قناعت ایک لا زوال خزانہ ہے تو زہد و تقویٰ مجاہدے کی ایک قسم ہے۔ صاحب زہد و تقویٰ اپنی اس صفت کی بدولت اعلیٰ مرتبوں تک پہنچ جاتا ہے۔ میری عزیز بہن! جب تم اپنے آپ کو زہد و تقویٰ کے زیور سے آراستہ کروگی تو تمہیں محسوس ہوگا کہ تم انبیاء و صحابہ، صالحین و صالحات اور مومنین و مومنات کی صف میں کھڑی ہو، جس کی قیادت اللہ کے رسولؐ اپنی ازواج مطہرات یعنی امہات المومنینؓ کے ساتھ فرما رہے ہیں۔
عزیز بہن! تمہارے لیے یہ جان لینا ہی کافی ہے کہ اللہ کے رسولؐ جو ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں، وہ دنیا کے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ متقی و پرہیز گار تھے اور آپؐ کی ازواج مطہراتؓ عورتوں میں سب سے زیادہ متقی و پرہیز گار تھیں۔ ان کی زندگی سب سے زیادہ با سعادت، حسین اور مثالی زندگی تھی۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ اور ان کی ازواج متقی، پرہیز گار اور خدائے پاک سے ڈرنے والی عورتیں تھیں۔ اسلام نے اپنے پیروؤں کو اس بات سے ڈرایا ہے کہ کہیں وہ دنیا اور صرف دنیا ہی کو اپنا مرکز فکر و عمل اور جدوجہد کا ایجنڈا نہ بنالیں بلکہ اسلام نے انھیں دنیا میں زہد و تقویٰ، قناعت اور بے نیازی کی روش پر چلنے پر ابھارا ہے۔
زہد و تقویٰ اللہ کی محبت اور اسی طرح لوگوں کی محبت حاصل کرنے اور ان کے دلوں کو جیتنے کا ایک طریقہ ہے۔ ابو العباس سہل بن سعد الساعدیؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجیے کہ اس پر عمل کروں تو اللہ مجھ سے محبت کرنے لگے۔ اور لوگ بھی مجھ سے محبت کرنے لگیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’دنیا میں زہد و تقویٰ کی روش اپنا لو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔ اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز ہوجاؤ تو لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)
عزیز بہن! اگر تم چاہتی ہو کہ تم اپنے رب کی محبوب بن جاؤ تو دنیوی زیب و زینت کو کم کردو، دنیوی ضرورتیں اور بناؤ سنگھار کم سے کم کردو اور اگر تم اپنے شوہر کی محبوب بننا چاہو تو اپنی خواہشات، آرزوؤں اور مطالبات میں کمی کردو۔ تمہارے لیے یہ کافی ہونا چاہیے کہ تم بنیادی ضروریات پر اکتفا کرو اور شوہر کی استطاعت اور اس کی مالی حالت و دشواری کا لحاظ کرو اور اس کی رفیق بن کر رہو۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں نبی اکرمﷺ اور ازواجِ مطہراتؓ کی گھریلو زندگی کی چند تصویریں پیش کروں تاکہ یہ تصاویر ہماری زندگی کی راہ میں ہمارے لیے روشن آفتاب کی طرح راستہ دکھائیں اور ہمارے لیے ایسا نمونہ ثابت ہوں جن پر اپنی زندگی میں ہم عمل پیرا ہوں۔
بستر حبیبؐ
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ زمین پر استراحت فرمارہے تھے، جب آپؐ اٹھ کر بیٹھے تو آپؐ کے پہلو پر کنکریوں کے نشان پڑ گئے تھے۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم آپ کے لیے بستر کا انتظام نہ کردیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’میرا اور دنیا کا کیا رشتہ؟‘‘ میں اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح ہوں جو درخت کے نیچے سایہ حاصل کرتا ہے، وہاں تھوڑی دیر آرام کرتا ہے اور پھر اس درخت اور سایے کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’اللہ کے رسول کا بستر چمڑے کا ہوتا تھا جس میں کھجور کی پتیاں بھری ہوتی تھیں۔‘‘ (بخاری)
دستر خوان حبیبؐ
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آل محمدؐ کبھی بھی مسلسل دو دن تک جو کہ روٹی سے پیٹ نہیں بھرسکے، یہاں تک کہ آپؐ دنیا سے تشریف لے گئے۔‘‘ (متفق علیہ)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ کے رسولؐ مسلسل کئی راتیں بھوک کی حالت میں گزار دیتے تھے اور آپؐ کے گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ آپؐ کی غذا اکثر جو کی روٹی ہوا کرتی تھی۔‘‘ (ترمذی)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ کے رسول نے کبھی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا تناول نہیں فرمایا اور نہ ہی آپؐ کی وفات تک آپؐ کو بہترین نرم اور ملائم روٹی میسر آسکی۔‘‘ (بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ میں بھوک سے کمزور و لاغر ہوگیا ہوں۔ آپؐ نے اس شخص کو اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے گھر بھیج دیا۔ وہاں سے اس کو جواب ملا کہ ’’آپؐ کو جس نے حق کے ساتھ بھیجا ہے، اس ذات کی قسم میرے پاس پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپؐ نے اس کو دوسری زوجہ مطہرہ کے پاس بھیجا اور سب کے یہاں سے یہی جواب ملا کہ ’’اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میرے پاس پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
جب ازواج مطہراتؓ نے نبی اکرمﷺ سے نان نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کیا اور آپؐ سے دنیا کی وہ چیز طلب کی جو آپؐ کے پاس نہیں تھی تو آسمان سے وحی نازل ہوئی جس میں ان کو توجہ دلائی گئی کہ ’’اے نبی! اپنی بیویوں سے کہو اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کردوں۔ اور اگرتم اللہ اوراس کے رسول اور دارِ آخرت کی طالب ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکو کار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر تیار کررکھا ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۲۸-۲۹)
اس وحی کے بعد آپؐ نے ازواج مطہراتؓ کو اختیار دے دیا کہ دونوں میں سے جس کو چاہیں اختیار کرلیں۔ ازواج مطہرات نے اللہ، اس کے رسول، دارِ آخرت اور اجرِ عظیم کا انتخاب کیا۔ تو اے عزیز بہن! بتائیے آپ اس رشد وہدایت کی کتنی محتاج ہیں؟
زہد وقناعت تربیت بھی ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ مسلمان گردش ایام اور حالات میں ہونے والی ناخوش گوار تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔
عزیزمسلم بہن! میں یہاں اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ زہد و قناعت کا مقصد دنیا کی حلال و طیب چیزوں کو حرام کرنا، دنیا اور اس کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے سے روکنا، زینت و صفائی کو خیر باد کہہ دینا اور کمزوری و لاغری کی حد تک خود بھوکا پیاسا رکھنا نہیں ہے۔ بلکہ زہد کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کی لذتیں کم ہوجائیں اور جن چیزوں کی آپ محتاج اور ضرورت مند نہیں ہیں ان سے بے نیاز ہوجائیں۔ اگر آپ زہد کامل حاصل نہ کرپائیں تو اس کا کچھ حصہ خاص طور سے مشکلات و آزمائش کے وقت آپ کے پاس رہنا چاہیے۔ کیونکہ ایک خوش گوار مسلم گھرانہ وہ ہوتا ہے جس میں شوہر عزت و تکریم اور سخاوت کا مظاہرہ کرے اور بیوی اپنے شوہر سے زہد و قناعت اور پاکدامنی کے ساتھ ملے۔ پھر دونوں کے درمیان محبت پروان چڑھے گی اور گھر ترقی کی منازل طے کرے گا۔