پہلی شہادت
حضرت عمارؓ کی والدہ حضرت سمیہؓ بڑی صاحب عزم و استقامت خاتون تھیں۔ اسلام سے ان کو والہانہ محبت تھی۔ عورت ذات ہونے کے باوجود ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ انھیں اذیتیں دے دے کر اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی جاتی، لیکن وہ اسلام اسلام پکارتی رہتیں۔ ایک بار سردار مخزوم ابوجہل نے ان سے مخاطب ہوکر کہا: یا تو اسلام ترک کردو، ورنہ تمھیں مارڈالوں گا۔ حضرت سمیہؓ نے کہا: موت و حیات کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ موت کا ایک وقت متعین ہے اور اس وقت کو کوئی آگے پیچھے نہیں کرسکتا۔ یہ جرأت مندانہ گفتگو اور وہ بھی ایک بے بس کنیزکی زبان سے، ابوجہل غصے کی آگ میں بھن گیا۔ اس نے اپنے لمبے خونخوار نیزے کا وار کیا اور حضرت سمیہؓنے اپنے نصب العین کی خاطر جامِ شہادت نوش کرلیا۔ سمیہؓ کا مقام کتنا بلند اور ان کی شان کتنی ارفع ہے، اسلام کی تاریخ میں شہادت کا مرتبہ سب سے پہلے انہی کو نصیب ہوا۔ یہی وہ باسعادت خاتون ہیں جنھوں نے دھرتی کے سینے پر اپنے مقدس لہو سے اسلام کی صداقت اور توحید کی حقانیت رقم کی۔
ایمان پر ثابت قدمی
فرشتے کے بتانے پر رسول اکرم ﷺ نے سورئہ العلق کی آیتیں پڑھیں، اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے تو خوف سے دل بیٹھا جاتاتھا۔ گھبراہٹ سے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ آپؐ سہمی سہمی نگاہوں سے غار میں ادھر ادھر دیکھتے۔ پھر تیزی سے غار سے باہر نکلے اور پہاڑ کی چوٹیوں سے اترنے لگے۔ پورا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اچانک ایک آواز آئی: محمد! آپؐ دھک سے رہ گئے۔ گھبرا کر سر اوپر اٹھایا۔ دیکھا تو وہی فرشتہ آدمی کی صورت میں کھڑا تھا اور پکار کر کہہ رہا تھا: ’’محمد! تم اللہ کے رسول ہو، میں جبریل ہوں۔‘‘ آپؐ کی گھبراہٹ اور بڑھی، خوف سے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور دہشت سے قدم رک گئے۔ بہت دیر ہوگئی۔ آپؐ یونہی تھر تھر کانپتے رہے، اور پھر فرشتہ چلا گیا۔ آپ گھبرا ئے ہوئے گھر خدیجہؓ کے پاس آگئے پسینے میں نہائے ہوئے۔آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے کچھ اڑھا دو، مجھے اڑھا دو۔‘‘ فوراً بی بی خدیجہؓ نے چادر اوڑھا دی۔ جب آپؐ کو سکون ہوا اور خوف کچھ دور ہوا تو پوچھا: آپؐ کہاں تھے اور آپ کو کیا ہوا؟ آپؐ نے ان کی طرف دیکھا، اور جو کچھ دیکھا تھا وہ بیان کیا۔ ادھر بی بی خدیجہؓ نے آپ کی باتوں پر غور کیا اور پھر سوچا۔ چلیں چچیرے بھائی ورقہ کے پاس۔ کچھ ان سے دریافت کریں۔ انھوں نے تو سارے مذاہب کو کھنگالا ہے۔ پہنچ کر سارا ماجرا سنایا۔ وہ سب کچھ سن کر بولے: قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں ورقہ کی جان ہے، یہ وہی ناموس (جبریل) ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔ بخدا یہ امت کا نبی ہوگا۔ اس سے ڈریے نہیں، جو کچھ کررہا ہے کرتا رہے۔ یہ سن کر بی بی خدیجہؓ خوشی سے بیتاب ہوگئیں اور حضوراکرمﷺ کے پاس آتے ہی بولیں: مبارک مبارک ہو، میں آپ کی نبوت پر ایمان لائی۔
سختیوں پر ایمان غالب آگیا
حضرت آسیہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی مومنہ تھیں۔ ایوب علیہ السلام کی بیوی ان کی بہن تھیں اور موسیٰ علیہ السلام ان کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ بادشاہِ مصر فرعون کی بیوی تھیں۔ خدا کی شان، خاوند شیطان اور بیوی ایسی ولی کامل جن کی تعریف قرآن میں آئی ، اور جن کی بزرگی ہمارے پیغمبرؐ نے اس طرح بیان فرمائی کہ مردوں میں تو بہت کامل ہوئے ہیں، مگر عورتوں میں کوئی کامل کے رتبے کو نہیں پہنچی، سوائے حضرت مریم اور آسیہ کے۔ انھوں نے ہی موسیٰ علیہ السلام کی جان ظالم سے بچائی تھی۔ ان کی قسمت میں موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا تھا۔ شروع بچپن سے ہی ان کے دل میں موسیٰ علیہ السلام کی محبت پیدا ہوگئی تھی۔ جب موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبری ملی، فرعون ایمان نہیں لایا، مگر یہ خاتون ایمان لے آئیں، فرعون کو معلوم ہوا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی ہیں تو بڑی سختی سے انھیں شہید کردیا۔
حضرت آسیہؓ سختیوں میں یہ دعا مانگا کرتی تھیں: ’’اے میرے رب! میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالے، اور ظالم قوم سے مجھ کو نجات دے۔‘‘ (التحرم: ۱۱)
سبق
ہر شخص کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کا وہ اپنے ایمان اور اعمال کے لحاظ سے مستحق ہو۔ کسی بڑی سے بڑی ہستی کے ساتھ نسبت بھی اس کے لیے قطعاً نافع نہیں ہے، اور کسی بڑی سے بڑی ہستی کے ساتھ نسبت بھی اسے نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ ایک مثال حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کی ہے، جو ایمان نہ لائیں۔ انبیا کی بیوی ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا۔ دوسری مثال فرعون کی بیوی کی ہے۔ جو اگرچہ بدترین دشمنِ خدا کی بیوی تھیں لیکن چونکہ وہ ایمان لے آئیں اور انھوں نے قومِ فرعون کے عمل سے اپنے عمل کا راستہ الگ کرلیا، اس لیے فرعون جیسے اکفر الکافرین کی بیوی ہونا اُن کے لیے کسی نقصان کا موجب نہ ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے انھیں جنت کا مستحق بنادیا۔
——