رسول اللہ ﷺ نے اپنی تعلیم میں ایمان کے بعد جن چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اخلاقِ حسنہ اختیا رکرے اور برے اخلاق سے اپنی حفاظت کرے۔ اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں گے تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوشگواری کے ساتھ گزرے گی اور وہ دوسروں کے لیے بھی رحمت اور چین کا سامان ہوگا۔ بصورتِ دیگر دوسروں کے لیے بھی زحمت کا باعث اور اپنے لیے بھی زندگی تلخ کرے گا۔
آخرت میں خوش اخلاقی کا نتیجہ ارحم الراحمین کی رضا اور جنت ہے اور بداخلاقی کا انجام خداوند قہار کا غضب اور دوزخ کی آگ ہے (اللہ محفوظ فرمائے، آمین!)
حضرت ابو دردہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن مومن کی میزان عمل میں سب سے زیادہ وزنی چیز جو رکھی جائے گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے۔ (ترمذی) جس شخص کا ایمان کامل ہوگا اس کے اخلاق لازماً اچھے ہوں گے۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ ’’صاحبِ ایمان بندہ اپنے اچھے اخلاق سے ان لوگوں کے درجے حاصل کرلیتا ہے جو رات بھر نفلی نمازیں پڑھتے ہوں اور وہ ہمیشہ روزے رکھتے ہوں۔‘‘ (ابوداؤد)
نرمی کی صفت اتنی بڑی خیر ہے کہ جو شخص اس سے محروم رہا گویا وہ اچھائی اور بھلائی سے یکسر محروم اور خالی ہاتھ رہا انسان کی اکثر اچھائیوںاور بھلائیوںکا سرچشمہ اس کی نرم مزاجی ہے لہٰذا جو شخص اس سے محروم رہا وہ ہر قسم کی خیراور بھلائی سے محروم رہے گا۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ خود مہربان ہے (نرمی اور مہربانی اس کی ذات صفت ہے) اور نرمی اور مہربانی کرنا اس (اللہ تعالیٰ) کو محبوب بھی ہے۔ (یعنی اس کو یہ بات پسند ہے کہ اس کے بندے بھی آپس میں نرمی اور مہربانی کا برتاؤ کریں)۔ نرمی پروہ اتنا دیتا ہے کہ نرمی کے ماسوا کسی چیز پر بھی نہیں دیتا۔‘‘ (صحیح مسلم)
نرمی و محبت اکرام و احترام و خیرخواہی کے جذبات کو ابھارے گی جبکہ درشت مزاجی اور تند خوئی اور دلوں میں بغض و عداوت پیدا کرے گی اور حسد اور بدخواہی اور جنگ و جدال کے منحوس جذبات کو بھڑکائے گی۔درشت خوئی ایمان کے منافی اور جنت کا راستہ روکنے والی نہایت منحوس عادات ہیں جو کسی مسلمان میں نہیں ہونی چاہئیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بدزبان اور فحش آدمی کو دوست نہیں رکھتا۔ مطلب یہ ہے کہ بدزبانی کی عادت اللہ تعالیٰ کی محبت سے محروم کردیتی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’اچھی اور میٹھی بات بھی ایک صدقہ ہے یعنی نیکی کی ایک قسم ہے جس پر بندہ اجر کا مستحق ہوتا ہے۔‘‘
آپؐ نے فرمایا آدمی جہنم میں اوندھے منہ زیادہ تر زبان ہی کی بے احتیاطی کی وجہ سے ڈالے جائیں گے۔ زبان کی بے باکیاں اعمال کو بے وزن اور بے نور کردیتی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ برے ساتھیوں کی ہم نشینی سے اکیلے رہنا بہتر ہے اور اچھے ساتھی کے ساتھ بیٹھنا تنہائی سے بہتر ہے۔ بری باتیں بنانے سے بہتر خاموش رہنا ہے۔ انسان کو ہمیشہ صرف وہی بات کرنا چاہیے جس پر اسے ثواب کی امید ہو۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مومن بندہ نہ زبان سے حملہ کرنے والا ہوتا ہے اور نہ لعنت کرنے والا اور بدگو نہ گالی بکنے والا۔‘‘ (جامع ترمذی)
آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک درجہ کے لحاظ سے بدترین آدمی قیامت کے دن وہ ہوگا جس کی بدزبانی اور سخت کلامی کے ڈر سے لوگ اس کو چھوڑ دیں (یعنی اس سے ملنے اور بات کرنے سے گریز کریں) (بخاری و مسلم)
حسن اخلاق کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی ایک جامع دعا منقول ہے:
’’حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے تھے : اے میرے اللہ! تو نے اپنے کرم سے میرے جسم کی ظاہر بناوٹ جس طرح سے اچھی بنائی ہے اس طرح میرے اخلاق بھی اچھے کردے۔‘‘
ایک دعا یہ بھی ہے:
’’اے اللہ! تو مجھ کو بہتر اخلاق کی رہنمائی فرما کیونکہ تیرے سوا کوئی بہتر اخلاق کی رہنمائی نہیں کرسکتا اور برے اخلاق کو میری طرف سے ہٹا دے کیونکہ ان کو تیرے سوا کوئی ہٹا نہیں سکتا۔‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اخلاق حسنہ اختیار کرنے اور بداخلاقیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
——