آج کل ہر شخص غیر موافق آب و ہوا اور غیر صحت بخش غذا کی شکایت کرتا ہے۔ غذا اور آب وہوا کے خالص نہ ہونے کی وجہ سے بلاشبہ بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ تاہم اپنی صحت کے لیے انسان کو خود بھی کچھ احتیاطیں کرنا ہوتی ہیں جن میں سب سے اہم کھانے پینے کے صحیح انداز اور جسم کو متحرک رکھنا ہے۔ زیادہ تر لوگ اِن اصولوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ شہناز من اللہ صحت مند جسم اور صحت مند ذہن کے لیے یوگا کی ورزش پر زور دیتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک معلوماتی مضمون پیش ہے۔
شہناز من اللہ ۲۰۰۵ء سے پاکستان میں ’آرٹ آف لیونگ‘ پروگرام کی تربیت دے رہی ہیں۔ اس پروگرام سے منسلک ہونا اُن کے لیے تحقیقِ ذات کے سفر کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ایک خوشحال زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کے دو بچے بھی ہیں لیکن پھر بھی انھیں یوں لگتا تھا کہ ابھی کچھ اور کرنا باقی ہے۔ یہ خیال اُن کے لیے بے چینی کی کیفیت کا باعث بنتا تھا۔ ۲۰۰۱ء میں انھوں نے آرٹ آف لیونگ پروگرام میں شرکت کی۔ اس پروگرام میں یوگا کی مشقیں سکھائی جاتی ہیں۔ اس میں سب سے اہم پریکٹس گہرے سانس لینے کی ہے۔ شہناز بتاتی ہیں کہ تین دن یہ پریکٹس کرنے کے بعد انھیں جو نیند آئی تو یوں لگا کہ جیسے وہ پہلے کبھی سوئی ہی نہیں تھیں۔ یہ نیند بے حد پرسکون تھی۔ ابتداء ً وہ گہرے سانس لینے کی پریکٹس ہی کرتی تھیں۔ پھر وہ کیلیفورنیا میں اور وہاںاس قسم کے ایڈوانس کورس کیے۔ ایک کورس میں انھوں نے خاموش رہنا سیکھا۔ اس کورس میں ۳۰ افراد شامل تھے، جنھیں تین د ن تک خاموش رہنا تھا۔ شہناز اس حوالے سے اپنے تجربے کا تجزیہ یوں بیان کرتی ہیں:
خاموشی انسان کے اندر بڑی تبدیلیاں لاتی ہے۔ جب انسان خاموش ہوتا ہے تو اس کا دماغ ایک بندر کی طرح کام کررہا ہوتا ہے۔ ہزاروں طرح کے خیالات ہمارے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، نئے نئے آئیڈیاز آتے ہیں۔
غصہ اور پریشانی جیسے جذبات انسان کے سانس لینے کے انداز کو کنٹرول کرتے ہیں لیکن شہناز چاہتی تھیں کہ سانس لینے کے انداز کے ذریعے ان جذبات پر کنٹرول حاصل کیا جائے۔ یہی اس پروگرام کا بنیادی مقصد ہے۔
آرٹ آف لیونگ پروگرام کے ذریعے لوگوں کو سانس لینے کا صحیح طریقہ سکھانا ہے۔ شہناز بتاتی ہیں کہ سانس لینے کا انداز انسان کی جذباتی کیفیت کا اظہار کرتا ہے جو شخص خوش ہوتا ہے اس کے سانس لینے کا انداز خاصا پھیلا ہوا اور گہرا ہوتا ہے۔ جبکہ غصے سے بھرے ہوئے شخص کے سانس لینے کا انداز تیز ہوتا ہے۔ چنانچہ لوگوں کو سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح سانس کھینچا اور نکالا جائے۔ مناسب انداز میں سانس لینے کی پریکٹس انسانی جسم اور دماغ دونوں کے لیے مفید ہے۔ شہناز انسانی ذہن کو پتنگ اور سانس کو ڈور سے تشبیہ دیتی ہیں۔ مناسب انداز میں سانس لینے سے نہ صرف خون کو آکسیجن ملتی ہے، بلکہ دماغ کو صحت مند خون بھی موصول ہوتا ہے، جو پرسکون اور معقول انداز فکر کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔
بنیادی طور پر سانس لینے کا عمل ایک لاشعوری عمل ہے۔ یہ انسانی جسم،ذہن اور روح کے درمیان ربط قائم کرتا ہے۔ انسان اپنے سانس کو تو کنٹرول کرسکتا ہے لیکن ذہن کو نہیں۔ چنانچہ جوں ہی انسان کو سانس لینے کے طریقے کو کنٹرول کرنا آجاتا ہے، اسے جسمانی، ذہنی، جذباتی اور روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں۔ جب انسان سانس لینے کی مشقوں سے اپنے جسم کو پرسکون کرتا ہے تو اس کو تمام پریشانیوں سے خود بخود چھٹکارا مل جاتا ہے۔ چنانچہ ’’آرٹ آف لیونگ‘‘ میں لوگوں کو اپنے سانس کو کنٹرول کرکے جسم، ذہن اور روح میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ آرٹ آف لیونگ پروگرام میں عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ کسی بھی عمر کے افراد یہ مشقیں کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں جاری اس پروگرام میں ۱۸؍ سے ۸۰؍ سال کی عمر کے افراد اور خواتین شرکت کرتے رہے ہیں۔ پروگرام میں سانس کھینچنے اور چھوڑنے کی مشقیں ۲۰ منٹ کے لیے کرائی جاتی ہیں۔ یہ مشقیں صبح و شام کی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شہناز کھانے پینے کی عادت کو کنٹرول رکھنے کی ہدایت بھی کرتی ہیں۔ شہناز کی صحت کا راز بھی متوازن غذا ہے۔ وہ گندم کا استعمال بہت کم کرتی ہیں۔ گوشت نہیں کھاتیں، سبزیاں، پھل اور سلاد زیادہ سے زیادہ کھاتی ہیں۔
——