سوچتا ہوں!
مجھے نشۂ پندار کیوں ہے؟
کیوں سرکاری افسر بن کر میں فرعون سرشت ہوگیا ہوں؟
میں کیوں اپنی اوقات بھول گیا ہوں؟
اب بھی میں کمزور و ناتواں انسان ہوں۔ میں خدا تو نہیں بن گیا۔
پھر میں اپنے ماتحت لوگوں کو حقیر کیوں سمجھتا ہوں؟
ان کی طرح میں بھی سرکارکا ملازم ہوں۔ اللہ جل شانہٗ نے مجھے ان پر فضیلت دی ہے تو مجھے اس کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے، اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کے بندوں سے حسنِ سلوک کرنا چاہیے، سب کی عزت و تکریم کرنی چاہیے۔
مخدوم وہ ہوتا ہے، جو دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔
ہمارے پیغمبرِ اعظم ﷺ کی سنتِ حسنہ تو یہ ہے کہ آپ کے تتبع میں ہم بھی دوسروں کے لیے رحمت بن جائیں۔
سب کے ساتھ عدل و احسان کریں۔
لیکن میں تو ایسا نہیں کرتا۔ جب میں تنہائی میں کبھی سوچتا ہوں تو میں اپنے آپ کو مجرم و زیاں کار پاتا ہوں۔
میں وقت پر دفتر نہیں آتا، پھر اوقاتِ کار کے دوران دوستوں سے گپ شپ کرتا اور چائے نوشی کرتا ہوں۔ ملنے والوں سے جھوٹ موٹ کہلوادیتا ہوں ’’صاحب میٹنگ میں ہیں۔‘‘ وہ زحمتِ انتظار اٹھاتے رہتے ہیں اور میں دوستوں سے محوِ تکلم رہتا ہوں۔ کوئی نہ ہو تو فون کرنے لگتا ہوں۔ بے مقصد فون کرنا میری عادت بن چکی ہے۔اس کا بل سرکار کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کیا بددیانتی نہیں؟ سرکاری وقت و روپیہ کا ضیاع نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ میں دفتر کا کام بیدلی سے کرتا ہوں۔ نہ معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں اور نہ درست فیصلے کرتا ہوں۔
ماتحت عملہ میری اس کمزوری سے واقف ہے، اس لیے وہ حساب کتاب میں گڑبڑ کرتا ہے۔ سرکاری رقوم خورد برد کرتا ہے۔ محاسبہ نہ ہو تو خیانت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ خیانت کرنا قوم کا شعار بن جائے تو اس کی معیشت کا تباہ ہونا شدنی ہے۔
ہماری معیشت کی خرابی کی بنیادی وجہ بھی فقدانِ محاسبہ ہے۔ لیکن
محاسبہ کون کرے؟
محاسبے کی مجھے فرصت ہے نہ دماغ!
میں اور مثلوں کو غوروفکر سے پڑھوں؟ مجھ سے اب یہ نہیں ہوسکتا۔
قوم برباد ہوتی ہے تو ہو، مجھے کیا؟
مجھے تو ہر ماہ تنخواہ مل ہی جاتی ہے۔ پھر سرکاری گاڑی اور فون ہے۔
دوسرے افسروں سے میری دوستی ہے۔ ان کو خوش رکھتا ہوں اور وہ مجھ سے خوش ہیں۔سفارش کرنا، کرانا اورماننا ہمارا دستور بن چکا ہے۔
حمام میں سب ننگے ہوں تو بے حیائی کا کیا خوف؟
بلاشبہ ہر روز، روزِ عید اور ہر شب، شبِ قدر ہے، لیکن جب میں کبھی بیمار ہوتا ہوں یا مجھ پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو سوچتا ہوں
اس عالم میں مجھ سے میرا ضمیر کہتا ہے: ’’تم ظالم و جاہل ہو!
تم اپنی قوم کے دشمن اور ملک کے غدّار ہو۔ جو شخص اپنا فرضِ منصبی پورا نہیں کرتا اور اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآنہیں ہوتا، اس سے بڑھ کر ظالم و جاہل کون ہوسکتا ہے؟
تم محاسبہ کرو یا نہ کرو، لیکن ہر لحظہ تمہارا محاسبہ ہوتا رہتا ہے۔
تمہارا اعمالنامہ تمہاری گردن میں بندھا ہوا ہے۔ تم یہاں دیکھو نہ دیکھو، لیکن قیامت کے دن تمھیں اسے دیکھنا پڑے گا۔
اسے دیکھوگے تو دیکھ نہ سکو گے، اور ابد تک پچھتاتے رہو گے۔
تمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا، جہاں تم زندگی اور موت دونوں کو ترستے رہو گے۔
ڈرو! قدرت کے قانونِ مکافاتِ عمل سے ڈرو کہ اس سے کسی انسان کو مفر نہیں۔
ڈرو! ربِ جبار و قہار کی پکڑ بے حد شدید ہے۔ اس سے کوئی کسی کو چھڑا نہیں سکتا۔
ڈرو! موت شدنی ہے، بلائے ناگہانی سے ڈرو! ڈرو کہ عروج کو زوال مستلزم ہے۔‘‘
ضمیر کی آواز سن کر میں کانپ جاتا ہوں، اور سوچنے لگتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟
عہد کرتا ہوں کہ میں آئندہ دیانتدار افسر بن کر دکھاؤں گا، لیکن
افسروں سے ملتا جلتا اور ان کی پارٹیوں میں جاتا ہوں تو سب کچھ بھول جاتا ہوں۔
سوچتا ہوں! میرا انجام کیا ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک نظام نہیں بدلتا، افسر نہیں بدل سکتے!
——