شفیق صاحب کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی اور باورچی عظیم احمد کو یقین تھا کہ اس کھانے کا آرڈر بھی اسے ہی ملے گا جو کہ ایک بڑا آرڈر ہوگا۔ اس میں اسے اچھی آمدنی ہوگی۔ شفیق صاحب ایک عرصے سے غریب بچیوں کی شادی کے سلسلے میں کھانے کا آرڈر اسے ہی دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہر ماہ یتیم خانوں کو کھانا بھجوانا اور کسی دینی تقریب میں مہمانوں کی ضیافت کی ذمے داری وہی لیا کرتے تھے۔ اللہ نے انہیں سب کچھ دیا تھا۔ لوگوں نے کبھی انہیں اللہ کی ناشکری کرتے یا کسی کمی پر افسوس کرتے نہیں دیکھا۔
جب شفیق صاحب اپنی بیٹی کی شادی کے کھانے کے سلسلے میں اخراجات معلوم کرنے کے لیے آئے تو اس نے حساب بتانے کے بعد یہ یقین کرلیا تھا کہ اب عنقریب شفیق صاحب خود یا فون پر اسے کھانے کا آرڈر دیں گے۔ یہ کھانا تقریباً چھ لاکھ روپے کا بن رہا تھا، جس میں اس کا بھی پرکشش منافع تھا۔ شفیق صاحب ایک طویل عرصے سے اس سے مختلف مواقع پر کھانا پکواتے تھے اور ادائیگی کے سلسلے میں بھی کھرے تھے۔ ہمیشہ وقت پر ادائیگی ان کا معمول تھا۔ کبھی تاخیر نہیں ہوئی تھی۔
مگر پھر عظیم کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔
شفیق صاحب کی بیٹی کی شادی میں شرکت کا اسے دعوت نامہ تو ملا مگر کھانے کا آرڈر نہیں ملا۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا میں صرف غریبوں کے لیے ہی کھانا تیار کر سکتا ہوں۔ شفیق صاحب نے اپنی ذاتی دعوت کے لیے کھانا مجھ سے اس لیے نہیں پکوایا کہ میں ان کے معیار پر کھرا نہیں اترتا تھا۔ اس سوچ میں وہ مقررہ دن دعوت میں پہنچا۔ شفیق صاحب نے اس سے اس دعوت کے لیے بارہ مختلف قسم کے ذائقوں والے کھانوں کا حساب کتاب معلوم کیا تھا اور یقینا انہوں نے ایسے ہی مزے مزے کے کھانے پکوائے ہوں گے۔ اسے اس بات کا یقین تھا۔
مگر یہ کیا۔ اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔
شہر کے معروف صنعت کار ور مخیر شخص کی بیٹی کی شادی میں صرف بریانی؟ کیا شفیق صاحب غریب ہوگئے ہیں یا انہیں کاروبار میں زبردست نقصان ہوگیا ہے۔ وہ یہ سوچتا ہوا گھر آگیا۔
٭
دو دن بعد شفیق صاحب پھر اسے دو غریب بچیوں کی شادی کے سلسلے میں کھانے کا آرڈر، رقم اور وہ پتے دیے گئے جہاں قت مقررہ وقت پر کھانے کی دیگیں پہنچانی تھیں۔
’’تم ناراض تو نہیں ہوئے کہ میں نے اپنی بیٹی کی شادی کے کھانے کا آرڈر تمہیں نہیں دیا۔‘‘ شفیق صاحب نے اچانک سوال کیا۔
’’نہیں حاجی صاحب! ایسی تو کوئی بات نہیں۔‘‘ وہ شفیق صاحب کو حاجی صاحب کہہ کر پکارتا تھا، حالاں کہ وہ اسے حاجی صاحب کے بجائے نام سے پکارنے کا کہتے رہتے تھے۔
’’لیکن ایک سوال ذہن میں آرہا ہے۔‘‘ عظیم نے آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔
’’مجھے پتا ہے، کیا سوال ہے۔‘‘ شفیق صاحب بولے، مگر اس کا جواب میں تمہیں کل تفصیل سے دوں گا، اس وقت جلدی ہے۔‘‘
دوسرے دن ظہر کی نماز کے بعد شفیق صاحب عظیم کے پاس موجود تھے۔
’’تم یہی پوچھنا چاہتے تھے کہ میں نے اتنی ساری ڈشوں کا معلوم کیا تم سے اور کھانے میں صرف بریانی … جب کہ میں تو سارے کھانے مہمانوں کو کھلانے کی مالی حیثیت بھی رکھتا تھا۔ تو سنو عظیم بھائی، میں ہر ماہ ایک مخصوص رقم اس کام کے لیے علیحدہ رکھتا ہوں، جس سے میں ان لوگوں کی مدد کرتا ہوں جو بچیوں کی شادی کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ شادی وہ عظیم کام ہے جس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے پسند فرمایا ہے۔ اگر آج ہمارے معاشرے میں وقت پر لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں ہونے لگیں اور یہ سادگی سے سر انجام پائیں تو میرا یقین ہے کہ ہمارے معاشرے میں موجود بے راہ روی اور ناپسندیدہ حرکات آہستہ آہستہ ختم ہوجائیں، مگر ہم نے شادی جیسے اہم فریضے کو غیر مسلموں کی تقلید میں مشکل اور مہنگا ترین بنا دیا ہے۔ اس بات میں پھر تمہارا سوال رہ گیا کہ کھانے میں صرف ایک ڈش ہی کیوں؟ تو سنو جب میں نے اپنے گھر والوں اور قریبی رشتہ داروں کی فرمائش پر کھانے کی فہرست تیار کی تو اس کا تخمینہ چھ لاکھ روپے بنا مگر یہ دعوت تو ایک کھانے کے ساتھ بہت کم خرچ میں بھی ہوسکتی تھی اور انتہائی سادگی کے ساتھ جو میرے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو بے حد پسند ہے۔ میں نے وہی کیا اور سادہ کھانا بنوا کر چھ لاکھ میں سے بچ جانے والی رقم کو اس فنڈ میں ملا دیا جس پر غریب اور ایسے لوگوں کا حق ہے، جو اس خرچ کی طاقت نہیں رکھتے۔اب میں آئندہ ایک سال تک مہینے میں چار بچیوں کی جگہ چھ بچیوں کی شادی کے اخراجات اٹھانے کی سکت رکھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اس خدمت کو قبول فرمائیں گے۔‘‘
عظیم حیرت سے شفیق صاحب کو دیکھ رہا تھا۔ ان کا جواب اور عمل اس کی سوچ سے بالکل مختلف تھا۔lll