ستیم کا بِگ فراڈ

ظہیرالدین

۲۰۰۴ء سے امریکی ماہرین اقتصادیات و تجارت اس بات پر بحث کررہے ہیں کہ کیا امریکیوں کو اسامہ بن لادن سے زیادہ راما لنگا راجو سے ڈرنا چاہیے؟
راما لنگا راجو جو ’ستیم‘ کمپیوٹر سافٹ ویئر کمپنی کا چیئرمین تھا، جس نے آٹھ ہزار کروڑ کا نقصان دکھا کر لاکھوں امریکیوں کے روزگار کو بھی ملیا میٹ کردیا اورہندوستان کی تجارتی شناخت اور اس کے وقار کو بھی بہت ہی بڑا نقصان پہنچایا۔ ۲۰۰۴ء میں امریکی میڈیا نے ستیم کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور کہا تھا ستیم جیسی ہندوستانی کمپنیوں کے لاکھوں روزگار آوٹ سورس کیے جارہے ہیں۔ کنسلٹنٹ کمپنی کے پی ایم جی کے چیئرمین نے اس فراڈ کو دل دہلانے والا قرار دیاہے اور راجو کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’اس سے ہندوستانی تجارت کی شبیہ خراب ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی اقتصادیات پر اس کے غلط اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔‘‘ ماہرین اقتصادیات میں سے بہت سے لوگوں نے راجو کو ایک طرف تو اپنے ملک کی شبیہ خراب کرنے والا اور ملک کی تجارتی و اقتصادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی کوشش بتایا ہے دوسری طرف اس بات سے بھی آگاہ کیا ہے کہ ستیم کی اس حرکت سے تمام ہی ہندوستانی کمپنیوں کے جی ڈی آر اور ایم ڈی آر پر غیر معمولی اثر پڑے گا۔‘‘
ستیم کے چیئرمین راجیو کے فراڈ سے شیئر بازار ایک بار پھر ڈوب گیا۔ ایسی حالت میں جبکہ پوری دنیا اقتصادی و مالی بحران کا شکار ہے اور لامحالہ ہمارے ملک پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہونے شروع ہوگئے ہیں، اس فراڈ نے جلتی پر تیل کا کام تو کیا ہی ساتھ ہی ملکی کمپنیوں پر دنیا کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی۔ اب اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آئندہ دنوں میں ہندوستانی کمپنیوں کو کام کے سلسلے میں پوری دنیا میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قابلِ غور ہے کہ ستیم کا شیئر جو گذشتہ ۸؍ستمبر کو 428.50روپئے تھا ایک ماہ قبل 236.50روپئے رہ گیا تھا۔ اور پچھلے ہفتے محض177.55روپئے رہ گیا۔ غبن کی روشنی میں آنے کے بعد جب وہ گرنا شروع ہوا تو اس کی قیمت محض 23.25روپئے باقی رہ گئی۔
فراڈ کیا ہے؟
ستیم کے چیئرمین نے ایسے کون سے کام کیے جن کے سبب عالمی تجارت کی منڈی میں اتنا زبردست بھونچال آیا یہ جاننا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ راجیو نے خود اعتراف کیا کہ :
٭ میں نے کمپنی کی آمدنی بڑھا چڑھا کر پیش کی۔
٭ میں نے کمپنی کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے جو بڑی رقم جمع کی اس کا کہیں کوئی حساب کتاب نہیں رکھا۔
٭ کمپنی پر 376کروڑ کا جو قرض تھا، اسے چھپایا اور کہیں اس کو ظاہر نہ ہونے دیا۔
٭ میٹاس کو اپنی تحویل میں لے کر خیالی اثاثوں کو حقیقی اثاثوں اور جائدادوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
ان تمام چالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ستیم کے چیئرمین پوری دنیا کی آنکھوں میں ایک مدت تک دھول جھونکتے رہے اور بالآخر وہ پکڑے گئے اور کمپنی ڈوب گئی۔ انہیں اس بات کا خوب اندازہ تھا کہ وہ اپنی ان چالوں کے ذریعہ بہت دنوں تک تجارت کی دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے اور جیل کی سلاخیں ان کا ایک نہ ایک دن ضرور استقبال کریں گی۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف خود کیا ہے کہ یہ سب ان کے لیے شیر پر سواری کرنے کے مانند تھا۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ تجارت کے اس تاریخی اورسب سے بڑے فراڈ میں وہ تنہا نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے انہیں یقینا کمپنی کے دیگر ڈائرکٹروں اور بینکوں کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کی خدمات بھی دستیاب رہی ہوں گی ، تبھی وہ جعلی دستاویزات لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے ہوں گے۔ چنانچہ اس سلسلے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس فراڈ میں دیگر لوگ بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
اس پورے فراڈ کے نتیجے میں اگرچہ ۶ کروڑ سرمایہ کاروں کے سیکڑوں نہیں ہزاروں کروڑ روپئے ڈوب گئے مگر کمپنی کے کئی وابستگان کی اس صورت میں بھی چاندی ہوتی رہی۔ چنانچہ یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ کمپنی کے سی ای او رراما مینا نپی دوسرے ڈائرکٹروں کے مقابلے زیادہ تنخواہ وصول کرتے رہے۔ مارچ ۲۰۰۸ء میں ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام پر انہیں ساڑھے تین کروڑ روپئے پیکج کی شکل میں تنخواہ دی گئی جو کہ راجیو کی تنخواہ سے بھی زیادہ تھی۔ اسی طرح ان کے بھائی راما راجو کو ۴۴ لاکھ سے کچھ زیادہ رقم کا تنخواہ پیکج دیا گیا جبکہ ایک اور ڈائرکٹر کو ایک کروڑ روپئے ملتے تھے۔ اب SEBIاس بات کی تحقیق کررہی ہے کہ مینا پنی دوسرے ڈائرکٹرس کے مقابلے میں اتنی زیادہ تنخواہ کیوں پاتے تھے۔
حکومت ہند اگرچہ ستیم کے سبب متاثرہونے والی اپنی ملکی تجارت کی شناخت کو بچانا چاہتی ہے تاہم اس پر سیاست بھی شروع ہوگئی ہے۔ چنانچہ اخبارات میں ایسی باتیں آرہی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمپنی کے مالکان نے حکومتوں اور سیاسی لیڈران پر بھی کافی مہربانیاں کیں اور انھوں نے ان کے بہت سے معاملات سے چشم پوشی کی جن کو نظر انداز کرنا ملکی معیشت اور کمپنی کے مفاد میں نہ تھا۔ اس سلسلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر مالیات کے ساتھ ساتھ اس وقت کے ریاست آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ راجندر بابو نائڈو کا نام بھی ابھر کر آرہا ہے۔
کانگریس پارٹی کے ایک بڑے سیاسی لیڈر نے کہا ہے کہ ۲۰۰۱ء میں ایک ممبر پارلیمنٹ کی شکایت پر انکم ٹیکس محکمہ نے ستیم اور اس کی معاون کمپنیوں میں چل رہے فریب کو پکڑنے کی تفتیش شروع کی تھی لیکن اسے اس وقت کے وزیر مالیات کے اشاروں پر دبا دیا گیا۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ کی موجودہ حکومت نے دنیا میں اپنی ملکی تجارت کی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے اور کمپنی اورملک کے وقار کو بحال کرنے کے لیے کئی اہم فیصلے کیے ہیں جن میں ستیم کمپنی کے نئے بورڈ کی تشکیل کے علاوہ موجودہ بحران سے کمپنی کو نکالنے کے لیے ایک بڑا مالی پیکج بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم نے کمپنی کے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے جس ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں سنجیدہ ہیں مگر اس پورے معاملے سے شاید ملکی تجارت کو ابھرنے اور اپنے وقار کو بحال کرنے میں وقت لگے گا۔ کیونکہ عالمی بازار میں اس وقت ہندوستانی کمپنیوں کو شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، چنانچہ عالمی بینک نے اس ہفتہ دنیا کی معروف کمپنی وپرو کے علاوہ کئی اور کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا ہے۔ حالانکہ وپرو کے چیئرمین عظیم پریم جی کا کہنا ہے کہ انھوں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے۔ —

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146