اے امیر باصفا شبانِ فردوسِ بریں
یہ مقامِ شرف و عزت آفریں صد آفریں
دید سے تیرے فزوں تر میرا ایمان و یقیں
اے ترے خوں سے قوی شیرازۂ شرعِ متیں
پاسدار آبروئے نعرۂ تکبیر سن
قصر باطل کے لیے اے برق عالم گیر سن
چھڑ گیا ہے پھر جہاں میں معرکۂ خیر و شر
مبتلا آلام میں ہے امتِ خیر البشر
پھر کھلا ہے دختران فاتح خیبر کا سر
پھر پڑی ہے چادرِ زینب پہ شمروں کی نظر
دیکھ کچھ تو اضطراب روح عثمان و عمر
پھر بہائے اشکِ خوں اس آسمانِ پیر نے
پھر ہوئی سورج کو حیرت پھر کہا شمشیر نے
کانپتے ہاتھوں سے لکھا کاتبِ تقدیر نے
پھر مورخ کی زباں میں شورِ عالم گیر نے
پاسدارِ آبروئے نعرۂ تکبیر نے
’’زیر خنجر بھی کیا شکرِ خدا شبیر نے‘‘
تھی پیام موت ہر قیصر کو جن کی اک نظر
سطوتِ کسریٰ تھی جن کے سامنے زیر و زبر
تھی جہاں میں گوہر نایاب جن کی چشم تر
خون گردوں رو رہا ہے آج ان کی آل پر
مانتا ہوں میں کہ ہے کوتاہ بزمیؔ کی نظر
اب کہاں سے لاؤں ان اسلاف کا قلب و جگر