ازدواجی زندگی کی مشکلات میں سے ایک مشکل شوہر کے رشتے داروں سے بیوی کا اختلاف ہے۔ اکثر عورتیں اپنے شوہر کی ماں بہن اور بھائیوں سے مل جل کر نہیں رہ پاتیں اور ہمیشہ ان میں جھگڑا رہتا ہے۔ ایک طرف بیوی کوشش کرتی ہے کہ اپنے شوہر پر اس طرح سے قابض ہوجائے کہ وہ دوسروں پر حتیٰ کہ اپنی ماں بہن اور بھائی پر توجہ نہ کرسکے۔ وہ ان کے تعلقات کو ختم کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ برا بھلا کہتی ہے، شوہر سے جھوٹی شکایتیں کرتی ہے، لڑائی جھگڑا کرتی ہے۔ دوسری طرف شوہر کی ماں خود کواپنے بیٹے اور بہو کا مالک و مختار سمجھتی ہے اور ہر طرح سے اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ اپنے بیٹے کو اپنے قابو میں رکھے اور بہو اس کے حقوق پر قبضہ نہ جمالے۔ اس طرح ہر روز آپس میں لڑائی جھگڑا رہتا ہے۔ خاص طور پر اگر سب لوگ ایک گھر میں ساتھ رہتے ہوں اور اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں نادان اور ضدی ہوں تو بات بہت زیادہ بگڑ جانے کا امکان رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مار پیٹ اور خود کشی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ ساس، بہو، دن رات جھگڑنے اور زور آزمائی میں مشغول رہتی ہیں لیکن پریشانی اور غم و غصہ مردکے حصے میں آتا ہے۔
اصل مشکل تو یہی ہے کہ دونوں طرف ایسے افراد ہیں کہ جن سے مرد آسانی سے کے ساتھ دستبردار نہیں ہوسکتا۔ ایک طرف اس کی بیوی ہے جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر سیکڑوں امیدوں اور آرزوؤں کے ساتھ اس کے گھر آئی ہے تاکہ اس کی اور اس کے گھر کی مالک بن جائے۔ ضمیر کہتا ہے کہ اس کو اس کی خوشی اور مرضی کے اسباب فراہم کروں اور اس کی حمایت کروں، اس کے علاوہ وہ اس کی زندگی کی دائمی شریک اور اس کی بیوی ہے اس کی حمایت نہ کرنا مناسب نہیں۔ دوسری طرف سوچتا ہے کہ میرے ماں باپ نے سالہا سال میری خاطر تکلیفیں اٹھائیں، بڑی امیدوں اور آرزوؤں کے ساتھ مجھے پالا پوسا اور بڑا کیا، مجھے پڑھایا لکھایا، روزگار سے لگایا، میری شادی کی، وہ مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ ضعیفی میں ان کا سہارا بنوں، یہ بات بھی درست نہیں کہ ان سے قطع تعلق کرلوں اور انھیں ناراض کردوں۔ اس کے علاوہ زندگی میںہزاروں نشیب و فراز آتے ہیں۔ پریشانی،دوستی، دشمنی، حادثے، موت غرض کہ طرح طرح کی مشکلیں درپیش ہوتی ہیں۔ ایسے حساس موقعوں پر حامی و مددگار کی ضرور ت ہوتی ہے۔ اور مصیبت کے وقت جو لوگ میرے کام آئیں گے اور میرے خاندان کی مدد اور حمایت کریں گے وہ صرف میرے ماں باپ اور بھائی بہن ہی ہوں گے۔ اس وسیع دنیا میں بے یارومددگار بن کر نہیں رہا جاسکتا۔ اپنے رشتے دار بہترین پناہ گاہ ہوتے ہیں، ان سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا۔
اس موقع پر ایک عاقل انسان اپنے آپ کو بڑی مشکل میں گرفتار پاتا ہے، اپنی بیوی کی بات سنے اور ماں باپ کو چھوڑ دے یا ماں باپ کی مرضی کے مطابق کام کرے اور بیوی کو رنجیدہ کردے اور ان میں سے دونوں باتیں اس کے لیے قابل قبول نہیں ہوتیں، اس لیے مجبور ہے کہ حتی الامکان دونوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرے۔ یہ کام بہت دشوار ہے لیکن اگر بیوی سمجھ دار اور موقع شناس ہو اور ہٹ دھرمی سے کام نہ لے تو یہ مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ ایسے ہی موقع پر مرد اپنی بیوی سے جو کہ اس سے سب سے قریب اور اس کی سب سے بڑی غمگسار ہوتی ہے، توقع کرتا ہے کہ اس مشکل کو حل کرنے میں اس کی مددکرے۔ بہو اگر ساس کے سامنے خاکساری دکھائے، اس کا احترام کرے، اس سے محبت کا اظہار کرے، کاموں میں اس سے صلاح و مشورہ لے، اس کی مدد کرے اور اس کے ساتھ نباہ کرنے کی کوشش کرے تو وہی ساس اس کی سب سے بڑی حامی و مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
انسان اپنی خوش اخلاقی اور اظہارِ محبت کے ذریعے ایک گروہ کو اپنا دوست اور ہمدرد بنالیتا ہے، کیا افسوس کا مقام نہیں کہ اپنے غرور، خود غرضی اور ہٹ دھرمی کے سبب ان سب محبت کرنے والوں سے ناتہ توڑلے۔
کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ خوش اخلاقی اور میل محبت کے ساتھ اپنوں کے ساتھ مل جل کر رہیں تاکہ آپ انس و محبت کی لذتوں کا لطف اٹھائیں اور ایک گروہ آپ کا حقیقی معنوں میں حامی اور پشت پناہ ہوجائے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ غیروں کے ساتھ تو دوستی نبھائیے اور اپنوں سے قطع تعلق کرلیجیے۔ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ مصیبت کے وقت اکثر دوست انسان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، لیکن وہی عزیز رشتے دار جن سے آپ نے قطع تعلق کرلیا تھا آپ کی مدد کے لیے دوڑتے ہیں۔ کیونکہ یہ خونی رشتے ہوتے ہیں، اور انھیں آسانی سے توڑا نہیں جاسکتا۔ مثل مشہور ہے اگر اپنے عزیز رشتے دار انسان کاگوشت بھی کھالیں تو اس کی ہڈیاں دور نہیں پھینکیں گے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
’’انسان اپنے عزیز و اقارب سے کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتا خواہ ما ل و دولت اور اولاد رکھتا ہو۔ ان کے التفات و احترام کی ضرورت ہوتی ہے، وہی لوگ ہر طرح سے (ہاتھ اور زبان سے) اس کی مدد کرتے ہیں۔ اپنے عزیز و رشتہ دار بہتر طریقے سے دفاع کرسکتے ہیں۔ مصیبت کے وقت سب سے پہلے وہی مدد کو دوڑتے ہیں۔ جو شخص اپنے رشتے داروں سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے، وہ دیکھنے میں تو ایک ہاتھ کھینچ لیتا ہے، لیکن دراصل بہت سے ہاتھوں سے محروم ہوجاتا ہے۔‘‘
اس لیے ایک سمجھ دار بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر کی خوشنودی کے لیے، اپنے سکون و آرام کے لیے، اپنے سچے خیر خواہ اور حامی و مددگار پیدا کرنے اور اپنے شوہر کی محبت حاصل کرنے کی غرض سے اپنے اور اپنے شوہر کے خاندان کے ساتھ میل ملاپ رکھے۔ بے جا ضد، تکبر اور جہالت سے دامن بچائے۔ اپنے شوہر کی فکروں میں اضافہ نہ کرے بلکہ ایثار و قربانی سے کام لے، تاکہ خدا اور اس کے بندوں کی نظروں میں محبوب و محترم بن جائے اور خاندان کو جوڑنے کے لیے ایک مضبوط زنجیر ثابت ہو۔
——