ساس … و …ماں

حمیرا خالد

اللہ نصیب اچھے کرے…وہ سوچتی کہ کتنی فکر مندی ہے اس دعا میں … جہاں کسی لڑکی کی دنیا میں آمد کی خبر ملی اور ماتھے پر سوچ کے شکنیں ابھریں۔ عورت کا نصیب شوہر ہی تو ہوتا ہے اور مرد کا نصیب بیوی۔ اس کا نام مقدر ہے۔ خوش نصیب تو وہ ہے جس کو قدر دان خاندان مل گیا ورنہ …
یہ جملے نادرہ کم عمری سے ہی سن رہی تھی۔ وہ بے حد کم گو اور حساس طبیعت تھی۔ اپنے بارے میں گھر والوں کی فکر مندی اسے ذرا بھی اچھی نہ لگتی۔ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہونے کی وجہ سے والدین شاید زیادہ ہی فکر مند تھے۔ جب سے نادرہ کا رشتہ طے ہوا تھا، وہ دیکھ رہی تھی کہ گھر والے خوش تو کم اور پریشان حال زیادہ ہیں۔ جس کو دیکھو آہیں بھر بھر کر دعائیں دے رہا ہے۔ بظاہر رشتے میں کوئی خرابی بھی نہ تھی۔ پڑھا لکھا خوش شکل لڑکا، ماں باپ کا اکلوتا اور برسرِ روزگار… شریف گھرانہ تھا، لیکن اندیشے تھے کہ سب کو ڈسے جاتے تھے۔
آخر گاہے بگاہے گھر کے بزرگوں نے اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں نادرہ کو گھر بسانے کے گُر سکھانے شروع کیے۔ پھپھونے تو آنے والے خطرات سے پہلے ہی ذہنی طور پر تیار کرنا ضروری سمجھا۔ ایسا نہ ہو کہ بچی کے خواب چکنا چور ہوں تو دل برداشتہ ہوکر وہ کوئی غلط قدم اٹھالے۔ انھوں نے سسرالی رشتوں کی اونچ نیچ سے آگاہ کرنا فرض جانا۔ جب بھی موقع ملتا وہ نادرہ کا سر اپنی گود میں رکھ کر پیارسے سہلاتی جاتیں اور رشتوں کی حقیقت سمجھاتی رہتیں: دیکھو بیٹا تم اپنے نئے گھر میں جانے والی ہو، جہاں ماں کے روپ میں ساس ملے گی، اللہ کرے وہ ماں ہی ثابت ہو، لیکن پھر بھی بیٹا یہ توقع نہ رکھنا… ساس کو ساس ہی سمجھنا۔ مطلب یہ ہے کہ بہت نازک رشتہ ہوتا ہے۔ بہت خیال رکھنا ہوگا۔ ماں کے ساتھ والا بے ڈھنگا پن نہیں چلے گا۔ وہاں تو پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہوں گے۔
کبھی بڑی آپا سانس بھرتیں: اکلوتی بہو ہوگی گھر میں… کوئی ہاتھ بٹانے والا بھی تو نہیں۔ سارے گھر کی ذمہ داری نبھانا کوئی آسان کام ہے!
خالہ امی کا کہنا تھا کہ سنا ہے ساس اماں شروع سے ہی بہت رکھ رکھاؤ والی ہیں۔ اولاد تو کوئی اور ہوئی نہیں… بھائی پہ بڑا مان تھا۔ بھائی کی شادی اسی لیے نہ چل سکی۔ بہنوں کی دخل اندازی بھاوج کہاں تک برداشت کرتی۔ چار دن میں تیاپانچہ ہوگیا۔ اللہ آگے کی خیر کرے۔ گھر میں لانے والی کا گھر بسانے کے لیے بہت کچھ حوالے کرنا ہوتا ہے۔
شادی کے دن قریب آرہے تھے۔ نادرہ کے ذہن میں آنے والے دنوں کے بارے میں کوئی خوش گوار تصور نہ تھا۔ اسے تو تمام نصیحتیں یادد لاتی رہتیں کہ ایک محاذ ہے جہاں وہ تعینات کی جارہی ہے، یا کوئی دشوار گزار گھاٹی ہے جہاں سے اسے گزرنا ہے۔ اس نے جان لیا تھا کہ زندگی بھر کی مشقت ہے جو وہ مول لینے جارہی ہے۔ لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں کہ لڑکیاں اپنے گھر ہی اچھی … مستقبل سے کسی خیر کی توقع کیا رکھتی، بس اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ اکلوتی بہو بن کر جانے والی آگے اور پیچھے سب کی توقعات پر کیسے پوری اترے گی۔
سسرال سے ہر دن کوئی نہ کوئی رشتہ دار ملنے کے بہانے چلا آرہا ہوتا کہ آنے والی بہو کے دیدار ہوجائیں۔ کچھ قبل از وقت جانچ پرکھ ہوجائے کہ پوت کے پاؤں تو پالنے میں ہی دکھائی دے جاتے ہیں۔ ہر آنے والا مہمان نادرہ کو ایک کشمکش میں ڈال جاتا: بہت خیال رکھنا بچے… اس گھر کی تم ہی تو مالک ہو۔ اکلوتے بیٹے کی دلہن سے ہی تو سارے ارمان ہوتے ہیں۔ ساس اماں کی محرومیاں دور کرنا اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔
ڈھیر ساری باتیں نادرہ کے ذہن میں گھومتی رہتیں۔ان کے درمیان صرف ایک شخصیت کا خاکہ اس پرچھایاہوا تھا۔ وہ ساس اماں … جن کا تذکرہ سب سے زیادہ تھا۔ نہ جانے وہ مجھ سے کیا امیدیں لگائے ہوں گی۔ ان کی بچپن کی دوست نے بڑی حسرت سے کہا تھا: بیٹی میری دوست کو بہت خوش رکھنا، زندگی میں بڑی ناگواریاں برداشت کی ہیں، اس نے … یوں سمجھو اپنی پسند اور مزاج کے خلاف سمجھوتے ہی سمجھوتے کیے ہیں۔ اب آخر عمر کی خوشیاں تم سے وابستہ ہیں۔
نادرہ ایک فرماں بردار بیٹی کی طرح سارے تبصرے اپنی گرہ میں باندھ لیتی اور آنے والے کٹھن وقت سے نمٹنے کے لیے رب کے حضور سجدہ ریز ہوجاتی۔
یوں دیکھتے ہی دیکھتے فاصلے سمٹتے گئے۔ تقریبِ ولیمہ اپنے عروج پر تھی۔ سسرالی عزیزوں اور احباب کے درمیان اس کا پہلا دن تھا، جہاں خاموشی خوب صورت مورتی کی طرف اپنے بارے میں صرف قسم قسم کے تبصرے اور تجزیے سن سکتی تھی۔
تحسین بھی اور پیشین گوئیاں بھی اس کے بارے میں بڑے ماہرانہ انداز سے پیش کی جارہی تھیں۔ البتہ ساس اماں بڑے فخریہ انداز میں سب پر واضح کررہی تھیں کہ دیکھا میرا انتخاب … اس لمحے انہیں بہو کی صرف صورت کی نمائش سے دلچسپی تھی۔ ان کی اس کامیابی پر کچھ لوگ حقیقتاً رشک کررہے تھے تو کئی حاسدانہ نگاہیں کسی حادثے کی منتظر تھیں۔
ابتدا میں ہی نادرہ کو اپنی ساس اماں کی حسن پرست شخصیت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ہر دن ان کی نگاہیں اس کے چہرے کے میک اپ، لباس اور ہیئر اسٹائل کا ناقدانہ جائزہ لیتیں اور پھر بلا تکلف اپنے زاویے سے کسی کمی کا برملا اعلان بھی کردیا کرتیں یہ سوچے بغیر کہ وہ کیا سبکی محسوس کرتی ہوگی۔
نادرہ اب ان بے باک تبصروں سے بچنے کے لے کچھ پرے پرے رہنے لگی۔ یوں ان کے درمیان ایک جھجک آگئی جس سے اجنبیت دور ہونے کے بجائے بڑھتی گئی۔
میکہ اور سسرال ایسے عنوان ہیں جو ہر بیاہی عورت کے ساتھ آخر دم تک رہتے ہیں۔ نادرہ نے مختصر سے وقت میں خوب سمجھ لیا کہ ساس اماں ان کشتیوں میں سوار ہیں، لیکن ایک مشاق کشتی بان ہونے کے باوجود زخم کھا ہی جاتی ہیں۔ سسرالی رشتوں میں اگرچہ وہ اتنی پسندیدہ تو نہیں تھیں لیکن میکہ کے احسانات کی وجہ سے شوہر اور نندوں پر رعب ان کا ہی تھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کی رائے اور فیصلے کو رد کرسکے۔ لیکن اندر سے اسی ٹوہ میں رہتے کہ کب کچھ غلط ہو تو شکست خوردہ جذبوں کو تسکین ملے۔
ایسے میں نادرہ کو اپنی ساس اماں سے بے حد ہمدردی ہوتی۔ وہ انہیں کسی طور بھی ناکام نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ ان کی عزت سے اسے اپنی چھاؤں نظر آتی۔ اسی لیے وہ ان کے ہرکام اور حکم کی بجا آوری پوری احتیاط اور محنت سے کرتی چاہے اس میںاسے خود کتنی ہی دشواری کیوں نہ ہو، لیکن ساس اماں کا مان رہ جائے۔ کتنی ہلکان ہوگئی تھی جب ساس اماں نے ایک موقع پر تنہا اس پر کتنا کام ڈال دیا تھا۔ مہمانوں کی تواضع کے لیے ساس اماں کی فرمائش پر کوفتے، پلاؤ اور میٹھا دستر خوان پر سجا کر اب نڈھال ہوچکی تھی۔ کھانے والے مزے لے لے کر تعریفی جملوں سے ساس اماں کو عزت بخش رہے تھے۔ اسے اپنی تھکاوٹ کی یہ قیمت ذرا اچھی نہیں لگ رہی تھی کہ ساس اماں اس کی کیفیت کو بھانپ گئیں۔ فوراً احساس دلایا کہ کسی کو محنت کے بعد تحسین مل جائے تو تھکن اتارنے کے لیے کافی ہے، ورنہ کتنوں کے نصیب میں تو یہ بھی نہیں۔ دل نے اس منطق کو ذرا بھی قبول نہ کیا۔ وہ خاموش ہی رہی۔
ساس امی ایک ممتحن کی طرح اس کے شب و روز کی چلت پھرت کو نظروں میں رکھتیں۔ اگرچہ مداخلت بالکل نہ کرتیں لیکن جہاں اونچ نیچ دکھائی دیتی جو ان کے خاکے سے باہر ہوتی تو صاف گوئی سے کام لینے سے بھی نہ چوکتیں۔
اس گھٹے گھٹے ماحول میں آخر نادرہ نے اپنے لیے راہ نکالنے کی نت نئی تدبیریں نکالنا شروع کیں جس سے ساس اماں کے معاملات بھی متاثر نہ ہوں اور وہ بھی اپنی مرضی جی سکے۔
زندگی کچھ اس ڈھب پر چل نکلی تھی کہ ساس بہو میں نہ کبھی کوئی ٹکراؤ ہو، نہ رنجش، نہ تلخ کلامی… رواں پانی کی طرح جو رکاوٹوں میں بھی اپنا راستہ نکال ہی لیا کرتا ہے، رکاوٹوں کو ہٹائے بغیر۔
وقت کے اوراق الٹتے گئے۔ کل جو جوان تھے اب بڑھاپے کی سرحدیں پار کررہے تھے، جبکہ بچے اپنے والدین کے رنگ روپ میں ان کی گدی سنبھالے ہوئے تھے۔ نادرہ کو اپنی بہو رخشی کی صورت میں اپنی جوانی یاد آرہی تھی۔ یوں ہر دم جواں رہنے کا قدرت کا یہ انداز بھی کتنا بھلا تھا۔ سبز رنگ اس پر کتنا جچتا تھا۔ بہو کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کا جی چاہا کہ وہی تصویر دل میں اتر آئے… وہی سجاوٹ تازگی کا احساس پانے کے لیے … فرمائش لبوں پہ آیا ہی چاہتی تھی کہ جیسے اندر سے کسی نے یاد دلایا: خبر دار ایسا نہ ہو کہ بہو اپنی مرضی سے کچھ زیب تن کرنا چاہے اور تیری اتنی سی بات سے پرے پرے ہوگئی تو کیا ہوگا۔ نہیں مجھے اپنی پسند کا اظہار نہیںکرنا چاہیے۔ اس نے اپنے آپ کو روک لیا۔ وہ اسی سوچ میں تھی کہ رخشی سبز اور فیروزی کپڑے ہاتھ میں لیے پوچھ رہی تھی کہ مما بتائیں ناں آج کون سے کلر کے کپڑے پہنوں، میری تو سمجھ میں نہیں آرہا۔ پہلے بھی امی ہی فیصلہ کرتیں اور مشکل آسان ہوجاتی۔
اس کا دل باغ باغ ہوگیا۔ نادرہ نے کبھی بھی نہ چاہا کہ بہو کی آزادی اور پسند میں دخل اندازی کرے۔ عمر کے یہی تو چند سال ہوتے ہیں، جب بچیاں نہ جانے کون کون سے خواب بن رہی ہوتی ہیں۔ ان کی زندگی کا مزا کیوں چھینا جائے،بیٹے بہو اپنے گھر میں سکھی رہیں۔ آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے۔ مگر اس دفعہ تو رخشی اپنے ساتھ لے جانے پر ایسی بضد ہوئی کہ کوئی بہانہ کام نہ آیا۔ کتنے شوق سے وہ کہتی: مما ! آپ ساتھ ہوں گی تو مجھے کتنا اچھے لگے گا۔ گھر بھی اکیلا نہ لگے گا اور گھومنے کا بھی مزا آئے گا۔
اور پھر واقعی کتنے خوب صورت دن تھے، جیسے گزرا وقت پھر لوٹ آیا ہو۔ کبھی گھر کی سجاوٹ کی چیزیں آرہی ہیں تو کبھی بچوں کی فرمائشیں۔ فرحان تو خود بچہ بنا ہوا تھا۔ ہر کام مما کریں… آلو پراٹھے تو سوجی کا حلوہ… مما رخشی کو بھی سکھا دیں۔ فرحان چٹخارے لیتے ہوئے مما سے لپٹ جاتا۔ نادرہ انجانے خوف سے چونک اٹھتی: کہیں بہو نے تو نہیں سن لیا۔ کبھی سبکی نہ محسوس کرلے۔
ٹیلی فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ بادلِ نخواستہ نادرہ نے اٹھایا۔ دوسری جانب رخشی کی دوست تھی جو یہ جانے بغیر کہ وہ رخشی نہیں ہے پُر جوش انداز میں بول رہی تھی: رخشی ڈیئر یہ تمہاری ساس اماں کب رخصت ہوں گی؟ یار انھوں نے تو ڈیرے ہی ڈال لیے۔ کب تک خاطر مدارت میں لگی رہوگی۔
نادرہ نے گھبرا کر ریسیور رکھتے ہوئے رخشی کو بلانا چاہا لیکن آواز حلق میں ہی رہ گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے۔ وہ ساس ہے… زمانے کی نگاہوں میں ایک ناپسندیدہ رشتہ- قدرت نے تو اسے ماں بنایا تھا۔ اس کو عظمت دی تھی۔ اللہ نے ماں کے ساتھ جنت اتاری… یہ ماں کی ممتا کو زہر میں بدل کر آپ اپنا گھر جہنم بنالیتے ہیں۔ قصور وار کون …؟
زیرِ لب بڑبڑاتے ہوئے اس کی سانسیں بے قابو ہوگئیں۔ کیا میںماں نہیں…ماں نہیں… فیصلہ کون کرے گا…؟ وہ رب کی عدالت میں جاپہنچی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں