زندگی

مرزا خالد بیگ،سعیدآباد، حیدرآباد

کیوں کھول کر الماریوں کے پٹ میں
کھینچ کر میز کی درازیں
الٹ پلٹ کر تمام خانے
میں کیوں کوئی چیز ڈھونڈتا ہوں؟
ایک تصویر کھوگئی ہے
نہ جانے کب سے تلاش میں ہوں
کہ وہ ادھوری ہی رہ گئی ہے
ہر اک کتاب اور ورق ورق کو
الٹ الٹ کر میں دیکھتا ہوں
کہ کاش!
شاید!!
وہ مل ہی جائے
تو میں مکمل ہی اس کو کردوں
کہ ایک خاکہ ہی تو ہے اب تک
میں جس میں اک اور رنگ بھردوں
مگر وہ رنگ عارضی نہ ہوگا
نہ وہ مٹے گا نہ وہ اڑے گا
ہمیشگی کی مہر ہو جس پر
میں رنگ ایسا ہی اس کو دوں گا
شفق کی لالی نہیں مناسب
یہ روز آئے اور روز جائے
گلوں کی لالی بھی خوب شے ہے
مگر ہیں ان کے بھی رنگ بدلے
ذرا یہ مرجھائیں گے تو دیکھو
لہو کی لالی بھی ایک شے ہے
ازل سے اب تک جو اپنی لالی لیے ہوئے ہے
نہ رنگ خوں کا بدل سکا ہے
نہ رنگ خوں کا بدل سکے گا
تو کیوں نہ پھر خون دل کو اپنے
قطرہ قطرہ نچوڑ کر ہی
بھروں نہ خاکے میں رنگ کیوں میں
کہ اس سے تصویر کو بھی کچھ تو
جلا ملے گی بقا ملے گی
مگر ابھی تک ملی نہیں ہے
اگر ملے گی تو جان جاؤں
یہ تصویر میری ہی زندگی ہے
ابھی ادھوری یہ زندگی ہے
نہ جانے کتنی ہیں اور راہیں
نہ جانے کتنے ہیں موڑ اس میں
نہ جانے کتنے برس ہیں باقی
کہ سیکڑوں ماہ اور بھی ہیں
ہزاروں دن اور بھی لگیں گے
نہ جانے کتنی اندھیری گلیاں
اداس راتوں کی ہی سیاہی
صدا مری ہم سفر رہی ہے
سدا مری ہم سفر رہے گی
مگر ادھوری سی زندگی بھی
ہمیں ابھی تک ملی نہیں ہیے۔

 

 

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں