جماہی کب اور کیوں؟
مجلس میںبیٹھا اگر کوئی آدمی بھاڑ سا منہ کھول کر جماہی لینا شروع کردے تو سب اسے چبھتی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں اور اگر وہ کھلے منہ پر ہاتھ بھی نہ رکھے تو محفل کے آداب کے خلاف گردانا جاتا ہے۔ ایسے موقعوں پر آدمی سوچتا ہے کہ آخر جماہی کی وجہ کیا ہے؟ دراصل پھیپھڑوں میں آکسیجن کی کمی کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار خون میں زیادہ ہوجاتی ہے۔ جسم کا اعصابی نظام اس امر کے اظہار کے لیے ہمیں غیر ارادی طور پر جماہی لینے پر مجبور کردیتا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر پھیپھڑوں میں آکسیجن کم کیوں ہوتی ہے؟ اس کی وجہ نیند کی کمی بھی ہوسکتی ہے اور بھوک بھی۔ عام طور پر جماہی کی وجہ بوریت اور لمحہ موجود کے کام سے عدم توجہی کو سمجھا جاتا ہے۔ اب جبکہ آپ کو بھوک لگ رہی ہو یا نیند آرہی ہو تو کام سے بیزاریت اور اکتاہٹ تو ہوگی ہی!
ٹریفک سگنل یا سرخی بتی
ٹریفک سگنل پر ٹھہرنے کے لیے سرخ بتی ہی کیوں استعمال کی جاتی ہے؟
سرخ رنگ تمام رنگوں کی نسبت زیادہ دور سے نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ اس کے طول موج (Wave Length) کا مختصر ترین ہونا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سرخ نشان روایتی طور پر خطرے کا نشان سمجھا جاتا رہا ہے۔ ریلوے کے نظام میں بھی سرخ سگنل استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ دوسرے رنگ کے سگنل ارد گرد کی عمارتوں کی بتیوں یا اسٹریٹ لائٹس کی وجہ سے شک و شبہہ پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لیے دنیا میں ہر جگہ رکنے کے لیے سرخ بتی یا سرخ اشارے کا استعمال کیا جاتا ہے۔
رونگٹے کھڑے کیوں ہوتے ہیں؟
رونگٹے کھڑے ہونے کا محاورہ یقینا آپ جانتے ہوں گے اور زندگی میں کسی خوف کی وجہ سے ایسی کیفیت سے بھی دوچار ہوئے ہوں گے۔ اگر آپ کی زندگی میں ایسی کوئی چیز پیش نہیں آئی یا آپ اس احساس سے ’’فیض یاب‘‘ نہیں ہوئے تو سردی سے تو یقینا ہر سال لطف اندوز ہوتے ہوں گے۔ سخت سردی بھی رونگٹے کھڑے کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں ہمارے جسم کے مسام ابھرے ابھرے اور واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ بعض مساموں میں چھوٹے چھوٹے بال خار پشت کے کانٹوں کی طرح کھڑے بھی ہوجاتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔
جسم کے ہر مسام کے نیچے ایک چربیلا غدود ہوتا ہے جو ہماری جلد کو چکنا رکھتا ہے۔ سردی کی حالت ہو یا سخت خوف کی کیفیت، دونوں صورتوں میں ان غدودوں کی چربی باہر آجاتی ہے، جس کی وجہ سے مسام ابھر آتے ہیں اور ہم اس کیفیت کو رونگٹے کھڑے ہونے کا نام دیتے ہیں۔ غدود ایسا جان بوجھ کر کرتے ہیں تاکہ وہ جسم کو سردی سے بچاسکیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ خوف سے ہمارے جسم کا درجہ حرارت کم ہوجاتا ہے اور ہم سردی محسوس کرتے ہیں۔ اور ’’خوف سے جسم میں سردی کی لہر کا دوڑنا‘‘ کے محاورے کی علت بھی یہی ہے۔
پریشر کوکر کا اصل کمال
اگر کبھی آپ ایسے علاقے میں جائیں جو سطح سمندر سے ۹؍ہزار فٹ بلند ہو اور وہاں گوشت یا اس قسم کی قدرے دیر سے گلنے والی شے پکانا چاہیں تو آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وجہ یہ کہ اس بلندی پر ہوا کا دباؤ بہت کم ہوتا ہے۔ وہاں پر درجۂ کھولاؤ (Boiling Point) ۲۱۲؍فارن ہائیٹ سے بھی کم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے گوشت جیسی اشیاء اتنی حرارت جذب نہیں کرتیں کہ وہ گل سکیں۔ اس کا علاج پریشر کوکر سے کیا جاتا ہے۔ پریشر کوکر چاروں طرف سے اچھی طرح بند ہوتا ہے جس کی وجہ سے کوکر کے اندر کا دباؤ باہر کے دباؤ سے زیادہ ہو جاتا ہے اور پانی کا درجہ کھولاؤ اس قدر کم ہوجاتا ہے کہ گوشت آسانی سے گل جاتا ہے اوریہی بلند علاقے، دراصل پریشر کوکر کی ایجاد کا باعث ہیں۔
پھلی دار پودے … سورج کے پجاری
پھلی دار پودے مثلاً لوبیا وغیرہ کی بیلیں عموماً کسی سہارے پر چڑھ کر ہی آگے بڑھتی ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو ان کے لپٹنے کا عمل سورج کے رخ پر ہوگا۔ ہمارے خطوں میں سورج گھڑی وار گھومتا ہے یعنی جس رخ پر گھڑی کی سوئیاں گھومتی ہیں۔ ہمارا علاقہ شمالی نصف کرہ میں شامل ہے۔ ان علاقوں میں پھلی دار پودے اپنے ’’سہارے‘‘ کے گرد گھڑی دار لپٹتے ہیں جبکہ جنوبی نصف کرے میں سورج کی حرکت خلاف گھڑی وار ہوتی ہے اور پھلیوں کی بیلیں بھی اپنے سہارے پر خلاف گھڑی وار ہی لپٹیں گی۔ پھلیوں کی اس ’’سورج پرستی‘‘ کی وجہ یہ ہے کہ وہ سورج کی شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرتی ہیں، اس لیے اپنے رزق کے ہاتھوں مجبور ہوکر سورج کی پیروی کرتی رہتی ہیں۔
——