وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ(۱۱) رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ(۱۲) (السجدۃ:12)
’’کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اُس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سُن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے۔‘‘
ہم میں سے کسی کے اوپر ذرا سے سخت حالات آتے ہیں تو وہ موت کی تمنا کرنے لگتا ہے۔بغیر یہ سوچے سمجھے اور دیکھے کہ زندگی کی مہلت کتنی قیمتی ہے۔ حقیقت میں یہ مہلت عمل ہی زندگی کا حاصل ہے۔ کچھ لوگوں کو آخرت کی تیاری کے لیے اور کچھ لوگوں کو دنیا سے لطف اندوز ہونے کے لیے۔ جو لوگ دنیا کی زندگی میں ہی گم ہوکر رہ گئے قیامت کے دن پچھائیں گے۔ اور اللہ سے مہلت مانگیں گے مگر مہلت ممکن نہ ہوگی۔ جان لیجیے کہ موت کا تو ایک وقت مقرر ہے اور وہ اپنے وقت پر ہی آئے گی۔ نہ اس سے پہلے، نہ اس کے بعد۔ رسول پاکؐ نے ارشاد فرمایا ’’اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو۔‘‘ موت آگئی، اب انسان کچھ نہیں کرسکتا، نیکی کا کام کرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتا۔ اُس وقت انسان پچھتائے گا، حسرت کرے گا کہ اللہ اسے تھوڑی اور مہلت دے دے تو وہ اسے اچھے کاموں میں گزارے۔
دنیا کی نعمتیں فانی ہیں، آج ہیں کل نہیں، لیکن آخرت کی نعمت باقی ہے، اس کو زوال نہیں۔ دنیا کی مشکلات کا موت خاتمہ کردے گی، لیکن آخرت کی مشکلات کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ وہاں تو موت بھی نہیں ہوگی۔ وقت وہ نعمت ہے جو چلا گیا تو دوبارہ نہیں آئے گا۔ اس لیے اس وقت کو ماضی کے پچھتاووں یا مستقبل کے اندیشوں میں مبتلا ہوکر ضائع ہونے سے بچائیں۔ اپنے صحیح مقصد کے حصول کے لیے وقت لگائیں۔ خیر کے کاموں میں وقت خرچ کریں۔ لوگوں کی مدد میں لگائیں۔ اللہ کی عبادت میں وقت لگائیں۔ اُن دینی و دنیوی علوم و فنون کو سیکھنے اور سکھانے میں وقت لگائیں جن کے ذریعے اپنی زندگی کو دنیا اور آخرت میں نفع بخش بنا سکیں، جس کے ذریعے انسانیت کی خدمت کی جا سکے، جو آپ کے لیے صدقۂ جاریہ بن سکے۔