دور حاضر میں اسلام کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی عظیم خاتون زینب الغزالی ۳؍اگست کو انتقال کر گئیں۔ زینب الغزالی کا سانحۂ ارتحال اسلامی دنیا کی خواتین کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اس عظیم مجاہدہ کی زندگی کے ۸۸ سال تحریک اسلامی کے ہر نشیب و فراز سے گزرے، ایک طویل عرصے تک مصر کی جیلوں میں غیر انسانی اذیتیں برداشت کیں اور اسلامی کاز کے لیے اسلامی ملکوں کے سفر کیے۔ ان کی کتاب ایام من حیاتی اردو میں ’’زنداں کے شب و روز‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ان پر ہوئے مظالم نے دور اول کی ابتلاء و آزمائش کی یاد تازہ کردی۔
زینب الغزالی کی زندگی کا نمایاں ترین پہلو یہ ہے کہ بالکل نوجوانی کے ایام سے لے کر زندگی کی آخری سانسوں تک انھوں نے حق و باطل اور اسلام وکفر کے معرکہ میں ایک عظیم مجاہدہ کا رول ادا کیا اور نہ صرف اپنے وطن مصر میں بلکہ اس کے باہر بھی وہ اسلام پسند خواتین کی سب سے مضبوط اور زور دار آواز تھیں۔
۱۹۱۷ء میں دنیا میں آنے والی اس خاتون کی تعلیم و تربیت مصر کے ایک اسلامی گھرانے میں ہوئی۔ صرف اٹھارہ سال کی عمر میں وہ ہدی شعراوی کی الاخوات المسلمات میں قائدانہ منصب پر فائز ہوئیں۔ لیکن بعد میں فکری اختلاف کے بعد وہ اس سے الگ ہوگئیں اور محض بیس سال کی عمر میں انھوں جمعیۃ السیدات المسلمات نامی خواتین کی ایک تنظیم بناکر پورے ملک کی اسلام پسند خواتین کو منظم کیا اور ملکی سیاست و معاشرت پر بڑے گہرے اثرات ڈالے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
محترمہ زینب الغزالی استاذ حسن البنا شہیدؒ کی نہ صرف زبردست مؤید تھیں بلکہ ان کی تحریک کی خواتین میں ترجمان تھیں اور زندگی بھر وہ اسلام کے اسی انقلابی تصور کے لیے کام کرتی رہیں جو شیخ حسن البناء نے مسلمانان عرب کے سامنے رکھا تھا۔
زینب الغزالی صاحب فکر اسلامی اسکالر، فعال اور متحرک مبلغہ، بہترین خطیب، ثابت قدم مجاہدہ،حق پسند اور ایسی نڈر خاتون کہ انھوں نے شاہ فاروق جیسے جابر شخص کے سامنے بھی کھری کھری سنانے میں خوف محسوس نہ کیا۔ انھوں نے جمال عبدالناصر سے ملاقات کو ٹھکرا کر جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور کئی بار انھوں نے روسی سامراج کا مقابلہ کررہے مجاہدین افغانستان سے ان کے محاذوں پر جاکر ملاقاتیں کیں۔
جب انھوں نے مسلم خواتین کی تنظیم قائم کی تو اس وقت شاہ فاروق کا معاملہ ان کے ساتھ بہت اچھا تھا اور وہ ان کی باتوں سے اس قدر متاثر تھا کہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی دعوت دیتا اور سوچتا تھا کہ اسلامی خلافت کا احیاء مصر سے ہوگا۔ لیکن شاہ فاروق نے جب اسلام کا لبادہ اتار پھینکا تو زینب الغزالی نے اپنی تقریروں اور مساجد کے پروگراموں میں اس پر نکتہ چینی شروع کردی جس سے پریشان ہوکر اس نے اپنے ایک وزیر اسماعیل پاشاتیمور کے ذریعہ زینب الغزالی سے ملاقات کی خواہش کی۔ ملاقات ہوئی۔ شاہ فاروق نے حال چال دریافت کرنے کے بعد کہا کہ پہلے تم ہمارے ساتھ تھیں اور اب تم نے اپنے جلسوں اور تقریروں میں ہماری مخالفت شروع کردی۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ آپ فرانس سے واپس آئے تو ڈاڑھی بڑھالی تھی اور شیخ المراغی جیسے لوگوں کی صحبت اختیار کی تھی تو ہم نے آپ کو پسند کیا تھا۔ ہم سمجھتے تھے آپ کا ظاہر باطن کی طرح ہے مگر جب اٹلی سے پولی نام کے آدمی کو آپ لے آئے جو آپ کی رات گذاری اور میل ملاقاتوں کا انتظام کرتا تھا تو ہم کنارہ کش ہوگئے۔ شاہ فاروق نے کہا کہ لیکن میرے ساتھ وفاداری (ولاء) لازم ہے۔ اس پر زینب الغزالی نے جواب دیا: ہاں سرکاری ولاء واجب ہے لیکن ہمارے دل، ضمیر اور روحیں سب اسلام کے ساتھ ہیں۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کے صرف ہفتہ بھر کے پروگراموں میں کوئی دس لاکھ خواتین شریک ہوتی تھیں۔ ان کے اسی اثر اور دبدبہ کو دیکھتے ہوئے شاہ کے مشیروں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ اس عورت سے دشمنی مول لینا آپ کے اقتدار کے حق میں نہ ہوگا۔
زینب الغزالی نے جمال عبدالناصر کے اسلام مخالف رویے کی وجہ سے اس کی ملاقات کی پیشکش ٹھکرادی۔ نتیجہ میں جمال عبدالناصر نے انہیں تقریباً نظر بند کردیا اور ان کی سرگرمیوں کو ان کے گھر اور صرف چند مساجد تک محدود کرنے کے بعد پھر جیل میں ڈال دیا، جہاں ان پر انتہائی وحشیانہ مظالم ڈھائے گئے مگر ان کے قدم کبھی نہ ڈگمگائے۔
سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز مرحوم ان کے بڑے قدرداں تھے جب وہ پہلی مرتبہ حج کے لیے گئیں تو انھوں نے ولی عہد شہزادہ سعود کو لکھا کہ اس سال حج میں ایک بیس سالہ لڑکی آئی ہے۔ اس نے مسلم خواتین کو سلف صالحین کے نقش قدم پر چلانے کے لیے پہلی اسلامی تنظیم قائم کی ہے — تم اس کو محل میں رات کے کھانے پر بلاؤ۔ اس کی آمدورفت کے لیے سواری کا انتظام کرو اور مہمان خانہ میں قیام کی دعوت دو۔ اور پھر ان کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں زینب الغزالی نے ولی عہد کو بتایا کہ کس طرح امت اپنی دور اول کی عظمت کو دوبارہ حاصل کرسکتی ہے۔
زینب الغزالی ہمارے عہد کی وہ عظیم خاتون تھیں جن کی جدوجہد اور قربانیوں نے لاکھوں مردو خواتین کی زندگیوں میں اسلام کی لہر دوڑا دی اورانہیں اسلام کے احیاء کے لیے صف بستہ کردیا۔ زمانہ بھر کے مظالم اور دشواریاں انہیں اس راہ سے نہ ہٹا سکے۔
زینب الغزالی نے اپنی زندگی کی صورت میں ایک مثال قائم کی ہے کہ ایک اسلام پسند خاتون بھی حق و باطل کی کشمکش میں وہی کردار، بلکہ بعض اوقات اس سے بھی بلند رول، ادا کرسکتی ہے جو مرد ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے قیدوبند کی شدید آزمائشوں اور جان لیوا مظالم کو برداشت کر اس بات کا ثبوت فراہم کردیا کہ اسلام میں عورت کمزور اور بے اثر نہیں ہے۔ ان کی کتاب جس کا ترجمہ ’’زنداں کے شب و روز‘‘ کے نام سے اردو میں شائع ہوا ان کی ثابت قدمی، ایمان کی پختگی، کردار کی بلندی، حوصلوں کی رفعت، داعیانہ جذبے اور تڑپ، اللہ سے محبت اور اس کی رضا پر راضی رہنے اور صبر و ثبات کی داستان ہے۔
ان کی زندگی نے مسلم خواتین کو یہ بتایا کہ اسلامی انقلاب اور اللہ کے دین کے احیاء کے لیے خواتین کو بھی اسی طرح جدوجہد کرنی ہوگی جس طرح مرد کرتے ہیں اور اس راہ کے مصائب و مشکلات سے گھبرانے اور پریشان ہونے کے بجائے انہیں برداشت کرنے کا عزم و حوصلہ اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا۔
ان کی ستر سالہ دعوتی جدوجہد نے نہ صرف سرزمین مصر میں بلکہ پوری دنیا میں زبردست اثرات چھوڑے ہیں اور ان کی موت سے امت مسلمہ ایک عظیم مجاہدہ اور کامیاب داعیہ سے محروم ہوگئی۔
اس عظیم خاتون اسلام کو خراج عقیدت کے لیے الفاظ دینا ناممکن ہے۔ شاعر مشرق اقبال نے طرابلس کی شہید مجاہدہ فاطمہ بنت عبداللہ کی شان میں جو الفاظ کہے ہیں وہ الفاظ زینب الغزالی کی زندگی میں بھی عملاً موجود تھے۔
فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر
اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو قبول فرمائے ، ہمیں اور ہماری خواتین کو ان جیسا عزم و حوصلہ دے اور ان کی کوششوں کو قبول فرما کر ان کی قبر کو نور سے بھردے۔ آمین