ساس کی یاد میں

زریں فاروق

آج سے چالیس سال پہلے میں نے بحیثیت بہو سرال میں قدم رکھا تو میں اپنی ساس کی بارعب شخصیت کے سامنے کچھ دب سی گئی۔ پھر آہستہ آہستہ نئے ماحول کی عادی ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ وہ دیکھنے میں سخت لیکن دل کی بہت نرم ہیں۔
ہم دونوں کا پندرہ سال ساتھ رہا۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ ایک دن بھی انہوں نے مجھے سے تلخ لہجے میں بات نہیں کی ۔ وہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ محبت کرتی تھیں اور بچے بھی ان سے بہت مانوس تھے ۔ ایک بار انہیں محسوس ہوا کہ میرے بچوں کو گرم کپڑوں کی ضرورت ہے ۔ وہ اسی وقت انہیں لے کر بازار گئیں اور خوبصورت گرم کوٹ خرید کر دیئے۔ اماں جان ایک عظیم خاتون تھیں اور پاکیزگی اور حیا کی ایسی مثال کہ انہوں نے ہمیشہ اپنا دامن دنیاوی آلائشوں سے بچائے رکھا۔
جب وہ عین عالم شباب میں بیوہ ہوئیں، تو ان پر تین کمسن بیٹوں کی ذمے داری آپڑی۔ انہوں نے حوصلہ نہ ہارا اور اپنی جوانی بچوں کی پرورش کے علاوہ اللہ اور رسول کے لیے وقف کر دی۔ پہلے وہ بچوں کو قرآن شریف پڑھا کر گھر یلو اخراجات پورے کرتی رہیں۔ پھر ایک اسکول میں اسلامیات کی استانی بن گئیں۔ انہوں نے خود داری کا ثبوت دیتے ہوئے کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔
سخت حالات نے انہیں تھوڑا سا تلخ مزاج ضرور کردیا لیکن میرے خیال میں تنہا عورت کے لیے ایسا رویہ اختیار کرنا ضروری ہے ۔ مگر ان کے اندر مامتا کا ایسا انمول روپ تھا جس نے انہیں قربانی دینے کے لازوال جذبے سے سرشار کیے رکھا۔ وہ ایک بے مثال ماں تھیں جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔
انہیں لباس پہننے کا خوب سلیقہ تھا، ہمیشہ استری شدہ کپڑے پہنتیں اور اپنے لباس پر ایک شکن بھی برداشت نہ کرتیں۔ کڑھائی والے کپڑوں کی شوقین تھیں، سر اکثر کڑھے دوپٹے سے ڈھکا ہوتا۔
ان کا معمول تھا کہ آدھی رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتیں اور فجر کی اذان تک تسبیح کرتی رہتیں۔ پھر نماز فجر پڑھ کر دن دس بجے تک تلاوت قرآن پاک کرتیں۔
اماں جان نے میرے بچوں کو دین کی تعلیم دی، انہیں نماز سکھائی اور قرآن پاک باقاعدہ ترجمے کے ساتھ ختم کروایا۔ مجھ پر یہ ان کا بہت بڑا احسان ہے ۔ ان کی محبت نے میرے بچوں کو بھی نماز روزے کا پابند بنا دیا، الحمد للہ۔
میرا معمول تھا کہ جب میرے شوہر دفتر اور بچے اسکول چلے جاتے تو روز مرہ کے کاموں سے فارغ ہو کر گیارہ بجے چائے بناتی اور پیالیاں لیے اماں جان کے پاس پہنچ جاتی۔ ہم چائے پیتے ہوئے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے۔
اس روز بھی جب سب چلے گئے اور اماں جان تلاوت سے فارغ ہو گئیں، تو میں حسبِ معمول گیارہ بجے چائے لے کر ان کے کمرے میں پہنچ گئی۔ چائے پیتے ہوئے اماں جان کہنے لیں:’’آج میرے سر میں خاصا درد ہے۔‘‘
میں نے کہا کہ کل صبح آپ میرے ساتھ ہسپتال چلیے گا آپ کا معائینہ ہونا چاہیے۔ افسوس اس کی نوبت نہ آسکی ۔ وہ سہ پہر کو نماز عصر کے لیے وضو کر نے اٹھیں تو اچانک ان پر فالج کا زبردست حملہ ہوا۔ ہم فوراً انہیں ہسپتال لے گئے مگر حالت نہ سنبھل سکی ۔ تیسرے دن جب فجر کی اذان ہو رہی تھی، وہ خالق حقیقی سے جاملیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔
اماں جان سے وابستہ دو واقعات مجھے آج بھی نہیں بھولے۔ ان کے ایک بیٹے کراچی میں مقیم تھے ان کی طبیعت بھی خراب تھی اسی لیے انہیں اماں جان کی بیماری کی اطلاع نہیں دی گئی۔ لیکن جب جنازہ تیار تھا، حیرت انگیز طور پر عین اس وقت وہ پہنچ گئے ۔ دراصل انہیں ماں کی یاد نے اتنا بے چین کر دیا تھا کہ اطلاع دیئے بغیر آپہنچے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ… بہر حال یہ کرشمہ آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ اماں جان بھی ان کی طرف سے فکر مند رہتی تھیں، شاید یہ دلوںکے معاملے ہیں۔
دوسرا واقعہ یا اتفاق یہ ہے کہ جب اماں جان بیمار ہوئیں تو عصر کا وقت تھا اور جب انہیں لحد میں اتارا جارہا تھاتب بھی عصر کی اذان ہو رہی تھی۔
مجھے افسوس ہے کہ میں اپنی ساس کی وہ خدمت نہ کر سکی جس کی وہ حقدار تھیں۔ دراصل مجھے گھر کے علاوہ باہر کی ذمے داریاں بھی سنبھالنا پڑتی تھیں ۔ شوہر ملازمت کے سلسلے میں مصروف رہتے، کبھی انہیں شہر سے باہر بھی جانا پڑتا۔ تب بچوں کو اسکول چھوڑ نے اور واپس لانے کی ذمے داری میرے کاندھوں پر آپڑتی۔
آج میں اسی مقام پر کھڑی ہوں جہاں کبھی اماں جان تھیں۔ لیکن میں تقویٰ اور پختگی ایمان میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وہ ہر وقت اللہ پر توکل کیے رہتی تھیں، شاید اسی لیے ان میں ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت تھی۔ اماں صحت کے کئی مسائل کا شکار تھیں خصوصاً انہیں جوڑوں کے درد کی سخت تکلیف تھی، تاہم ان کی ایک نماز بھی قضا نہیں ہوئی، یہاں تک کہ تہجد بھی باقاعدگی سے پڑھتی تھیں۔
رمضان کے پورے روزے رکھتیں، ایک دفعہ طبیعت زیادہ خراب تھی تو ایک روزہ چھوٹ گیا۔ بعد ازاں وہ دن بھر روتی رہیں کہ ان کا روزہ چھوٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ سب کو ان جیسا تو کل اور ایمان عطا کرے۔
اب انہی کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے میرا وقت بھی اپنے نواسے نواسیوں پوتے پوتیوں کے ساتھ مزے سے گزرتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی میری سوچ اس وقت تلخ ہونے لگتی ہے ،جب مجھے تنہائی کا احساس کچھ زیادہ ہی ستانے لگے۔ شاید اس عمر میں پہنچ کر انسان زیادہ حساس ہو جاتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146