سب ٹھیک ہے!!

سلیم خان

’’بیگم تم کچھ اداس لگ رہی ہو، کیا بات ہے!؟‘‘

’’نہیں نہیں، سب ٹھیک ہے۔‘‘ بیوی نے چہرے پر نقلی مسکراہٹ بکھیر کر جواب دیا۔ دراصل وہ اپنے شوہر کو پریشان دیکھ کر فکر مند تھی۔ اسے تو ہر حال میں جینا گوارا تھا مگر وہ اپنے شوہر کو رنجیدہ اور مایوس نہیں دیکھ سکتی تھی۔ دو ماہ سے بیٹے نے گھر خرچ کے لیے پیسے نہیں بھجوائے تھے۔ تنگ دستی اور لاچاری بڑھتی جا رہی تھی اور آس کے بجھتے چراغ بے کسی کا احساس جگا رہے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا شوہر بوڑھا ضرور ہوچکا ہے لیکن خود داری جو اس کی ذات کا خاصہ ہے، آج بھی قائم ہے اور شاید تادم آخر رہے گا۔ وہ فاقہ کرے گا، مگر کسی بندے کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گا۔ مانگے کا تو صرف اپنے مالک حقیقی سے۔ ’’کیا کیا جائے۔‘‘ اس نے سوچا، اور سوچتی رہی … اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کسی بہانے بیٹے سے رابطہ کیا جائے تاکہ اسے اپنے بوڑھے ماں باپ کی ذمہ داری کا خیال آجائے۔

صبح چائے کے دوران اس نے شوہر سے کہا: ’’اپنے اکلوتے بیٹے کی کچھ خبر تو لیجئے، وہ کسی پریشانی یا مصیبت میں تو مبتلا نہیں۔ میں نے کئی بار رابطہ کیا، بیل بجتی رہی مگر بات نہ ہوسکی۔ اس کے بال بچے کیسے ہیں خدا جانے۔! ’’بیگم تم ٹھیک کہہ رہی ہو، میں بچوں سے ملنے ضرور چلا جاتا مگر تمہارا صاحب زادہ دوسری منزل پر رہتا ہے، اور تم تو جانتی ہو، سیڑھیاں چڑھنا اترنا میرے لیے کتنا محال ہے۔‘‘ تو مکان کے بجائے اس کے دفتر ہی چلے جائیے۔ خیریت معلوم ہوجائے گی۔ میں نے آج رات بہت برا خواب دیکھا ہے۔‘‘ بیوی کی رندھی آواز اور بھیگی آنکھیں دیکھ کر شوہر کا دل پگھل گیا۔

اور پھر وہ اسی سالہ بوڑھا کسی طرح بیٹے کے دفتر پہنچا۔ چپراسی نے جب بیٹے کو باپ کے آنے کی خبر دی تو اس نے سپاٹ لہجہ میں کہا، انہیں برآمدے میں بٹھاؤ، آتا ہوں۔

بیٹے نے چند روز قبل اپنی شادی کی سالگرہ کے موقع پر بیوی کو سونے کا ہار پیش کیا تھا اور آرام و آسائش کی کئی چیزیں خریدی تھیں لیکن اسے نہ اپنے بوڑھے ماں باپ کی ضرورتوں کا خیال آیا نہ ہی اپنی کوتاہی کا احساس ہوا۔ اپنا کام ختم کرنے کے بعد وہ دفتر سے باہر آیا اور بڑی ناگواری سے بولا، ’’ابو آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا، میں فی الحال بہت تنگ دست اور پریشان ہوں۔‘‘

’’نہیں بیٹے میں تو …‘‘

’’اب آپ کوئی بہانا مت کیجئے۔‘‘ اس نے باپ کا جواب کاٹتے ہوئے کہا۔ باپ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا اور سماعت ماؤف ہوگئی۔ بوڑھا کب اور کیسے دفتر سے سڑک پر پہنچا اسے خیال نہیں۔ بیٹے کی زبان سے نکلے ہوئے لفظوں کی برچھیاں اس کا دل لہولہان کرتی رہیں:

’’آخر بیٹے بڑے ہوکے اپنے ماں کی چاہت، محبت، ان کا ایثار ان کی قربانیاں کیوں بھول جاتے ہیں، انہیں اپنے ماں باپ کی محتاجی اور معذوری کا احساس کیوں نہیں ہوتا، اپنی اولاد میں انہیں اپنا بچپن کیوں نہیں دکھائی دیتا، یہ مہکتے پھول دہکتے انگارے کیوں بن جاتے ہیں؟‘‘ اس کا دکھی من چاہ رہا تھا کہ وہ بستی سے دور جنگل بیاں بان چلا جائے یا کسی تیز رفتار گاڑی سے ٹکرا کے خود کشی کرلے۔ مگر اسی وقت اسے اپنی وفا شعار بیوی (جس نے زندگی کے ہر موڑ پر اس کا ساتھ دیا تھا) کا خیال آیا کہ وہ گھر پر بڑی بے تابی سے اس کا انتظار کر رہی ہوگی۔ اس کے بغیر وہ ایک لقمہ نہیں کھائے گی۔ اسی احساس نے اسے سیدھا اپنے گھر پہنچا دیا۔

بیوی نے اسے ٹھنڈا پانی پلایا اور پھر اس کی بوڑھی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا: ’’ملاقات ہوئی اپنے بیٹے سے؟‘‘ بوڑھے نے اپنے چہرے پر گہری مسکراہٹ بکھیر کر جواب دیا:

’’بیگم تم خوامخواہ پریشان ہو رہی تھیں، وہ کمپنی کے کسی کام سے ودیش گیا ہوا تھا۔ مجھے اچانک دیکھ کر خوشی سے لپٹ گیا، خیریت پوچھی، پھر آفس کے لان میں بیٹھ کر خوب ساری باتیں کیں۔ اپنا ٹفن بھی جبرا مجھے کھلا دیا۔ کہہ رہا تھا فرصت ملتے ہی ماں سے ملنے آؤں گا اور ہاں، گھر خرچ کے لیے پیسے بھی دیے ہیں۔

’’اور اس کے بال بچے…؟‘‘ بیوی نے فرطِ مسرت سے پوچھا۔

’’ہاں، ہاں سب ٹھیک ہے!!‘‘lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں