زندگی کے سفر میں مقصد کا شعور

امِ فاکہہ، جدہ

’’سفر‘‘ کے لفظ سے کون نا آشنا ہے۔ بچہ ہو، جوان یا بوڑھا ہر کوئی اس لفظ سے بخوبی واقف ہے۔ دنیا میں انسان کتنے سفر کرتا ہے کبھی معاش کے لیے، کبھی تعلیم کے لیے، کبھی دوست احباب، رشتے داروں سے ملاقات یا ان کی خوشی یا غم میں شرکت کے لیے، کہیں دنیا کے خوبصورت مناظر دیکھنے کے لیے، غرض یہ کہ کوئی سفر مقصد سے خالی نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی سفر بنا منزل ہوسکتا ہے۔ یہ اپنی منزل پر پہنچ کر ہی تکمیل پاتا ہے۔ ہر سفر کے لیے یہ علم ہونا ضروری ہے کہ اس کا مقصد اور منزل کیا ہے۔

دیکھا جائے تو زندگی بھی ایک سفر ہے۔ ہر انسان دنیا میں آتا ہے اور اپنا سفر مکمل کرکے چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے ہر ذرے کو کسی نہ کسی مقصد کے لیے پیدا کیاہے۔ ہر وجود کسی نہ کسی حکمت کے ساتھ تشکیل دیا گیا ہے۔ سورج کے سفر کا مقصد دنیا کو روشن کرنا ہے تو بادلوں کو سوکھی پیاسی زمین کی پیاس بجھانے کا مقصد دیا گیا ہے۔ ہوا کے سفر کا مقصد دنیا کو زندگی دینا ہے۔

انسان جسے اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات میں اشرف المخلوقات بنایا ہے، اس کی زندگی کا سفر شروع ہو اور بے مقصد ہو یہ ناممکن ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے:’’اور میں نے جن اور انسانوں کو اسی واسطے پیدا کیا کہ میری عبادت کریں۔‘‘

اس عبادت کے معنیٰ صرف نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ نہیں بلکہ پوری زندگی کا سفر ہے۔ ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا، سونا، جاگنا، ہمارے معاملات، ہماری معاشی و سیاسی زندگی یعنی ہر قول و عمل اللہ کریم کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔یہ ہے ہماری زندگی کا مقصد اور منزل ہے کامیابی۔ پس جس سفر کا مقصد اور منزل ہوجائے وہ بہت آسان ہوجاتا ہے۔ مگر آج ہم نے اپنا مقصد بھی بھلا دیا اور منزل بھی۔ کسی نے زندگی کے سفر کا مقصد صرف دولت کو سمجھا تو کسی نے اپنے جیسے انسان کی پیروی کو، کسی نے دنیا کو خوش کرنے کو اپنا مقصد سمجھا اور کوئی بے مقصد ہی اس سفر میں بنا کسی منزل کے بنا سوچے سمجھے اندھیرے میں چلا جارہا ہے۔ہم نے زندگی کے سفر کا مقصد ہی بھلا دیا تو ہم منزل سے خود بخود بھٹک جائیں گے۔ہم اس دنیا کی زندگی میں سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں مگر جب مقصد معلوم نہ ہو تو منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔

ایک سفر یہ ہے جس میں منزل خانہ کعبہ ہے اور مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا۔ پوری بس بھری ہوئی ہے، کئی طرح کے لوگ ہیں، سفر شروع ہوتے ہی باتوں اور بحثوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کچھ نوجوانوں نے ٹیپ پر اپنے من پسند گانے لگائے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ سیاست پر بحث کررہے ہیں۔ کچھ کی بحثوں کا موضوع کبھی سیاست، کبھی معاشرت، کبھی معاش، کبھی کوئی فلم اسٹار، کبھی کھلاڑی اور کبھی اپنے ہی دوستوں کی نجی زندگی پر تنقید ہے۔

کچھ لوگ جو ان تمام بحثوں کا حصہ نہیں بن رہے، وہ اونگھ رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ہمیں بھی ان تمام باتوں میں مزہ آنے لگتا ہے۔ ہم بھی ان کا حصہ بن جاتے ہیں اور انہی سب سلسلوں کے ساتھ سفر پورا ہوجاتا ہے۔

اب ہمارا دوسرا سفر شروع ہوتا ہے۔ لوگ دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کچھ کا حال پہلے سفر کا سا ہے مگر کچھ لوگ اللہ کریم کا ذکر اور عبادت بھی کررہے ہیں۔ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور ہمارے معاملات کیسے ہونے چاہئیں؟ ہمیں زندگی میں کیا کرنا چاہیے؟ جس سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکیں۔ ان موضوعات پر تبادلہ خیال کررہے ہیں۔ ہمارے کانوں سے جس قسم کی آوازیں ٹکراتی ہیں، انہی میں ہم شامل ہوجاتے ہیں یعنی باتیں خواہ بامقصد ہوں یا بے مقصد۔ ہم ان میں اپنی رائے بھی شامل کردیتے ہیں۔

اب ہمارا تیسرا سفر شروع ہوتا ہے۔ الحمدللہ ان لوگوں کو یاد ہے کہ انھوں نے سفر کس مقصد کے لیے شروع کیا ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی مسافر بھولنے لگتا ہے تو اسے یاد دلایا جاتا ہے کہ پورے راستے اچھے اچھے موضوعات پر تبادلہ خیال، دینی مسائل، اللہ تعالی، قرآن کریم اور سیرت طیبہ کا ذکر مبارک۔ نہ کسی کی غیبت، نہ بے مقصد باتیں، نہ کسی پر تنقیدیں، نہ بے مقصد لوگوں کی تعریفیں، نہ کپڑوں اور زیوروں کا ذکر بلکہ ایک دوسرے کی اصلاح کے لیے مشورے ، سفر پورا ہونے کے بعد دل بہت پرسکون ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے مقصد کو نہیں بھولے۔

ان تینوں سفروں کے بارے میں سوچا جائے تو یہ چھوٹے چھوٹے سفر ہیں۔ اس دوران ہمارے ہم سفر بھی ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ اگر ہمسفر بے مقصد ہو تو پورا سفر بے مقصد ہوجاتا ہے۔

یہ پوری زندگی بھی ایک سفر ہے اور پوری دنیا تین بسوں میں سوار ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ کس بس کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر سفر بہت آرام دہ ہو، ایئر کنڈیشنڈ گاڑی ہو، دنیا کی رنگینیوں کے ذکر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بہترین چیزیں کھاتے پیتے ہوئے سفر کریں اور گاڑی جب ہمیں اتار کر چلی جائے اور ہم دیکھیں کہ یہ تو ہماری منزل نہیں۔ ہمیں تو اپنے گھر پہنچنا تھا مگر یہ بس تو ہمیں ویران اور تپتے صحرا میں چھوڑ کر چلی گئی تو ہم سفر کا سارا آرام اور ساری لذتیں ایک لمحے میں بھول جائیں گے۔

اگر گاڑی ایئرکینڈیشنڈ نہ ہو، دنیا کی رنگینیوں کی بجائے سچائیوں کا ذکر ہو، خواہ لذیذ چیزیں کھانے کو نہ ملیں۔ تھوڑی پریشانی، تھوڑی بھوک ہو، تھوڑے دھکے بھی لگیں، پر جب گاڑی اتار کر چلی جائے اور پتہ چلے کہ ہم منزل کے سامنے ہی کھڑے ہیں تو سفر کی ساری تکالیف آن واحد میں بھول جائیں گے اور اگر منزل پالی یعنی ’’کامیابی‘‘ حاصل ہوگئی تو جنت میں جانے کے لیے دنیا میں جو سختیاں اور پریشانیاں جھیلیں وہ سب بھول جائیں گے۔ اس لیے دنیا میں ہمیشہ ایسے لوگوں کا ساتھ رکھیں جو ہمارا مقصد ہمیں بھولنے نہ دیں کیونکہ منزل تبھی ملے گی جب مقصد یاد رہے گا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں