ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے ۱۲۱ویں یومِ پیدائش کے موقع پر منعقد ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے بنیادی اور اعلیٰ تعلیم سے متعلق اپنی پالیسیوں، منصوبوں اور مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے قوم سے کہا کہ حکومت ہر بچے کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے کے اپنے عہد کی پابند ہے۔ انھوں نے موجودہ صورتِ حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ملک میں معیاری اساتذہ کا بحران ہے اور ایسے اساتذہ کی تیاری پر زور دیا جو قوم کے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے سرگرمِ عمل رہیں اور اپنے پیشے کے لیے دیانت داری سے کام لیں۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ ’رائٹ ٹو ایجوکیشن‘ قانون کے نفاذ کے لیے دس لاکھ تربیت یافتہ اساتذہ کی ضرورت ہے۔ وزیرِ اعظم نے اس موقع پر تربیت اساتذہ کے اداروں کو مضبوط بنانے پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ اچھے اساتذہ نہ صرف تعلیم دیتے ہیں بلکہ طلبہ کے اندر عزم وحوصلہ بھی پیدا کرتے ہیں وہ طلبہ کو اچھا طالب علم بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور بعد میں یہی طلبہ ملک کے بہترین شہری ثابت ہوتے ہیں۔
وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اعلیٰ سطح کے پروفیسروں اور لکچرار حضرات کی قلت کا سامنا ہے۔ اس موقع پر وزیرِ اعظم نے عوام کو بتایا کہ گیارہویں پانچ سالہ منصوبے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی رقم میں دس گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت نے آٹھ نئے آئی آئی ٹی اور پندرہ سنٹرل یونیورسٹیاں کھول کر اعلیٰ تعلیم کے فروغ کی بڑے پیمانے پر مہم شروع کی ہے۔ اس پانچ سالہ منصوبے میں مزید چھ آئی آئی ایم، دس این آئی ٹی، بیس آئی آئی پی اور چھ ہزار آدرش اسکول کھولے جائیں گے۔ اس موقع پر موجود ایچ آر ڈی کے وزیر کپل سبل نے کہا کہ حکومت کا ۲۰۲۰ء کا ہدف یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخلے کی موجودہ شرح ۴ء۱۲ فیصد کو بڑھا کر ۳۰؍فیصد تک بلند کردیا جائے۔
ملک کے وزیر اعظم اس حیثیت سے قابل ستائش ہیں کہ انھوں نے’بنیادی تعلیم کے حق‘ کے لیے پابند عہد ہونے کا اقرار کیا ہے اور ملک میں بڑے پیمانے پر اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے سنجیدہ کوششوں کے عزم کا اظہار کیا ہے اور اس کے لیے انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ کو دس گنا بڑھا دیا ہے، جو ایک خوش آئند بات ہے اور قوم اس بات کی امید کرتی ہے کہ آئندہ دنوں میں ان کے بچوں کو شاید اعلیٰ تعلیم کے لیے در در نہ بھٹکنا پڑے۔
لیکن اصل مسئلہ اعلیٰ تعلیم کا نہیں ہے، بلکہ ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ بنیادی پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن ہے جہاں دس کروڑ سے زیادہ بچے سرے سے اسکول کا منھ ہی نہیں دیکھ پاتے۔
تیزی سے بڑھتی اور دنیا کی دوسرے نمبر کی آبادی والے وسیع و عریض ملک میں نئے تعلیمی اداروں کے قیام کی ضرورت سے انکار جہا ںناممکن ہے وہیںپہلے سے موجود تعلیمی اداروں خصوصاً بنیادی تعلیم کے سرکاری اداروں کی نشاۃ ثانیہ اور انہیں دوبارہ معیاری تعلیمی اداروں کی حیثیت سے زندہ کرنے کی اہمیت بھی ناقابلِ تردید ہے۔ یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ بنیادی تعلیم کا سرکاری نظام، کم ازکم شمالی ہند کی سطح پر تو فلاپ اور ختم ہوچکا ہے۔ دیہاتوں میں موجود ہزاروں سرکاری اسکول ایسے ہیں جہاں اساتذہ ہیں تو طلبہ نہیں اور طلبہ ہیں تو اساتذہ ندارد۔ جہاں طلبہ بھی ہیں اور اساتذہ بھی وہاں کی صورتِ حال عجیب و غریب ہے۔ اساتذہ نے اسکولوں میں آنے کے لیے باریاں متعین کرلی ہیں۔ ایک فرد یا گروپ اسکول آتا ہے تو دوسرا فرد یا گروپ اپنے ذاتی کاروبار یا کھیتی باڑی میں مصروف رہتا ہے۔ کسی فوری پریشانی سے بچنے کے لیے ’’اوکاش‘‘ یعنی چھٹی کی ایڈوانس درخواست آفس میں موجود رہتی ہے جو کسی اعلیٰ افسر کی آمد پر ڈھال کا کام دیتی ہے۔ اور اگر ڈھال نہ بھی بن سکے تو معاملہ ’لے دے کر‘ رفع ہوجاتا ہے۔ آج پرائمری ٹیچر ہونا اس حیثیت سے مفید نوکری بن گیا ہے کہ کام کچھ نہیں اور تنخواہ ’’حلال‘‘ اور اچھی ملتی ہے۔ تنخواہ سرکار سے لو اور کام اپنے گھر پر کرو۔
ہائی اسکولوں اور انٹر کالجوں کا معاملہ اور زیادہ افسوسناک ہے۔ یہاں اساتذہ کلاس میں پڑھانے کے بجائے طلبہ کو اس بات کے لیے مجبور کرتے ہیں کہ وہ گھر پر آکر ٹیوشن پڑھیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انہیں زدوکوب بھی کیا جاتا ہے اور فیل بھی کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح آئے دن ایسے حادثات بھی ہوتے ہیں کہ اسکول کی عمارت جو بوسیدہ اور کھنڈر تھی گرگئی اور کئی طلبہ ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ اس طرح کے اسکولوں میں بھلا بنیادی سہولیات اور تعلیمی ضروریات کی تکمیل کا تصور کہاں سے کیا جاسکتا ہے۔
حکومتی تعلیم کے نظام کی اس کسمپرسی اور بے نتیجہ ہوجانے سے اب لوگوں کا سرکاری اسکولوں اور حکومت کے ذریعے چلائے جانے والے تعلیمی اداروں پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ کیونکہ وہ ان کے بچوں کو خاطر خواہ اور بہتر تعلیم دینے میں ناکام ہوگئے۔ ایسے میں پرائیویٹ اداروں کی چاندی ہوگئی اور آخر کار یہ شعبہ بھی تجارت کی شکل اختیار کرگیا۔ مہنگی فیس ظاہر ہے سماج کے کچھ خوش حال لوگ ہی برداشت کرسکتے تھے اور کرسکتے ہیں ، اس لیے غریبوں کے بچوں کو ناخواندگی یا پھر غیر معیاری تعلیم کے علاوہ کچھ نہ مل سکا۔ آپ خود دیکھئے ایک طرف تو پرائیویٹ اسکولوں کی ٹیپ ٹاپ اور ان کا معیارِ تعلیم ہے، دوسری طرف سرکاری اسکولوں کی حالتِ زاد اور ان کا پھسڈی اور تباہ کن نتیجہ۔
معیاری اعلیٰ تعلیمی اداروں کا قیام وقت کی ضرورت ہے لیکن ایسے ملک میں جہاں خواندگی کی شرح نصف سے کچھ ہی زیادہ ہو، بنیادی تعلیم کے مواقع فراہم کرنے اور اس پر اخراجات کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ حکومت اگر قوم کو واقعی خواندہ یا تعلیم یافتہ بنانے کے عہد کی پابند ہے تو اسے چاہیے تھا کہ جس طرح اعلیٰ تعلیم کے بجٹ کو بڑھا کر دس گنا کردیا گیا ہے، وہیں بنیادی تعلیم کے بجٹ کو اس سے زیادہ یا کم از کم اس کے بقدر تو بڑھانا ہی چاہیے تھا۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں میں باصلاحیت اساتذہ کے نہ ہونے کا شکوہ دراصل ان حقائق سے صرفِ نظر ہے جو آج ہمارے ملک میں جاری و ساری ہیں۔ اساتذہ کے تقرر کی بنیاد اگر صلاحیت اور مقابلہ ہو تو یقینا اچھے اساتذہ میسر آئیں گے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ یونیورسٹیوں میں تقرر اب وزیر و امیر کی سفارشوں اور انٹرویو پینل کے قریبیوں، وائس چانسلر کے حواریوں اور ان سے قربت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہاں باصلاحیت اور علمی کام کا ریکارڈ رکھنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ با اختیار افراد کے قریبی نہیں ہوتے یا کسی امیر و وزیر کے سفارش یافتہ ہونے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اس تمام صورتِ حال کی بنیادی وجہ کرپشن ہے جو ہماری سیاست اور اس سے متعلق تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے میں بھی اپنی جڑیں گہری کرچکا ہے۔ اور جب تک اس فساد اور کرپشن کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی اس وقت تک حکومت کی کوششوں کے بار آور اور مفید ہونے کی یقین دہانی نہیں کرائی جاسکتی۔
موجودہ حکومت اگرچہ ملک کے اس نازک مسئلہ پر بھی سنجیدہ نظر آتی ہے اور بظاہر اس نے ایسے کئی اقدامات کیے ہیں جس سے حکومتی نظام میں شفافیت اورٹرانس پیرنسی آسکتی ہے مگر یہ کوششیں ابتدائی نوعیت کی ہیں اور ان کوششوں پر مستقل نگرانی کی ضـرورت بھی شدید تر ہے۔
اس وقت ملک کو شدید ضرورت ہے کہ سرکار سرکاری نظامِ تعلیم کو چست، درست اور نتیجہ خیز بنانے پر خاص توجہ دے تاکہ ملک کے مستقبل کو جہالت کے مہیب اندھیروں سے بچایا جاسکے۔
شمشاد حسین فلاحی