مال ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کا ذریعہ ہے ، اس لیے مال کی خواہش فطری طور پر ہر انسان کے دل میں پائی جاتی ہے _ وہ مال کمانے کی کوشش کرتا ہے ، اسے اپنے پاس جمع رکھتا ہے اور اسے اپنے اوپر اور اپنے متعلّقین پر خرچ کرتا ہے _
مال کے بارے میں انسانوں کے رویّے مختلف ہیں _ کچھ لوگ مال کمانے میں دینی و اخلاقی حدود کی پابندی کرتے ہیں ، حلال و حرام کو پیش نظر رکھتے ہیں ، جو کچھ کماتے ہیں اسے فراخ دلی سے خرچ کرتے ہیں ، دوسروں کے حقوق پہچانتے ہیں ، نہ حریص ہوتے ہیں نہ بخل سے کام لیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہتے ہیں _ ایسے لوگ اطمینان اور چین کی زندگی گزارتے ہیں _
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں ہر وقت مال و دولت کے ڈھیر لگانے سے دل چسپی ہوتی ہے _ وہ ہر وقت صرف اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ مال کہیں سے بھی آئے ، کیسے بھی آئے _ انھیں اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی ، چاہے حلال ذریعے سے آئے یا حرام ذریعے سے _ جو مال ان کی تحویل میں آتا ہے اسے وہ سینت سینت کر رکھتے ہیں _ نہ اپنی ذات پر حسبِ ضرورت خرچ کرتے ہیں نہ اپنے رشتے داروں اور متعلّقین کو کچھ دیتے ہیں _ ہمیشہ ننّانوے کے پھیر میں لگے رہتے ہیں _ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بینک بیلنس میں جتنا زیادہ روپیہ ہوگا اتنی ہی سماج میں ان کی عزّت ہوگی اور اتنا ہی نام ہوگا _
ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ سب سے بڑا مال دار کون ہے؟ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھ سے چند باتیں ارشاد فرمائیں ، ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی :
” اللہ نے تمھاری قسمت میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر راضی ہوجاؤ ، تم سب سے زیادہ مال دار ہوجاؤ گے _”
جس شخص کے پاس آسائشِ زندگی کی بہتات اور مال و دولت کے ڈھیر ہوں اس کی زندگی قابلِ رشک نہیں ہوتی ، بلکہ وہ تو بڑی اذیّت میں جیتا اور ہر وقت پریشان رہتا ہے _ اسے ہر وقت اندیشہ لگا رہتا ہے کہ کوئی اس کا مال چوری نہ کر لے ، ڈکیتی نہ ڈال دے ، حکومت کے کارندے اس کا حساب لینے نہ آدھمکیں ، انکم ٹیکس محکمے کے لوگ چھاپہ نہ ماردیں _ اس بنا پر اسے نہ ٹھیک سے نیند آتی ہے اور نہ وہ چین کی سانس لے سکتا ہے _
لیکن اگر کسی شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ تعالی کا عطیہ ہے _ اللہ نے جو کچھ اس کی قسمت میں لکھ دیا ہے وہ ہر حال میں اسے مل کر رہے گا ، جو کچھ اس کی قسمت میں نہیں لکھا ہے وہ اسے نہیں مل سکتا ، چاہے وہ اسے حاصل کرنے کے لیے جتنے بھی جتن کرلے _ قسمت کے لکھے کو نہ کوئی شخص مٹا سکتا ہے نہ اس سے کسی کو محروم کر سکتا ہے _
یہ عقیدہ انسان کو کتنی مضبوطی عطا کرتا ہے اور اسے کتنے اطمینان و سکون سے مالامال کرتا ہے _
حقیقت میں مال دار وہ نہیں جس کے پاس خوب روپے پیسے تو ہوں، لیکن وہ سکون سے محروم ہو _
مال دار وہ ہے جس کے پاس چاہے روپے پیسے تو کم ہوں ، لیکن اسے سکون و اطمینان کا وافر حصہ حاصل ہو _
مال دار وہ نہیں جس کے پاس کوٹھیاں، محلات، گاڑیاں، بینک بیلنس اور وافر اسبابِ زندگی ہوں _
مال دار وہ ہے جس کا دل سکینت و طمانینت سے لب ریز ہو _
اسی بات کو ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے :
” لَ??سَ ال?غِنَ? عَن? ?َث?رَۃِ ال?عَرَضِ ، وَلَ?ِنَّ ال?غِنَ? غِنَ? النَّف?سِ “. (بخاری :6446)
“مال داری اسبابِ زندگی کی کثرت کا نام نہیں ہے ، مال داری دل کی مال داری کو کہتے ہیں _”
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ننّانوے کے پھیر میں نہیں رہتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہتے ہیں _