زندہ بم

محمد طارق،امراؤتی

فلاں شہر میں تباہی کے لیے آتنک وادیوں نے حسبِ معمول بموں کا استعمال کیا۔ سات بم تو پھٹ گئے لیکن ایک زندہ بم مل گیا۔

وہ زندہ بم شہر کے بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں رکھا ہوا تھا۔ بم جانتا تھا کہ اُسے کس نے رکھا … کیوں رکھا؟

وہ زندہ بم ’’بھیڑ بھاڑ‘‘ والے علاقے میں ایک ماروتی کار کے نیچے پڑا ان بموں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو اس کے ساتھ ہی ایک گھر کے کمرے میں بنائے گئے تھے ۔ گھروں کو اجاڑنے اور زندگیاں برباد کرنے کے لیے اپنے طے شدہ وقت پر پھٹ کر تباہی مچاسکتے تھے۔

جب وہ آٹھوں بم تیار ہوئے تھے تو ہر بم ایک دوسرے کو اپنی عمر بتارہا تھا۔

’’تم اتنے بج کر اتنے منٹ پر پھٹوگے۔‘‘

’’تم اتنے بجے ختم ہوجاؤگے۔‘‘

’’اور تم اتنے بجے۔‘‘

کون کہاں مرے گا، کون کہاں ختم ہوگا، کہاں پھٹے گا، کس جگہ تباہی مچائے گا یہ اس وقت ان بموں کو پتہ نہیں تھا، کیوں کہ مقام کا تعین ’’خالقِ بم‘‘ کے ذہن میں محفوظ تھا اور بم اپنے خالق کے ذہن کو نہیں پڑھ پا رہے تھے۔

ہاں —! بموں نے اپنے خالق کی ذہنیت کو سمجھ ضرور لیا تھا۔ اس لیے ہر بم یہ چاہ رہا تھا کہ وہ خالق بم کے گھر میں ہی پھٹ جائے۔ اسے تباہ و برباد کردے اور اس کی زندگی کو نیست و نابود۔ ’’کاش! ہمارا پھٹنا ہمارے بس میں ہوتا۔‘‘ تمام بم اپنی ناکام حسرت لیے اندر ہی اندر خالق بم کے گھر میں پھٹ جانے کے لیے تڑپ کر رہ گئے تھے۔ اس کے سوا ’’بم‘‘ کر بھی کیا سکتے تھے۔

بموں کا خالق سب کچھ کرسکتا ہے۔ اس کے پیدا کرنے والے نے اسے آزادی دی ہے۔ کچھ وقت کی آزادی اور عارضی خود مختاری، جس کا وہ من چاہا استعمال کررہا ہے۔ اپنی من چاہی آزادی اور خود مختاری کے استعمال سے خالق بم کو کیا مل رہا ہے؟ صرف اپنے ہی جیسے انسانوں کی تباہی، بربادی اور تو کچھ نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ سارے انسان ایک آدم کی اولاد ہیں، ایک دوسرے کے بھائی مگر لگتا تو نہیں … ! ہر انسان ایک دوسرے کا دشمن دکھائی دیتا ہے۔ یہ انسانوں کا سماج کیسا سماج بن گیا ہے۔ ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دینے والا سماج! خالق بم نے ہمیں بناکر پورے انسانی سماج میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیا ہے۔

’’کیا چاہتا ہے خالقِ بم!‘‘

’’دنیا پر حکومت کرنا!‘‘

’’مگر حکومت خوف و دہشت پھیلا کر نہیں، محبت و حسن اخلاق سے کی جاتی ہے۔‘‘

ماروتی کار کے نیچے پڑا بم سوچ رہا تھا اور اپنے اطراف کی سجی سنوری دنیا کو بھی دیکھ رہا تھا۔ سجی سنوری دکانیں، خوب صورت و عالیشان اونچی اونچی عمارتیں، زندگی کے کاموں میں مصروف لوگ… راہ گیروں سے بھری چوڑی، متوازی سڑک …

بم نے راہ گیروں میں اس ماں کو بغور دیکھا جو اپنے ننھے بچے کو گود میں سنبھالے کپڑوں کی دکان کا پائیدان چڑھ رہی تھی اور پھر اس کی نظر ایک بوڑھے شخص پر بھی پڑی جو ’’واک اسٹک‘‘ ہاتھ میں لیے اس طرح چل رہا تھا جیسے سڑک پر اپنی قبر ڈھونڈ رہا ہو۔ بم کو وہ نوجوان بھی دکھائی دیا جو میڈیکل اسٹور میں اپنی بیمار ماں کی دوائیں لینے کے لیے کھڑا تھا۔ وہ نوجوان اپنے خاندان کا اکیلا سہارا تھا۔

کار سے کچھ دوری پر بم کو ایک بھکاری بھی نظر آیا، بوڑھا بھکاری اور اس کے ہمراہ ایک تیرہ چودہ سال کی لڑکی، پھٹے، میلے کچیلے لباں میں ملبوس۔

الغرض ’’بم‘‘ نے اپنے اطراف پھیلی ہوئی انسانی زندگی کے مختلف رنگ دیکھے اور اندر ہی اندر تڑپ گیا۔

’’نہیں —، میں پھٹنا نہیں چاہتا۔ انسانوں کی اس رنگ برنگی خوبصورت دنیا کو تباہ کرنا نہیں چاہتا۔‘‘

نہیں — نہیں —! بم اپنے وجود میں چیخ رہا تھا۔

’’مگرمجھے تو مقررہ وقت پر پھٹنا ہی ہے۔‘‘ بم اپنی حیثیت کے کرب میں تڑپ رہا تھا۔ اس انسان کی طرح جو یہ جانتا ہے اور اسے اپنے جاننے کا انتہائی احساس بھی ہے کہ اسے ایک دن مرنا ہے اور پھر اس کے ہر فعل، ہر عمل، نیت، سوچ سب کا حساب اپنے خالق و مالک کے روبرو دینا ہے۔

بہرحال بم اپنی بے بسی پر تڑپ کر خود کلامی کررہا تھا۔ ’’مجھے نہ چاہتے ہوئےبھی پھٹ جانا ہے … میں کیا کروں!!— کیا کروں میں؟؟ میرے پھٹنے پر یہ سب کچھ تباہ و برباد ہوجائے گا۔

وہ ماں — اور اس کا ننھا، معصوم بچہ

وہ بوڑھا — سڑک پر اپنی قبر تلاش کرنے والا

وہ نوجوان — اپنے خاندان کا اکیلا سہارا۔

وہ بھکاری— بھیک مانگ کر زندہ رہنے والا

اور وہ — وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والی لڑکی، میلے کچیلے لباس میں ملبوس۔

اپنی جوانی کا سواگت کرنے والی بیٹی، جس کے ماں کو پتہ نہیں کہ اس کا باپ کون ہے؟اور وہ سارے انسان جو میرے اطراف زندگی کے لیے جی رہے ہیں۔

وہ سب انسان میرے اطراف کیسے آگئے۔ بم سوچنے لگا ’’یہ میرے بنانے والے کی کارستانی ہے۔‘‘ بم خود کلامی کرنے لگا ’’میرے خالق نے مجھے بناکر انسانوں کی خوبصورت زندگیوں کے درمیان لاکر رکھ دیا۔‘‘ انسان میرے اطراف نہیں آئے۔ میرا خالق، مجھے انسانوں کے درمیان لے آیا — کتنا ظالم ہے خالق بم؟ دنیا کا سب سے بڑا ظالم اور سب سے بڑا شیطان، بم کو اپنے خالق پر بے انتہا طیش آنے لگا۔

’’کاش! میرا پھٹنا میرے بس میں ہوتا—!! ‘‘ بم اپنے وجود میں پھر تڑپنے لگا۔اسی وقت ایک کتا بم کے قریب آیا۔بم چوکنا ہوگیا۔کتے کے ہمراہ کچھ پولیس والے بھی تھے۔

بم پولیس والوں کو دیکھ کر خوش ہوگیا۔ خود کلامی کرنے لگا۔ ’’ہاں ! اب میں پھٹنے سے بچ سکتا ہوں۔ اب انسانوں کی رنگ برنگی، پیاری، خوشنما زندگیاں مجھ سے تباہ نہیں ہوں گی۔ کتنے عظیم ہیں یہ انسان جو کتے کے ہمراہ مجھ تک پہنچ کر بہت سارے انسانوں کی زندگیوں کو میری تباہی و بربادی سے بچانے آئے ہیں۔

جیسے ہی بم کو پولیس کے سپاہی نے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ بم خوشی سے چہکا: ’’خوش آمدید! میرے محسن! مجھے کس نے یہاں لاکر رکھا میں سب جانتا ہوں، میں تمہیں سچائی بتاتا ہوں۔ نظر نہ آنے والی سچائی!‘‘

’’خاموش—!‘‘ پولیس کا سپاہی دہاڑا۔بم سہم گیا۔

پولیس کا سپاہی دہاڑ کو بولا: ’’تمہیں کس نے بنایا اور کس نے تمہیں یہاں لاکر رکھا یہ ہم طے کریں گے، تم نہیں!‘‘

بم کا جی چاہا کہ وہ اس کے ہاتھوں میں ہی پھٹ جائے، مگر اس کے پھٹنے میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے اور پانچ منٹ میں بم کے تار نکال کر اسے ناکارہ کردیا گیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146