میاں بیوی ایک دوسرے پر غصہ ہوئے۔ شوہر نے بیوی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا؟میںتمھیں ضروربدبخت بناکے چھوڑوںگا۔بیوی نے اِنتہائی پروقار لہجے میں کہا،آپ مجھے بدبخت نہیںبناسکتے ہیں۔ اس پر شوہر نے کہا،وہ کیسے؟بیوی نے کہااگرخوش بختی اورسعادت مال میںہوتی توآپ مجھے اس سے محروم کردیتے اورمیںبدنصیبی کا شکارہوجاتی ۔اسی طرح اگر خوش نصیبی کا اِنحصار سونے اورجواہرات کے زیوروں، عمدہ ونفیس کپڑوںاوردُنیا کے سامانِ آرائش وزیبائش پر ہوتاتو آپ اگریہ سب چیزیں مجھ سے روک لیتے تومیںیقینا بدنصیب ہوجاتی۔لیکن حقیقی سعادت و خوش نصیبی ایک ایسی چیز میںہے جس کے نہ آپ مالک ہیں اورنہ لوگ مالک ہیں۔بیوی نے کہا،میں اپنی خوش نصیبی اپنے ایمان میںپاتی ہوں،میراایمان چوںکہ میرے قلب میںہے اورمیرے قلب پر میرے رب کے علاوہ کسی کا کوئی اِقتدارنہیںہے۔
اِس میںشک نہیںکہ بہت سارے لوگ خیال کرتے ہیں کہ سعادت وخوش نصیبی سجے بجے محلوں میں ہے،جہان ہر طرح کے خدم وحشم ہوں۔اُن کا خیال ہے کہ خوش نصیبی مال وجاہ ،بیٹوں اوربیٹیوں میں اوردنیوی سازوسامان اورہرطرح کی شہرتوں میں ہے۔ لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن میں واضح طورپر بتادیاہے کہ یہ سب چیزیں دنیوی زِندگی کا چندروزہ سامان ہیں اورکوڑے کرکٹ کی طرح بہت جلدضائع ہوجاتی ہیں۔اوراللہ کے پاس بہترین انجام ہے۔
علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی فرماتے ہیں کہ خوش نصیبی وسعادت ایک ایسی چیز ہے جس کا سرچشمہ اِنسان کا اندرون ہے،اس کو کہیں باہر سے درآمد نہیں کیا جاسکتاہے۔یہ ایک ایساپوداہے جو نفس بشری اورقلب اِنسانی میںاُگتاہے اورایمان باللہ اورایمان بالاخرت سے اُس کی آبیاری ہوتی ہے۔اوریہی دونوں چیزیں اُس کے لیے پانی،غذااورہوافراہم کرتی ہیں۔
درحقیقت ایمان ایک ایساگھنا سایہ دار درخت ہے،جس کے زیرسایہ مومن ہرطرح کی راحت محسوس کرتاہے۔پختگی ایمان کے سبب تنگی رزق سے نہ وہ پریشان ہوتاہے اورنہ ہی اپنے آپ کو کسی طرح کی ہلاکت میںڈالتاہے۔ اِس کے برعکس اُس کے اندر اپنے رب پر اعتماد میںاضافہ ہوجاتاہے اوراللہ نے اُس کی قسمت میں جو کچھ لکھ دیاہے اس پر راضی رہتا ہے۔چوںکہ اُسے اس بات کا یقین کامل ہوتاہے کہ رزق اورموت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میںہے۔اوردنیاکے سارے اُموراُسی کی بنائی ہوئی تقدیرکے تحت اوراُسی کی قدرت سے جاری وساری ہیں۔جب صورتِ حال یہ ہے توآخرغم کس بات پراورفکر کس چیزکی۔
آدمی فکر منداورغمگین کیوں کرہو
ابراہیم بن ادھم نے ایک شخص کو دیکھاکہ وہ فکرمند اورغمگین ہے۔اُنھوںنے اس سے کہا:اے فلاں!کیااس دنیامیں ایساکچھ بھی ہورہاہے جو اللہ کے اِرادہ ومشیت سے خارج ہو؟اُس نے کہا: نہیں، ایسا کچھ نہیںہے۔یہاں جو کچھ ہورہاہے سب اللہ کی مرضی سے ہورہاہے۔پھر اُنھوںنے اس سے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے تمہاری جو مدتِ عمر لکھی تھی اس میں سے کوئی لمحہ کم ہوگیاہے۔اُس شخص نے کہا:نہیں،ایساکچھ نہیں ہے۔اس پر ابراہیم بن ادھم نے کہاتوپھرفکر وغم کا ہے کا؟
صبروسعادت کی سواری
ابراہیم بن ادھم سفرحج پر پیدل جارہے تھے۔ایک شخص نے جو اپنی اونٹنی پرسوارتھا،اُنھیں دیکھ کر پہچان لیا اور بولا، کہاں کا اِرادہ ہے اِبراہیم؟ ابراہیم بن ادھم نے کہا،حج کا اِرادہ ہے۔سوارنے کہا: آپ کی سواری کہاں ہے،سفرتوبہت طویل ہے؟ اِبراہیم بن ادھم نے جواب دیاکہ میرے پاس بہت سی سواریاں ہیں جنھیں تم دیکھ نہیںرہے ہو۔سوارنے پوچھا وہ کیا ہیں؟ابراہیم ادھم نے کہا:’’جب میرے اوپر کوئی مصیبت آتی ہے تومیںصبرکی سواری پر سوارہوجاتاہوں اورجب کوئی نعمت ملتی ہے توشکر کی سواری پر سوار ہوجاتا ہوں۔ اورجب میں قضا وقدرکی تلخیوں سے دوچار ہوتا ہوں تورضائے الٰہی کی سواری پر سوارہوجاتاہوں۔یہ سن کر آدمی نے کہا،براہِ کرم آپ اپناسفرجاری رکھیں۔ صحیح معنوں میں آپ سوار ہیں اورمیں پیدل ہوں۔
ایک بار ابوالعتاہیہ(عربی کاایک مشہور شاعر) ہارون رشید کے محل میں آئے جہاں اُس کے درباری دوست،احباب اور خلیفہ کے گرویدہ دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔خلیفہ ہارون رشید نے کہا،ہمیں ہماری دُنیاداری کے بارے میں کچھ بتائو۔ابوالعتاہیہ نے کہا:
عِشْ مَابِکَ الَکَ آمِناً
فِی ظِلّ شَاہِقَۃِ القُصُوْرِ
بلندوبالامحلوں کے زیرسایہ جتناچاہو چین کی بنسی بجالو۔
یہ سن کر ہارون رشید نے کہا،بہت خوب! مزید عنایت ہو۔ابوالعتاہیہ نے کہا:
یَسْعٰی اِلَیْکَ بِمَا اِشْتَھَیْتَ
لَدَی الرَّوَاحِ وَفِی البُکُوْرِ
ہرمن چاہی چیز صبح وشام تمہارے پاس دوڑ کر آتی ہے
ہارون رشید نے کہا،درست ہے، مزید عنایت ہو۔ابوالعتاہیہ نے کہا:
فَاِذَا النُّفُوْسَ تَقَعْقَعَتْ
فِی ضِیْقِ حَشْرَجَِۃِ الصّْدُوْرِ
فَھُنَاکَ تَعْلَمُ مُوقِناً
مَاکُنْتَ اِلَّافِی غُرْوْرٍ
’’پھرجب یکایک سانس کی آواز تیز ہوجائے گی اوراُس کی گھٹن کے سبب سینے میںغرغراہٹ موت کا پتہ دے گی۔اُس وقت تمھیں بالیقین معلوم ہوجائے گاکہ تم دھوکے میںپڑے ہوئے تھے۔‘‘
یہ سن کر ہارون پھوٹ پھوٹ کررونے لگا۔ یہ منظردیکھ کر فضل بن یحی(جوہارون رشید کے خواص میںسے تھا)نے ابوالعتاہیہ سے کہا،امیرالمومنین نے تمھیں بلابھیجاتھاکہ تم اُن کے لیے خوشی کا سامان کروگے،مگر تم نے اُنھیں غم گین کردیا۔یہ سن کرہارون نے فضل سے کہا،اُسے کچھ نہ کہو،اُس نے ہمیں غفلت میںدیکھا اوراُس نے یہ گوارانہ کیاکہ ہماری غفلت میںمزیداِضافہ ہو۔
سعادت وخوش بختی دراصل وہ احساس ہے جو اِنسان اپنے نہاں خانۂ دِل میں محسوس کرتاہے۔یہ نام ہے پرسکون اورصاف وشفاف روح ،کشادہ دلی اورقلب مطمئن کا۔یہ چیز اِنسان کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب اس کا رویہ اللہ کے ساتھ،اپنے اور دوسرے اِنسانوں کے ساتھ سلامتی کا ہو۔
مصرکے مشہورادیب مصطفی لطفی منفلوطی کہتے ہیں:اگرتمھیں شفاف ضمیرپرسکون روح اورنیک دلی حاصل ہے تویہ سب سے بڑی سعادت ہے۔
سعادت وخوش نصیبی کا سرچشمہ
احمد امین(مشہورمصری ادیب)کہتے ہیں، ’’زِندگی کے تجربات ہمیں بتاتے ہیںکہ ایمان باللہ سے بڑھ کر مسرت وشادمانی کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیںاوریہ حقیقی سعادت وخوش نصیبی کا چشمہ شیریں ہے۔ہمارے خاندانوں اورمعاشروں کی بدبختی کا سب سے بڑاسبب یہ ہے کہ اُن کے افراد کے شب وروز کے معمولات میںاللہ اوراُس کے احکام کی پاس داری نہ ہو۔ اس کے برعکس وہ شہوات و لذات کے پیچھے بک ٹٹ بھاگ رہے ہوں۔یہ ایک ناقابل اِنکار حقیقت ہے کہ جس خاندان ومعاشرے میںدین داری عام ہوتی ہے اس کے افراد سعادت وخوش نصیبی سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔‘‘
اس میں شک نہیںکہ روحانی سکون ہی دراصل سعادت وخوش بختی کا پہلا سرچشمہ ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی اپنی کتاب الایمان والسعادۃ (ایمان اورخوش بختی)میںلکھتے ہیں کہ اللہ کی جانب سے روحانی سکون اورنور ایک ایسی نعمت ہے کہ جس سے خوف زدہ کوسکون،بے چین دل کو قراراورغم زدہ کو تسلی ملتی ہے۔ یہ معاملہ تومومن کا ہے لیکن غیرمومن افکار کی آماج گاہ میں ہروقت پریشان خاطر رہتا ہے۔ مختلف طرح کے مقاصد اُسے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔وہ اس بات کے لیے ہروقت حیران وپریشان رہتاہے کہ وہ اپنی جبلت کو خوش رکھنے کا اِہتمام کرے یا اس معاشرے کو راضی رکھنے کی فکر کرے جس میںوہ رہتا بستاہے۔مومن اِن سب اُلجھنوں سے آرام میں رہتا ہے۔ اورمومن سارے مقاصد کو ایک مقصد میں سمیٹ دیتاہے اوروہ ہے رضائے الٰہی کاحصول۔مومن اسی کی تمناکرتاہے اوراس کی ساری تگ ودواسی ایک غرض وغایت کے لیے ہوتی ہے۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:
’’جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ بدبختی کا شکار ہوگا اور جو میری یاد سے منھ موڑے گا اُس کے لیے پریشان حال زندگی ہے، اس کو ہم قیامت میں اندھا اٹھائیں گے۔‘’ (طٰہٰ: ۱۲۳-۱۲۴)
اور ہمارے سیدنا محمد ﷺ جب اہلِ طائف کی بدسلوکی کے بعد وہا ںسے زخمی دل اور خون آلود قدموں کے ساتھ لوٹے تو آپ کا قلبِ مبارک انتہائی مطمئن تھا۔ آپؐ نے اہلِ طائف کے لیے بددعا نہ کی۔ آپؐ کی زبانِ مبارک سے اس وقت جو کلمات نکلے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا سینہ سکون کی ٹھنڈک سے معمور تھا۔ آپؐ نے اپنے رب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے اللہ! میں تجھ سے اپنی طاقت کی کمزوری، بے بضاعتی اور لوگوں کے یہاں اپنے بے وقعتی کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین تو کمزوروں کا رب ہے اور تو میرا بھی رب ہے، تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے؟ کسی ایسے بے گانے کے جو میرے ساتھ سختی سے پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جسے تو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے، الٰہی! اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے، تو مجھے کوئی پرواہ نہیں، کہ تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے، میں تیرے چہرے کے اُس نور کی پناہ لیتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں، اس بات سے کہ تو مجھ پر اپنا غصہ نازل کرے، یا تیرا عذاب مجھ پر وارد ہو، تیری رضا جوئی مطلوب ہے، یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور و طاقت نہیں۔‘‘
قناعت میں سعادت ہے
یہ رسول اللہ ﷺ کی کتنی خوبصورت حدیث ہے، جس میںآپؐ فرماتے ہیں:
’’تم میں سے جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے بال بچوں میں مطمئن ہو، جسمانی طور سے عافیت میں ہو، اس کے پاس اس کے دن بھر کے کھانے کا سامان ہو، تو گویا پوری دنیا اُس کے پاس سمٹ کر آگئی۔‘‘ (یہ روایت ترمذی کی ہے)
حقیقی سعادت و خوش بختی یہ نہیں ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ دنیوی ساز و سامان کے مالک بن جائیں، بلکہ آپ کے پاس جو کچھ ہے، اس پر مطمئن رہیں یہ سب سے بڑی سعادت ہے۔ کیونکہ اگر آدمی کے اندر قناعت نہ ہوتو چاہے دنیا کی کتنی ہی نعمتیں اسے مل جائیں مگر اس کے دل کو قرار نہیں آئے گا۔ اور نتیجہ یہ ہوگا کہ زندگی بھر بے چین رہے گا، غم اور بدبختی کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گی اور یہی چیز دراصل اس کے اور سعادت کے درمیان ہمیشہ حائل رہے گی۔
سعد بن وقاصؓ نے اپنے بیٹے سے کہا: ’’اے میرے بیٹے! جب مالداری طلب کر تو قناعت کے ساتھ طلب کر، کیوں کہ اگر تمہارے پاس قناعت نہیں ہے تو صرف مال سے تو غنی نہ ہوگا۔‘‘
امام طبریؒ نے اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک بار حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ (جبکہ وہ خلیفہ تھے) نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ بازار جاکر ۸؍درہم میں ایک لباس خریدلاؤ۔ جب وہ ان کے لیے لباس خرید کر لایا تو انھوں نے اُسے ہاتھ لگا کر دیکھا اور بولے:’’کتنا نرم اور کتنا اچھا ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ آدمی مسکرادیا۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اس سے مسکرانے کی وجہ دریافت کی۔ آدمی نے کہا: مجھے اس دن کی یاد آگئی جب آپ نے خلیفہ ہونے سے پہلے ایک ہزار درہم دے کر مجھے بازار بھیجا تھا کہ آپ کے لیے خالص ریشم کا کپڑا لاؤں، اور جب میں وہ کپڑا لایا تھا آپ نے اسے چھونے کے بعد کہا تھا،یہ کتنا کھردرا ہے!! اور آج آپ ۸ درہم میں خریدے ہوئے کپڑے کو کہہ رہیںکہ کتنا نرم ہے۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: اے فلاں! میرا نفس بلندیوں کا مشتاق ہے۔ جب کوئی مطلوبہ جگہ مل جاتی ہے تو اس سے بلند تر کی خواہش ہوتی ہے۔ امارت (گورنری) مل گئی تو خلافت کی خواہش ہوئی، خلافت مل گئی تو اب میرا نفس ایک بڑی چیز کا خواہش مند ہے اور وہ جنت ہے۔
ہرحال میں راضی رہنے میں سعادت ہے
رضا کا درجہ صبر سے بھی بڑا ہے۔ مقام رضا تک وہی شخص پہنچ سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قوی ایمان اور صبرِ جمیل کی دولت سے نوازا ہو۔ ایسا شخص ہمہ آن خوش وخرم نظر آتا ہے۔ اس پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اُسے بھی خیر سمجھتا ہے، کیونکہ اس میں اللہ کا حکم اور اس کی مشیت شامل حال ہوتی ہے۔ اور اس کو اس بات کا پورا یقین ہوتا ہے کہ اس مصیبت کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے کسی خیر ہی کا ارادہ کیا ہوگا۔ اسی لیے ایسے موقع کے لیے نبی کریم ﷺ کی دعا ہے:’’اے اللہ! میں آپ کے فیصلے پر راضی رہنے کی درخواست کرتا ہوں۔‘‘
اللہ کے فیصلوں پر ناراض ہونے والے لوگ سعادت کا مزہ نہیں پاتے ہیں۔ وہ زندگی بھر غم و اندوہ کا شکار رہتے ہیں۔ ایک سچا مومن ہمیشہ اپنے رب کے فیصلے پر راضی رہتا ہے اور اُسے یقین ہوتا ہے کہ اس کے رب کی تدبیر اس کی اپنی تدبیر سے افضل ہے۔
حسنِ توکل اور سعادت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔‘‘ (الطلاق: ۲-۳)
اللہ تعالیٰ پر حسنِ توکل یہ ہے کہ آپ عمل کریں، اپنے بچے کی اچھی تربیت کریں اور اس بات کا یقین رکھیں کہ آپ کے بچوں کا کام بنانے والا اللہ ہے۔
ابوبکر صدیقؓ نے ایک بار اپنے گھر کا سارا اثاثہ اللہ کی راہ میں دے دیا۔ رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا: ’’بچوں کے لیے کیا چھوڑاہے۔‘‘ ابوبکرؓ نے فرمایا: ’’اُن کے لیے اللہ و رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ یہ تو کل علی اللہ کی بہترین مثال ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے آٹھ بیٹے تھے، جب وہ بستر مرگ پر تھے تو لوگوں نے اُن سے دریافت کیا، بچوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ وہ بولے: ’’اللہ کا تقویٰ ، اگر وہ نیک ہوں گے تو اللہ نیک بندوں کے کام آتا ہے۔ اگر وہ نیک نہیں ہوں گے تو میں اُن کے لیے ہرگز کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑوں گا جو اللہ کی نافرمانی میں اُن کے لیے مددگار ہو۔‘‘ اور حقیقتِ حال یہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنی اولاد میں سے ہر ایک کے لیے ۱۲؍درہم چھوڑے تھے۔
اور ان کے بالمقابل ہشام بن عبدالملک نے اپنے لڑکوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک لاکھ دینار چھوڑے تھے۔ مگر بیس سال بعد عمر بن عبدالعزیز کے بیٹے اللہ کے راستے میں گھوڑوں پر زین کسنے لگے اور مال کی کثرت کی وجہ سے خوب خوب صدقہ و خیرات کرنے لگے۔ رہے ہشام بن عبدالملک کے بیٹے تو وہ سب ابو جعفر منصور کے زمانے میں مسجد دارالسلام کے دروازے پر کھڑے ہوکر لوگوں سے صدقہ و خیرات مانگتے تھے۔
احساس نعمت اور شکر باعثِ سعادت ہے
بہت سارے لوگ اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو محسوس نہیں کرتے ہیں، اسی لیے وہ کم ہی شکر ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور میرے بندوں میں سے شکر گزار کم ہیں۔‘‘ (سبا)
اور خاص طور پر جب کوئی نعمت فوت ہوجاتی ہے تو وہ دل تنگ ہونے لگتے ہیں، حالانکہ اس کے علاوہ دوسری بہت سی نعمتیں ان کے پاس ہوتی ہیں، مگر وہ انہیں بھول جاتے ہیں۔ اگر انسان اس سیاہ دائرے سے نکلنا چاہتا ہے اور حقیقی سعادت سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے تو اسے ان لوگوں پر نگاہ ڈالنی چاہیے جو اُن بہت ساری نعمتوں سے محروم ہیں، جن سے وہ لطف اندوز ہورہا ہے۔
ڈاکٹر مصطفی سباعیؒ فرماتے ہیں: عدالت کی زیارت کرو تو تواللہ کے اس فضلِ عظیم سے واقف ہوگے جو اس نے تمہیں اخلاقِ فاضلہ کی شکل میں نوازا ہے۔ اور ہاسپٹل کی زیارت کرو مہینے میں ایک بار تو تمہیں صحت کی نعمت کا صحیح معنوں میں احساس ہوگا۔ اور ہفتہ میں ایک بار کسی خوبصورت پارک میں جاؤ تو تمہیں معلوم ہوگا کہ فیاضِ ازل نے تمہیں کیسی نوع بنوع کی رعنائیوں سے نوازا ہے۔ اور روزانہ کسی لائبریری میں جاؤ تو تمہیں احساس ہوگا کہ اللہ نے تمہیں عقل جیسی کتنی عظیم نعمت عطا فرمائی اور اپنے رب کی ہر وقت زیارت کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اللہ نے زندگی کی نعمتیں دے کر تمہارے اوپر بڑا عظیم احسان فرمایا ہے۔
——