنیا میری منتظر ہے۔ جہاں ایک بڑا بنگلہ ہے۔ جس بنگلے کا ہر کمرہ اس کے کمرے سے بہت بڑا ہے۔ جہاں کمروں میں قالین بچھے ہوئے ہیں۔ دیواروں نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ جہاں دنیا کی ہر آسائش میسر ہے۔ جس بنگلے کے باہر ایک خوبصورت لان ہے جہاں رنگ برنگے پھول مہکتے ہیں۔ اس بڈھے کے گھر کی طرح مکھیاں نہیں بھنبھناتی۔ جہاں ہر وقت بہار ہی بہار ہوتی ہے۔ خزاں تو اس بنگلے کے مقدرمیں ہی نہیں اور وہ صرف اس لیے کہ اس بنگلے کا مالک اپنے مقدر کو بدلنا جانتا ہے۔ خزاں کیوں کر اس بنگلے کا رخ کرسکتی ہے۔ خزاں تو اس بڈھے اور اس جیسے کروڑوں کا مقدر ہے۔ جو ساری عمر ہاتھ پر ہاتھ دھرے چھپروں کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں کہ خدا کب چھپر پھاڑ کر انہیں دولت دیتا ہے۔ یہ قسمت پر بھروسہ کرنے والے بدقسمت لوگ۔ ساری عمر پرائز بونڈ اور انعامی اسکیموں کے نتائج کی پرچیوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکطنے والے لوگ۔ یہ روز کے تیس چالیس روپے کما کر خرچ کردینے والے لوگ جو کنویں کے مینڈک کی طرح اپنی دنیا میں مطمئن رہتے ہیں۔ یہ گندے اور غلیظ لوگ۔ میں ان کی دنیا کا آدمی تو نہیں۔ میں تو کسی اور ہی دنیا کا آدمی ہوں۔ میں واپس اپنی حسین دنیا کی طرف جاؤں گا۔

اب میرے اندر کا سرمایہ دار بالکل بیدار ہوچکا تھا۔ میں غصے میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور دروازے کی طرف جانے لگا۔ بوڑھے نے مجھے جاتے ہوئے دیکھا تو چلانے لگا۔ سیٹھ صاحب، سیٹھ صاحب یہ بچی ہے۔ اس کی بات کا برا نہ مانو، چائے تو پیتے جاؤ۔‘‘ میں نے مڑ کر غصے سے اسے دیکھا اور کہا ’’نہیں پینی مجھے تمہارے جیسے کمتر آدمی کے گھر کے گندے برتنوں کی چائے۔ کیا سمجھتے ہو مجھے؟ میں کوئی تمہاری طرح کا آدمی ہوں جو تمہارے ہاں چائے پیوں گا یہ میرا احسان ہے کہ حادثے کے بعد میں تمہیں ہسپتال لے گیا، میں نے تمہارا علاج کرایا اور تمہیں یہاں تک پہنچایا۔ ورنہ تم کیا اور تمہاری اوقات کیا۔ میرے جیسے لوگ تم جیسے لوگوں کو کچل بھی دیں تب بھی کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ قاعدے یہ قوانین یہ سب ہمارے جیسے لوگوں کے آگے بے بس ہیں۔ ہمارے پاس پیسہ ہے پیسہ۔ جو ہر قاعدے قانون سے بالاتر ہے جو ہر قاعدے قانون کو خرید سکتا ہے۔ یہ تو میرا احسان ہے کہ میں نے تمہیں عزت بخشی۔ تمہارے گھر آیا۔ تمہیں پانچ سو روپے دیے۔ پانچ سو روپے۔ وہ پانچ سو روپے جو تمہاری لڑکی کے آدھے مہینے کی تنخواہ ہے۔ وہ پانچ سو روپے جو تم دس پندرہ دن تک صبح سے شام تک گلی گلی، محلہ محلہ، چنے کی بالٹی اٹھائے پھرتے ہو اور جب کہیں جاکے بمشکل تمہیں نصیب ہوتے ہیں۔ وہ پانچ سو روپے میںنے تمہیں دئیے ہیں اور ۔ اور اپنی اس لڑکی کے منہ کو لگام دو جس نے مجھے اندھا کہا، جلاد کہا۔ اندھا میں نہیں اندھے تم سب ہو جو اس چھوٹے سے غلیظ گھر میں مکھیوں اور مچھروں کے ساتھ زندگی گزارتے ہو۔ میں غصے میں بولتا گیا اور بوڑھا بالکل پتھر بنا مجھے دیکھتا رہا۔ میں دروازے سے باہر نکلا، گاڑی میں بیٹھا، گاڑی اسٹارٹ کی، اور تیزی سے مختلف گلیوں سے ہوتا ہوا میں مین روڈ پر آگیا۔ مین روڈ پر آنے کے بعد میں نے گاڑی کی اسپیڈ اور بڑھا دی۔ غصے کے مارے میرا حال برا ہورہا تھا۔ مجھے بالکل ہوش نہیں تھا کہ میں کس سمت جارہا ہوں۔گاڑی کی اسپیڈ کتنی ہے۔ میں کہیں غلط سمت تو نہیں جارہا۔ میری آنکھوں کے سامنے بوڑھا اور اس کا کنبہ تھا۔ اس کا غلیظ گھر تھا۔ اس کی بد زبان لڑکی تھی۔

گاڑی اب ہوا سے باتیں کررہی تھی، میں نے ایک دو بار بریک پر پیر رکھنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ آخری بات جو مجھے یاد ہے وہ یہ کہ میری مخالف سمت سے ایک ٹینکر آرہا تھا اور پھر اس کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا۔

ہسپتال میں آج جب میں ہوش میں آیا تو مجھے سب سے پہلے تو یہ بتایا گیا کہ مجھے ہسپتال پہنچانے والا اس ٹینکر کا ڈرائیور تھا جس سے میری گاڑی کی ٹکر ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ اگر وہ ٹینکر کا ڈرائیور مجھے بروقت ہسپتال نہ پہنچاتا تو خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے میں شاید ہی بچتا۔ بعد میں مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ میرے جیسا کامیاب انسان جو اپنی محنت اور محتاط طبیعت سے اپنا مقدر بدلنا جانتا تھا اب ایک محتاج اور اپاہج انسان بن چکا ہے۔ جسے چلنے کے لیے یقینا ایک وہیل چئیر یا دو عدد بیساکھیوں کی ضرورت پڑے گی۔ ڈاکٹر میرے سامنے اس ٹینکر کے ڈرائیور کو لایا جس نے میری جان بچائی تھی۔ میں نے اس کے میلے کچیلے کپڑوں پر نظر ڈالی۔ مجھے اس کے گندے کپڑے دیکھ کر وہ بڈھا یاد آگیا۔ میری بیوی جو کہ میرے سرہانے بیٹھی تھی، میں نے اس سے کہا کہ اس ڈرائیور کو تم نے کوئی انعام وغیرہ دیا تو اس نے جواب میں کہا ہاں میں نے پانچ سوروپے دیے ہیں۔ پانچ سوروپے کا ہندسہ سن کر میں چکرا گیا۔ کیا یہی میری زندگی کی قیمت ہے۔ پانچ سو روپے اور صرف پانچ سو روپے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں