سری لنکا میں تملوں کا قتلِ عام

شمشاد حسین فلاحی

پڑوسی ملک سری لنکا میں گزشتہ کئی مہینوں سے حکومتی افواج کی بمباری جاری ہے جس میں سیکڑوں لوگ ہلاک اور ہزاروں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ یہ بمباری کسی دشمن ملک کی نہیں بلکہ خود سری لنکا کی افواج اپنے عوام پر کررہی ہیں اور اس کی وجہ وہاں کی علیحدگی پسند تحریک ایل ٹی ٹی ای کو ختم کرنے کی کوششوں کو بتایا جارہا ہے۔ سری لنکا کی افواج کی شدت پسندی اور ظلم کا عالم یہ ہے کہ وہ بلا تفریس شہری عوام پر بم برسا رہی ہیں جس میں عورتیں، بچے اور عام شہری بڑی تعداد میں ہلاک ہورہے ہیں۔ جب سے یہ بمباری شروع ہوئی ہے اس وقت سے اب تک کئی بار ایسے شہری علاقوں کو نشانہ بنایاجاچکا ہے جن کو دشمن ممالک کی فوجیں بھی تباہ نہیں کرتیں- اسپتالوں، اسکولوں اور ایسے مقامات بھی اس بمباری کی زد میں آئے ہیں جہاں غریب عوام پناہ لیے ہوئے تھے۔ ۱۲؍مئی کو حکومتی افواج نے ایک اسپتال پر حملہ کیا، جس میں کم از کم 47افراد ہلاک ہوگئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اس کے تین دن کے اندر اندر دوبارہ اسی طرح کی ایک وقتی اسپتال پر بمباری ہوئی جس میں اطلاعات کے مطابق ۶۰ سے زیادہ شہری ہلاک ہوگئے۔ مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ جبکہ ہلاک شدگان میں ہاسپٹل کا عملہ بھی شامل ہے۔ اس سے پہلے ۲؍مئی کواسی طرح ایک ہاسپٹل پر حملے میں ۶۰ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے تھے جن میں سبھی لوگ عام شہری تھے۔ سری لنکا کی تمل بولنے والے شہریوں پر اس بمباری نے اسرائیل کی غزہ پر بمباری کی یاد تازہ کردی۔
حکومت ایل ٹی ٹی ای کا خاتمہ چاہتی ہے۔ علیحدگی پسند تحریک کا خاتمہ یا اس سے نمٹنا حکومت کا کام ہے اور وہ اپنی اندرونی سلامتی کے سلسلے میں آزاد بھی ہے مگر علیحدگی پسندی کے خاتمے کے نام پر بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا اور ان کو تباہ برباد کرنا ایسا جرم ہے جس پر باقی دنیا خاموش تماشائی بنی نہیں رہ سکتی۔ اگر حکومت واقعی ایل ٹی ٹی ای کا خاتمہ چاہتی ہے تو اسے چاہیے تھا کہ وہ نہتے اور معصوم عوام کی فکر کرتی اور وہ تمل علیحدگی پسندوں کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے سے پہلے سول آبادی کو محفوظ طریقے سے وہاں سے نکالتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کے برخلاف سری لنکا کے فوجی اہل کار اس حقیقت سے ہی انکار کرکے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں اور ان خبروں کو محض میڈیا کا پروپیگنڈہ بتاکر ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
ایکٹرانک میڈیا کے ذریعے دی جانے والی خبروں اور ٹی وی پر دکھائی جانے والی تصاویر حکومتی جبروظلم کی منھ بولتی تصویریں ہیں لیکن حیرت ناک بات یہ ہے کہ عالمی برادری اس کھلی حکومتی دہشت گردی پر محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے محض افسوس کا ایک بیان جاری کرکے اپنی ’’ذمہ داری پوری کردی ‘‘ہے۔
یہ درست ہے کہ گزشتہ بیس سالوں سے زیادہ کے عرصے میں ایل ٹی ٹی ای نے زبردست طاقت حاصل کرلی تھی اور وہ ملکی سلامتی کے لیے چیلنج بن گئی تھی۔ ایل ٹی ٹی ای نے پوری دنیا کو اس وقت حیرت میں ڈال دیا تھا جب اس نے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے فائٹر پلینس کا استعمال کیا۔ وہ اس قدر طاقت ور کیسے بن گئی اور بھاری اسلحہ کی کھیپ اسے کس طرح حاصل ہوگئی اور حکومت اس وقت کہاں سوئی ہوئی تھی یہ الگ سوال ہے۔ مگر اس وقت تو یہی نظر آتا ہے کہ سری لنکا کی حکومت تمل عوام کوایل ٹی ٹی ای سے نرمی کا معاملہ رکھنے کی سزا دینے کا پختہ ارادہ کرچکی ہے۔غریب عوام ایل ٹی ٹی ای اور حکومت دونوں کے جبر کی چکی میں پس رہی ہے۔ کیونکہ ایل ٹی ٹی ای انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہی ہے اور حکومت اس کے خاتمہ کے لیے شہری علاقوں پر بمباری کررہی ہے تاکہ اس کا خاتمہ کیا جاسکے۔
یہ صورتِ حال انتہائی تشویش ناک اور افسوس ناک ہے اور اس سے یہ سمجھنا غلط نہیں کہ حکومت جس قدر ایل ٹی ٹی ای کے خاتمے کی خواہش مند ہے، اتنی تمل شہریوں کی حفاظت کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تواس آگ کی گرمی ہمارے ملک کی ریاست تمل ناڈ تک بھی پہنچ سکتی ہے، اس لیے ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ سری لنکا کی حکومت کی اس جارحانہ کاروائی کا سنجیدہ نوٹس لے۔
تعلیمی نظام کا المیہ
اسے اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کا المیہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں گے کہ ملک کی ایک بڑی ریاست مدھیہ پردیش میں ہائی اسکول بورڈ کے امتحانات میں 6.59لاکھ طلبہ شریک ہوئے اور ان میں صرف 2.33لاکھ طلبہ کامیاب ہوسکے اور 4.26لاکھ طلبہ فیل ہوگئے۔ اس سے بڑا حادثہ یہ ہے کہ ۹؍مئی کو رزلٹ آؤٹ ہونے کے محض تین دنوں میں کم از کم پانچ طلبہ نے ناکامی سے مایوس ہوکر خود کشی کرلی۔ ابھی معلوم نہیں کہ یہ سلسلہ کتنے نوعمروں کی جان لے کرتھمے گا۔
مدھیہ پردیش میں یہ حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کا تعلیمی نظام گویا موت کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور اس میں حکومت کی لاپرواہی کے علاوہ کسی اور چیز کو ذمہ دار ٹھہرانا شاید مشکل ہو۔ ایسے میں یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ریاست کے ۶۵فیصد کے لگ بھگ طلبہ کے مستقبل کا کیا ہوگا اور وہ بھی ایسے دور میں جب کہ کوالٹی ایجوکیشن ہی طلبہ کے کیریر کی ضامن قرار دی جاتی ہے۔
ریاست کے شعبۂ تعلیم کی خراب ترین کارکردگی کے سامنے آتے ہی حکومت سے وابستہ سیاست دانوں کو پسینہ آنے لگا ہے اور الزام در الزام کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ریاستی وزیرِ تعلیم نے اگرچہ ان نتائج کو ’شاک‘ اور ’الارمنگ‘ قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی یہ کہہ کر اپنا دامن جھاڑنے کی کوشش کی ہے کہ اس خراب کارکردگی کا سبب اساتذہ کا انتخابات کی سرگرمیوں میں مشغول رکھا جانا ہے۔ کیونکہ اساتذہ کو الیکشن ڈیوٹی میں استعمال کیا گیا اس لیے وہ کلاس میں موجود نہ رہے اور ان کا نصاب مکمل نہیں ہوسکا۔ قابلِ ذکر ہے کہ مدھیہ پردیش میں اسی تعلیمی سیشن میں دو مرتبہ انتخابات ہوئے پہلے نومبر -دسمبر میں ریاستی انتخابات اور اب اپریل میں لوک سبھا انتخابات۔ ریاستی وزیر تعلیم کے برخلاف ریاست کی اسکول ایجوکیشن کی پرنسپل سکریٹری کا خیال ہے کہ اسکولوں میں خالی آسامیوں کو پُر نہ کرپانا اور نصاب تعلیم کی تبدیلی خاص طور پر اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ پرنسپل سکریٹری کا بیان یہ واضح کرتا ہے کہ محترمہ وزیر تعلیم محض الیکشن کو بہانہ بناکر ریاستی حکومت کو اس ذمہ داری سے بری نہیں کرسکتیں۔
حقیقت جو بھی ہو لیکن تلخ اور نتائج کے اعتبار سے نہایت سنگین ہے۔ یہ جہاں ملک کے نظام تعلیم پر سنجیدہ سوالات اٹھاتی ہے وہیں الیکشن کے نظام کو تعلیمی اداروں سے وابستہ اسٹاف سے جوڑنے کے سنگین نتائج سے بھی آگاہ کرتی ہے۔ یہ نتائج ملک کے سربراہوں کو دعوت غوروفکر دیتے ہیں اور اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کریں کہ کس طرح طلبہ کے کیریر کو نقصان پہنچائے بغیر وہ الیکشن کی کارروائی انجام دیں۔ اگر اسی طرح الیکشن ہماری نئی نسل کے کیئریر کو تباہ کرتا رہا تو ہمارا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونا ایک مذاق بن جائے گا۔
اس کا ایک اور پہلو خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ ہر سال مختلف بورڈس کے امتحانات کے نتائج آتے ہی طلبہ کی خود کشیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور درجنوں طلبہ اپنے نتائج سے مایوس ہوکر موت کو گلے لگالیتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے تعلیمی نظام کو اس بات پر بھی غورکرنا چاہیے کہ وہ طلبہ کے اندر جہاں آگے بڑھنے کا عزم و حوصلہ پیدا کرے وہیں ناکامیوں کو جھیلنے کی قوت بھی پیدا کرے۔ اسی طرح والدین جو اپنے بچوں پر اپنی غیر معمولی امیدوں کا بوجھ ڈالے ہوئے ہوتے ہیں انہیں چاہیے کہ ایسے وقت میں اپنے بچوں کو مایوس کرنے کے بجائے عزم و حولہ دلائیں اور ان پر یہ واضح کریں کہ وہ کس طرح اس ناکامی کو بہترین کامیابی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔
کچھ حجاب سے متعلق
ماہنامہ حجابِ اسلامی دہلی سے اپنی اشاعت کے ساڑھے پانچ سال مکمل کرچکا۔ اور اس عرصے میں رسالہ پابندی سے جاری بھی رہا۔ یہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کے بہی خواہوں کی نیک تمنائیں اور تعاون ہی ہے جس کے سبب رسالہ کو غیر متوقع مقبولیت حاصل ہوئی اس سے زیادہ قابلِ شکر بات یہ ہے کہ اس کی مقبولیت میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔
ہم نے نومبر ۲۰۰۳ء میں جب حجاب اسلامی شروع کیا تھا اس وقت اس کی قیمت فی شمارہ پندرہ روپئے Rs. 15 اور سالانہ زر تعاون 150/-روپئے رکھا تھا۔ اس وقت سے آج تک جو مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اس سے ہر شخص نہ صرف واقف ہے بلکہ ہر شہری مہنگائی کی مارکسی نہ کسی صورت ضرور جھیل رہا ہے۔ حجاب اسلامی کی اشاعت کے وقت جو کاغذ ہمیں 325/- روپئے رِم کی قیمت پر دستیاب تھا وہ اس وقت 600/-روپئے سے بھی زیادہ پہنچ گیا ہے۔ اسی طرح پرنٹنگ اور اسٹاف کی ضرورت و اخراجات میں بھی ناقابلِ برداشت حد تک اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اللہ کی توفیق اور اس کے فضل سے ہم یہ سب برداشت کرتے رہے کہ رسالہ کم سے کم قیمت پر قارئین کو فراہم کیا جاتا ہے۔ اس عرصے میں ہم نے کافی خسارہ برداشت کیا۔ مگر اب ہم اپنے قارئین سے اس خسارہ کو کم کرنے میں مدد دینے کی درخواست لے کر حاضر ہیں۔
جو لوگ اردو رسالے نکالنے کی مہم جوئی کے خطرات و مسائل سے واقف ہیں وہ یقینا یہ تسلیم کریں گے کہ ماہنامہ حجابِ اسلامی نے اب تک کا جو سفر طے کیا ہے وہ مالی مشکلات سے پُر تھا۔ مگر قارئین کی حوصلہ افزائی اور اللہ کے فضل و کرم کے سہارے ہم یہاں تک پہنچ سکے۔ ورنہ بہت سے رسالے اس منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ دراصل اس کی وجہ کارپوریٹ سیکٹر کے اشتہارات کی عدم دستیابی اور حکومتی اداروں کے عدمِ تعاون کا رویہ ہے جو اردو رسالوں کے حصہ میں آتا ہے۔ بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے رسالے حکومتی اشتہارات لے لیتے ہیں بلکہ بہت سے رسالے تو نکلتے ہی اشتہارات کے لیے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم یہ کہیں گے کہ حکومتی اداروں کے ان اشتہارات کا حصول ایک ’نازک اور اہم‘ مسئلہ ہے۔ اور اس کے لیے وہ کچھ کرنا پڑتا ہے، جو ہم نہیں چاہتے اور جس کی مخالفت ہمارا مشن ہے۔ آپ ہی بتائیں کہ اگر ہم ایک طرف توبرائی کی مخالفت کریں اور دوسری طرف اسی میں ناک تک ڈوبے ہوں تو اس مشن کو چلانے سے کیا حاصل؟ اسی لیے ہم وہ سب نہ کرسکے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔
قارئین! تین لاکھ روپے سے زیادہ سالانہ کا مسلسل خسارہ ہمارے لیے بہت بڑا بوجھ ہے شاید ایسا بوجھ جس کو برداشت کرنے کی اب سکت محسوس نہیں ہوتی، لیکن قارئین کے لیے پچاس روپئے سالانہ اس لاکھوں کے بوجھ کے مقابلے کچھ بھی نہیں ہے۔ اور پھر ایک دینی رسالے کو خریدنے اور ایک مشن کو جاری رکھنے کے لیے تو پچاس روپئے کیا ہزاروں روپئے صرف کردینا آخرت کے اجر کا باعث ہوگا۔ اس لیے اب ہم چاہتے ہیں اپنے اس بوجھ کو آٹے میںنمک کی مقدار میں اپنے ہزاروں قارئین میں بانٹ دیں تاکہ یہ نیک مشن جاری رہ سکے۔ قارئین جانتے ہیں کہ ہم نے اس مدت میں کبھی آپ سے نہ شکوہ کیا اور نہ مالی تعاون کی خصوصی درخواست کی۔ اب یہ سوچ کر کہ قارئین ہماری مجبوری اور احتیاج کو واقعی انداز میں سمجھیں گے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے آئندہ ماہ جولائی سے حجابِ اسلامی کی قیمت فی شمارہ بیس روپئے Rs. 20/-اور سالانہ زرتعاون دو سوروپےRs. 200/- ہوگا۔ اور یہ اضافہ ماہ جون کے شمارے کی اشاعت کے ساتھ ہی نافذ ہوگا۔ اور یکم جون سے سالانہ خریداروں سے مبلغ 200/-روپئے ہی وصول کیے جائیں گے۔
ہمیں پوری امید ہے کہ حجاب اسلامی کے خریداران اور بہی خواہان اس اضافہ کو خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں گے اور اللہ سے اجر عظم کی امید کریں گے۔
شمشاد حسین فلاحی

 

 

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146