گذشتہ مضمون میں ہم نے عالم اسلام کے کچھ ممالک میں خواتین کی بعض سماجی تحریکوں کا تعارف کرایا تھا۔ آج کی محفل میں ہندوستان کی بعض سماجی سرگرمیوں پر روشنی ڈالنی ہے۔
ان مضامین کا اصل مقصد اسلام پسند خواتین کے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ خواتین چاہیں تو بہت کچھ کرسکتی ہیں۔ آج کے مضمون میں جن تحریکوں اور خواتین پر گفتگو ہوگی، ان کے افکار، نظریات اور عقائد فی الحال ہمارے زیر بحث نہیں ہیں۔ ان کے خیالات اور ان کی عملی زندگی کے بہت سے پہلوؤں سے اختلاف کے باوجود یہاں ان کے تذکرہ کا مقصد صرف ان کی سرگرمی اور فعالیت کو اجاگر کرنا ہے۔ اور یہ بتانا ہے کہ اگر خواتین حوصلہ ہمت اور سرگرمی سے کام لیں تو کتنی گراں قدر خدمات انجام دی جاسکتی ہیں۔
آج کے مضمون میں ہم دو افراد اور دو تحریکوں پر بحث کریں گے۔ ان کا، اور ان کی سرگرمیوں کاتعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے ہے۔ اور یہ سب ان غیر معمولی مواقع کی نمائندگی کرتی ہیں جو اسلام پسند خواتین کو بھی جدوجہد اور کوشش کے لیے دستیاب ہیں۔
ہم آغاز ایک مسلم خاتون کے ذکر سے کرتے ہیں۔ مہاراشٹر کے مغربی علاقوں میں اپاہج افراد اور بچوں کی مدد کے لیے ایک بڑی فعال تنظیم ہے معذوروں کے مددگار ‘Helplers Of The Handicapped’۔ اس تنظیم نے پورے علاقہ میں اپاہج افراد خصوصاً بچوں کے اندر زندگی کا نیا حوصلہ اور امنگ پیدا کی ہے۔ محمد دونوں ہاتھوں سے معذور ایک بچہ ہے۔ عام اسکولوں کے ساتھ ساتھ اپاہجوں کے سرکاری اسکول نے بھی اسے اس بنیاد پر داخلہ دینے سے انکار کردیا تھا کہ دونوں ہاتھوں سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ ان کی نظر میں کسی مددگار کے بغیر لکھنے پڑھنے کے لائق نہیں تھا۔ آج اس تنظیم کی مدد سے وہ نہ صرف لکھنے پڑھنے کے لائق ہے بلکہ کولہا پور کے خاص باغ اسٹیڈیم میں کرکٹ کھیلتے ہوئے، بغل میں بلاَّ دبا کر چوکہ بھی لگاسکتا ہے۔ اب وہ زندگی کی امنگ سے بھر پور ہے۔ اور بہت آگے جانا چاہتا ہے۔
اس تنظیم کے پاس اس طرح کے بے شمار تجربات ہیں۔ اس تنظیم کی بانی نسیمہ ہرزوک ہیں۔ نسیمہ ۱۶ سال کی عمر تک ایک عام صحت مند لڑکی تھی۔ اسکول مکمل کرنے کے بعد انھوں نے بمشکل جونیئر کالج میں فرسٹ ائیر مکمل کیا تھا کہ ایک مرض میں کمر کے نیچے انکا پورا جسم مکمل طور پر مفلوج ہوگیا۔ اس حد تک کہ وہ کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھیں۔ حوائج ضروریہ پر کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ کروٹ تک نہیں لے سکتیں۔ آج بھی ان کی یہی حالت ہے۔
لیکن اس حالت میں بھی وہ لاکھوں معذوروں کی مسیحا ہیں۔ بے شمار قومی و بین الاقوامی انعامات پا چکی ہیں۔ ان کی آپ بیتی’’ Naseema – The Incredible Story‘‘ جو دویکا فاؤنڈیشن ، نئی دہلی نے شائع کی ہے، نہ صرف معذوروں کے لیے بلکہ صحت مند لوگوں کے لیے بھی حوصلہ و ہمت کا سرچشمہ ہے۔
نسیمہ کے الفاظ میں ’’میں سولہ سال کی تھی اور بستر پر لیٹے لیٹے اللہ میاں سے موت کی دعا کررہی تھی۔ میری موت کم سے کم ان لوگوں کو مصیبتوں سے نجات دلاسکتی تھی جو مجھ سے محبت کرتے تھے۔ میں اللہ میاں سے یہ بھی دعا کرتی تھی کہ کم سے کم مجھے اتنی قوت دے کہ میں اپنی ٹائلٹ سے متعلق ضرورتیں خود پوری کرسکوں۔ لیکن اس دوران بابا کا پسندیدہ شعر بار بار میرے ذہن میں گونجتا ؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟‘‘
نسیمہ نے تقدیر کا ماتم کرنے کی بجائے اللہ کی مرضی کو قبول کرنے اور جدوجہد کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ نسیمہ کہتی ہیں : ’’زندگی کے ان کٹھن سالوں میں مجھے بے شمار چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میرا ایقان ہے کہ انہی چیلنجوں نے میری شخصیت اور کردار کو تشکیل دیا ہے۔ ان چیلنجز نے مشکل حالات میں بھی مجھے صبر کی تربیت دی ہے۔ آج اس ادارہ (Helplers Of Handicapped) کے نظم میں میں محسوس کرتی ہوں کہ یہ تربیت بہت مفید ثابت ہورہی ہے۔ ایسے حالات میں بھی جب لوگ حواس باختہ اور سراسیمہ ہوجاتے ہیں مجھے نہ صرف اپنے جذبات اور حوصلوں پر کنٹرول رہتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی حوصلہ دلاسکتی ہوں۔ میں اب اس بات میں یقین رکھتی ہوں کہ ہر مسئلہ اورپریشانی ہمارے لیے سیکھنے اور تربیت پانے کاایک موقع ہوتی ہے۔ اور اسکو حل کرنے کی کوشش ہمیں زندگی میں ایک قدم آگے لے جاتی ہے۔ میں آسانی سے مسائل سے پریشان نہیں ہوتی کیونکہ میرا ایمان ہوتا ہے کہ اللہ کے پاس بہترین منصوبہ ہے اور اس پریشانی میں بھی میرے لیے خیر ہے۔‘‘
ایسی باتیں ہم وعظ و نصیحت کی محفلوں میں ضرور سنتے ہیں، لیکن ایک ایسی خاتون کی زبانی جسے اپنی بنیادی ضرورتوں پر بھی کنٹرول حاصل نہیں ہے – یہ باتیں کتنی حوصلہ بخش اور ایمان افزاء ہیں – یہی نسیمہ کا مشن ہے۔ وہ مغربی مہاراشٹر کے کوچے کوچے میں حوصلے اور امنگیں بانٹنے کا کام کرتی ہیں۔ وہ بچے اور جوان، جو اپنی جسمانی معذوری کی وجہ سے زندگی کی جنگ ہار چکے ہوتے ہیںاور موت کی تمنا میں وقت کاٹ رہے ہوتے ہیں، نسیمہ کی ایک ملاقات ان کی آنکھوں میں زندگی کی چمک پیدا کردیتی ہے۔
ایک اپاہج خاتون، لاکھوںمعذور انسانوں کی مسیحا بنی ہوئی ہے۔ اسلام پسند خواتین میں کتنی بہنتیں ہیںجو اس سطح کی خدمات کا ریکارڈ رکھتی ہیں —؟ نسیمہ کی آپ بیتی جو انگریزی اور مراٹھی زبانوں میں دستیاب ہے، ہماری بہنوں کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
اپاہجوں کے ساتھ ساتھ مدد اور ہمدردی کے مستحق وہ لوگ بھی ہیں جو کسی ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔ گجرات کے فسادات ہمارے ملک میں ظلم و بربریت کی ایک بدترین مثال ہے۔ ان فسادات میں لاکھوں خاندانوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے، اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں ان میں سے کچھ خاندانوں کو دیکھنے اور ان کے افراد سے ملاقات کرنے کا موقع ملا ہے۔
اس ظلم و بربریت پر خون کے آنسو ہم سب روئے ہیں لیکن ہم میں کتنے لوگ ہیں جنھوں نے مظلومین کی مدد اور ظالم کو سزا دلانے کے لیے کچھ کیا ہو۔ تیستا استلواد کو مودی کی فرقہ پرست حکومت کے خلاف بجا طور پر ایک خاتون کی فوج (One woman army) کہا جاتا ہے۔ تیستا گذشتہ تین سالوں سے گجرات کے مظلومین کے لیے چو طرفہ لڑائی لڑرہی ہیں۔ ان کے مخالفین تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور قوت اور اثر و رسوخ میں بھی۔ چنانچہ انہیں زک کرنے اور ان کے حوصلوں کو پست کرنے کے لیے ہر طرح کی کوششیں کی گئیں۔ جسمانی حملے کیے گئے۔ الزامات لگائے گئے، مقدمے قائم کیے گئے۔ عام آدمی ہوتا تو اس چوطرفہ یورش سے حوصلہ ہار بیٹھتا۔ لیکن تیستا برابر لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔
جاوید اختر کہتے ہیں: ’’گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ کسی بھی فرد کو پست ہمت کرنے کے لیے کافی تھا، اس نے نہ صرف ملزمین کو بری کردیا بلکہ تیستا پر غلط کاریوں کا الزام لگایا۔ لیکن تیستا کے حوصلوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ ان کی توانائی اور جنون ایک نایاب کوالٹی ہے۔‘‘
تیستا نظریاتی اعتبار سے بائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں۔ بہت سے معاملوں میں ان کا نقطۂ نظر ہمارے نقطۂ نظر سے متصادم ہے۔ ہم ان کی تمام سرگرمیوں کی تائید نہیں کرسکتے لیکن گجرات کے مظلومین کے لیے ان کی حوصلہ مند جدوجہد بلاشبہ قابل تحسین اور قابل تقلید ہے۔
تیستا کی جدوجہد کئی طرفہ ہے۔ ان کا میگزین ’’کمیونلزم کمبیٹ‘‘ ہندوستان میں فرقہ پرستوں کو بے نقاب کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ثابت ہورہا ہے۔ گجرات کے فسادات کے بعد تیستا نے بڑی عرق ریزی سے ظلم کی شہادتیں جمع کیں۔ اور مارچ ۲۰۰۲ میں اپنے میگزین کاخصوصی شمارہ (تقریباً ۱۵۰ صفحات) شائع کیا۔ یہ مجلہ گجرات کے فسادات پر پہلی باقاعدہ دستاویز تھی۔ اس نے بین الاقوامی سطح پر اس بربریت سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ حقوق انسانی کمیشن، اور مختلف تحقیقی ایجنسیوں نے ان شہادتوں کو بڑی اہمیت دی۔ اور خصوصیت سے قومی و بین الاقوامی میڈیا میں گجرات کے مظلومین کے کیس کو پیش کرنے میں اس سے بڑی مدد ملی۔
تیستا کی صحافتی و علمی کاوشیں اس شمارہ پر ختم نہیں ہوئیں۔ گجرات کے فسادات اور فرقہ پرستی پر کمیونلزم کمبیٹ میں گذشتہ تین سالوں میں کئی بڑے اہم مضامین اور رپورٹیں شائع ہوئیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
تیستا کی ویب سائٹ (www.sabrang.org) فرقہ پرستوں کو بے نقاب کرنے میں بہت اہم رول ادا کررہی ہے۔ اس میں ان گنت رپورٹیں، اعداد و شمار، مضامین، آنکھیں کھولنے والے تجزئیے، دل کو دہلا دینے والے واقعاتی ریکارڈز، تصاویر، ویڈیو ، سب کچھ ہے۔ دنیا بھر میں فرقہ پرستی کے موضوع پر لکھنے والے اور تحقیق کرنے والے اس ویب سائٹ سے ضرور استفادہ کرتے ہیں۔
تیستا کی کوششیں صرف صحافتی اور علمی محاذ تک محدود نہیں ہیں، انھوں نے فرقہ پرستی کے خلاف صحافیوں کو منظم کرنے کے لیے (JAC)، Journalists Againts Communalismنامی تنظیم قائم کی۔ ممبئی کے فسادات کے بعد (CPJ)،Citizens for Peace & Justice کے نام سے انھوں نے ایک بہت ہی مؤثر فورم قائم کیا تھا۔ جسٹس شری کرشنا کمیشن کی تحقیقات میں اس فورم نے بہت اہم رول ادا کیا تھا۔ تیستا نے اس عرصہ میں ممبئی پولیس کی وائرلیس فریکوانسیز میں مداخلت کرکے کنٹرول روم کے مکالمے ریکارڈ کرلیے تھے اور اس کے ذریعہ ممبئی پولیس میں مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے تعصب کو بے نقاب کیا تھا۔ اس واقعہ نے پورے ملک میں ہنگامہ بپا کردیا تھا۔
گجرات کے فسادات کے بعد پہلے تو تیستا نے صرف شہادتوں کو جمع کرنے کا کام کیا لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مظلومین کی مؤثر پیروی نہیں ہورہی ہے تو وہ راست عدالتی کاررائیوں میں کود پڑیں۔ اور مظلومین کی جانب سے بے خوف مقدمات لڑنے شروع کیے۔ بیسٹ بیکری مقدمے کو گجرات سے مہاراشٹر منتقل کرانے میں ان کا بہت اہم رول ہے۔ یہ فیصلہ مودی حکومت کے لیے بہت بڑی سرزنش تھی۔ اور اس نے بین الاقوامی سطح پر گجرات کے مظلومین کے کیس کو بہت استحکام بخشا۔ گجرات کے فسادات کے مظلومین کو ہمت دلانا اور ان کے اندر حوصلہ بنائے رکھنا تیستا کی اہم ترجیح بھی ہے اور ان کی سرگرمیوں کا اہم محاذ بھی۔ وہ بار بار ممبئی سے احمد آباد جاتی ہیں۔ مظلومین سے ملتی ہیں۔ ان کے ساتھ مٹینگیں کرتی ہیں۔ آپ ان کے ساتھ ۱۵ منٹ بیٹھئے، ہر دو منٹ پر ان کا موبائل فون بجے گا۔ اور فون کرنے والے اکثر گجرات کے مظلومین ہوں گے یا ان کے مددگار۔
اسکول کے بچوں کے لیے فرقہ پرستی سے پاک اسباق کے سلسلے، فرقہ پرستی کے خلاف تھیٹر، ڈرامہ، شو، عوام میں بیداری مہمات، بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت اور وہاں فرقہ پرستوں کی حقیقی شبیہ اجاگر کرنے کی کوشش، مقدمے اور ان کی پیر ویاں، کتابوں کی اشاعت، میگزین کی ادارت، ویب سائٹ کی ادارت، صحافیوں کو منظم کرنا اور انہیں فرقہ پرستی کے خلاف لکھنے کے لیے آمادہ کرنا — کیا کوئی یقین کرسکتا ہے کہ ایک ۴۲ سالہ عورت اکیلے اتنے سارے کام کرسکتی ہے؟
نسیمہ اور تیستا دونوں شہری خواتین ہیں۔ اب آئیے کچھ دیہی خواتین کا بھی ذکر ہوجائے۔ ڈوبا گھنٹہ آندھرا پردیش کے نیلور ـضلع میں ایک چھوٹا سا دیہات ہے۔ ۱۵ سال پہلے یہ دیہات قومی میڈیا میں زبردست ایشو بن گیا تھا۔ وجہ؟ خواتین کی ایک انوکھی تحریک۔ ڈوبا گھنٹہ میں خواتین کی ایک خواندگی کی کلاس میں سیتَّما کی کہانی پڑھی گئی جو شوہرکی شراب نوشی سے تنگ آکر خود کشی کرلیتی ہے۔ اس کہانی کا ایسا اثر ہوا کہ خواتین، جن میں سے اکثر خود بھی شرابی شوہروں کی بیویاں تھیں، شراب کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ شراب مخالف کمیٹیاں بنیں۔ شرابی مردوں سے مندروں میں شراب چھوڑنے کی قسمیں لی گئیں۔ اس کے بعد خواتین کے گروپ شرابیوں کو شراب خانہ جانے سے روکنے میں جٹ گئے۔ اس کے بعد تحریک اور زور پکڑی تو خواتین نے کیروسین تیل، مرچ کا پاؤڈراور لاٹھیاں جیسے اسلحہ جات سنبھالے اور شراب کے اڈوں، کنٹراکٹرز کے ٹھکانوں اور گوداموں پر حملے شروع کردئیے۔
شراب سے بچے ہوئے روپیوں سے ہارلکس، بارن ویٹاوغیرہ جیسے لذید اور صحت بخش مشروبات فراہم کیے جانے لگے۔ ایک دیہات سے نکل کر تحریک پھیلتی گئی اور تین ماہ کے اندر تقریباً ۸۰۰ دیہاتوں میں پھیل گئی۔ دھیرے دھیرے اس تحریک کا نشانہ پولیس افسران اور اعلیٰ عہدیداران بھی بننے لگے۔ ضلع کلکٹروں کو شراب کے لائسنسوں کی نیلامی سے خواتین نے جبراً روکا۔ نتیجتاً لاٹھیاں برسنا شروع ہوئیں۔ مقدمے قائم ہوئے، کئی خواتین جیلوں میں بند کی گئیں۔ لیکن تحریک جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی رہی۔ یہاں تک کہ یکم اکتوبر ۱۹۹۳ء کو وزیر اعلیٰ وجے بھاسکر ریڈی کو دیسی شراب پر پابندی کا اعلان کرنا پڑا۔
تلگودیشم کے سربراہ این ٹی راما راؤ نے صورتحال دیکھ کر شراب پر مکمل پابندی کا وعدہ کیا۔ اس وعدہ نے تلگودیشم کی قسمت چمکادی۔ این ٹی راما راؤ وزیر اعلیٰ بنے اور انھوں نے شراب پر مکمل پابندی عائد کردی۔
بدقسمتی سے بعد میں آندھرا پردیش کے موقع پرست وزیر اعلیٰ چندرابابو نائیڈو نے ریونیو کے لالچ میں اس پابندی کو ختم کردیا اور اس طرح جہاں خواتین کی اس شاندار تاریخی تحریک کے حاصل کردہ نتائج ضائع کردئے وہیں اس عہد سے بے وفائی کی جو تلگودیشم کے عروج کا ذریعہ بنا تھا۔
لیکن اس تحریک نے جو آگ لگائی تھی وہ پھیلتی گئی۔ شراب کے حامی معمولی لوگ نہیں تھے۔ اس کے ٹھیکیدار زبردست اثر و رسوخ کے مالک اور اکثر سیاسی جماعتوں کے بااثر قائدین تھے۔ خود ریاستی حکومتوں کو اس سے زبردست ریونیو حاصل ہوتا تھا۔ معاشی ماہرین حتی کہ ورلڈ بینک نے سفارش کی تھی کہ آندھرا پردیش کی حکومت شراب پر پابندی ختم کرے۔ ان ماہرین کو یہ احساس نہیں تھا کہ ۹۰۰ کروڑ روپئے کا ریاستی حکومت کا ریونیو فراہم کرنے کے لیے غریب اور مفلوک الحال خاندانوں کو ۴۵۰۰ کروڑ روپیوں کی تباہی برداشت کرنی پڑ رہی تھی۔ ان سب کے باوجود ریاستی حکومت کو شراب پر پابندی کے لیے مجبور ہونا پڑا، یہ دیہی خواتین کی ایسی کامیابی ہے جس کی نظیر مشکل ہی سے ملتی ہے۔
دھیرے دھیرے یہ تحریک دیگر ریاستوں میں پھیلتی گئی۔ ہریانہ میں خواتین نے شرابیوں کی پٹائی شروع کردی اور شراب قانون کو پبلک ٹوائلٹ میں بدل دیا۔ حتی کہ یہاں بھی ریاستی حکومت کو پابندی کا اعلان کرنا پڑا۔ مظفر نگر میں سجدو جنگی میں خواتین نے شراب کی دکانوں کو آگ لگانا شروع کیا۔ ۱۹ عورتیں گرفتار ہوئیں۔ اور پورے اترپردیش میں احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ (۱۹۹۶ء)
کرناٹک کے رِنل گاؤں میں حسین بی نامی ایک بوڑھی عورت نے یہ تحریک شروع کی۔ وہ روزانہ شراب کی لاری پر پتھر برساتی اور گالیاں دیتیں۔ دھوپ ہو یا بارش حسین بی اپنا یہ فریضہ پابندی سے انجام دیتی۔ دھیرے دھیرے شراب کی لاری پر پتھر برسانے والی وہ اکیلی نہیں رہی۔ ایک سے دو، دو سے چار یہاں تک کہ یہ صورتحال بنی کہ شراب کی لاری گاؤں میں آتی اور گاؤں کی ساری عورتیں پتھر لے کر اٹھ کھڑی ہوتیں۔ پولیس آئی۔ اس نے خواتین کو روکنا چاہا۔ گاؤں کا پجاری، امام صاحب اور کچھ با اثر لوگ خواتین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر یہ ہوا کہ شراب کا کاروبار کرنے والیوں کو گاؤں والوں نے دوسرا روزگار فراہم کرایا۔ رِنل میں نہ آج کوئی شراب کی دکان ہے نہ شراب کی لاری آتی ہے۔
اس وقت جب کہ آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں یقینا کیرلہ، تمل ناڈو، کرناٹک وغیرہ کے کسی نہ کسی گاؤں میں شراب کی دکان اور لاری پر پتھر برس رہے ہوں گے۔ آندھرا پردیش کی تحریک کی دبی ہوئی چنگاریاں وقتاً فوقتاً جگہ جگہ بھڑک اٹھتی ہیں۔
ان خواتین کو کسی منظم تحریک کا تعاون حاصل نہیںہے۔ ہندوستان کی کسی سیاسی جماعت کے ایجنڈے میں شراب پر پابندی شامل نہیں ہے۔ نہ کسی بڑی منظم تحریک نے اس مسئلہ کو ایک ایشو کی حیثیت دی ہے۔ اس کے باوجود یہ ان پڑھ پسماندہ خواتین کئی جگہ ملک کے پڑھے لکھے طبقہ کی مرضی ’ماہرین‘ کی ’ماہرانہ‘ رائے اور سیاسی جماعتوں کے متحدہ ’موقف‘ کے خلاف اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔
سیوا یا Self Employed Women Associationگجرات کے دیہاتوں میں غریب مزدور پیشہ اور چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والی خواتین کی تنظیم ہے۔ محترمہ ایلا بھٹ نے یہ تنظیم ۱۹۷۲ء میں مزدور پیشہ خواتین کی مدد کے لیے قائم کی تھی۔ آج یہ ایک منظم تحریک بن چکی ہے۔ لاکھوں غریب خواتین کی زندگیوں میں اس نے خوشگوار انقلاب بپا کیا ہے۔ اور پوری ریاست میں سماجی تبدیلی کی علامت بن گئی ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ سیوا کے اراکین کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین اور حکومتوں کے سربراہان اس تجربہ کو دیکھنے کے لیے سیوا کے دفاتر کا دورہ کرتے ہیں (حال ہی میں نیدرلینڈ کے وزیر اعظم نے دورہ کیا)۔ یمن، ترکی جیسے ملکوں میں بھی یہ تحریک پھیل چکی ہے۔ اور بے شمار باوقار انعامات حاصل کرچکی ہے۔
سیوا کاطریقہ کار بہت سادہ ہے۔ وہ مزدوروں اور غریب تاجر عورتوں کے حقوق کے لیے لڑتی ہے۔ کوآپریٹیو اداروں کے ذریعہ ان کی سماجی و معاشی حالت سدھارتی ہے۔ اور ان کے اعتماد کو بڑھاتی ہے۔
آج سیوا کے تقریباً ۸۴ کوآپریٹیو ادارے ہیں۔ تقریباً ۵۳ ڈیری کوآپریٹیو ہیں جن میں غریب دیہی خواتین بڑے تاجروں اور ڈیری مالکان کے واسطہ کے بغیر دودھ اور دووھ کی پیداوار راست صارفین کو فروخت کرتی ہیں اور بھاری منافع کماتی ہیں۔ اسی طرح ۱۵ فنی کوآپریٹیوز ہیں۔ ۱۵ سروس اور مزدوروں کے کو آپریٹیوز ہیں ، ۷ زرعی اور ۵ تجارتی کوآپریٹیوز ہیں۔ سیوا بینک بھی ایک کوآپریٹیو ہے۔ جس کے اراکین کی تعداد سوا لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ اراکین بینک سے استفادہ بھی کرتی ہیں اور اس کے منافع میں شریک بھی ہوتی ہیں۔
سماجی تحفظ کی تنظیمیں بھی سیوا کی تحریک کا اہم حصہ ہیں۔ ہیلتھ کو آپریٹیوز غریب خواتین کی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے اپنے ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز ہیں جو خواتین میں صحت و تندرستی سے متعلق تحریکات بھی چلاتے ہیں اور ان کی صحت کا خیال بھی رکھتے ہیں۔
اسی طرح نگہداشتِ اطفال (Child Care) کے مراکز ہیں جہاں بچوں کی صحت کی نگہداشت ہوتی ہے۔ ان کو ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ اور دیہی خواتین میں بچوں کی صحت عامہ سے متعلق بیداری لائی جاتی ہے۔ اس کے استفادہ کنندگان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔
گجرات روایتی طور پر بڑے سرمایہ داروں اور مہاجنوں کی ریاست ہے۔ جہاں تجارت پر مخصوص سرمایہ دار ذاتوں کی بالادستی ہے۔ لیکن ایسے ماحول میں آج صورتحال یہ ہے کہ احمد آباد کے مین مارکیٹ میں بھی سیوا کی پہچان ہے۔ اور غریب دیہی خواتین بغیر کسی واسطہ کے اپنی مصنوعات راست فروخت کرسکتی ہیں۔
آج سیوا کے اداروں میں ڈاکٹرز ملازم ہیں۔ اس کے معاشی اداروں میں تعلیم یافتہ مالیاتی منتظمین اور ماہرین فینانس تنخواہ یافتہ ملازم ہیں۔ اور یہ سب غریب انپڑھ دیہی خواتین کی ذریعہ ہورہا ہے۔ وہی اس تحریک کی کرتا دھرتا ہیں۔ انہی کے نمائندے اس کے بورڈ کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ اور وہی اس تحریک کے سارے فیصلے کرتی ہیں۔
ایک اپاہج خاتون جو اپاہجوں کی بہبود میں لگی ہوئی ہے، ایک پڑھی لکھی خاتون جو نہایت خونخوار ظالم سے ٹکر لیے ہوئے ہے، غریب دیہاتی خواتین کی تحریک جو ایک سماجی برائی کے خاتمہ میں جٹی ہوئی ہے اور دیہاتی عورتوں ہی کی ایک تحریک جو غربت کے خاتمہ اور غریب عورتوں کی بہبود کے کام میں جٹی ہوئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس صرف وعظ و نصیحت اور باتیں اور دعوے نہیں ہیں بلکہ ٹھوس نتائج ہیں۔ ایسی کاوشوں کا ریکارڈ ہے جن کے فائدے سوسائٹی میں علانیہ محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
ہندوستان میں ایسی بلا مبالغہ سیکڑوں تحریکیں اور ہزاروں کارکن ہیں یہاں ہم نے اپنی معلومات کے مطابق زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق چار سرگرمیوں کومحض نمونہ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔
تصور کیجیے کہ ان میں سے کسی بھی ایک تحریک کا آغاز کرنے والی اسلام پسند خواتین ہوتیں تو آج کیا صورتحال ہوتی؟ کیا اسلام کی یہ عملی شہادت ہزاروں اجتماعات اور لاکھوں تقریروں پر بھاری نہیں ہوتی—؟