جنت کا گناہ گار
ایک غریب آدمی مٹی گارے سے بھرا ہوا مسجد میں داخل ہوا تو ایک نمازی نے دیکھ کر اسے جھڑک دیا اور کہا کہ مسجد میں آیا ہے تو اپنی شکل و صورت اور لباس کو مسجد کے قابل بنا۔ یہ بات سن کر عقلمند غریب آدمی کے دل پرایک چوٹ لگی کہ جب مسجد میں مٹی سے آلودہ آدمی نہیں آسکتا تو جنت میں گنہگار کس طرح جاسکتا ہے۔ کیوں کہ وہ تو بہت پاک و صاف مقام ہے۔ وہاں گنہگاروں کو کون داخل ہونے دے گا۔
اس بات سے ہمیں نصیحت ملتی ہے کہ باطنی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ جسمانی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔
بادشاہ اور قیدی
بادشاہ نے ایک بے گناہ قیدی کو قتل کا حکم سنایا تو زندگی سے مایوس اس قیدی نے موت کی سزا سنتے ہی بادشاہ کو بے تحاشا گالیاں دینی شروع کردیں۔
بادشاہ نے اپنے وزیروں سے پوچھا :یہ کیا کہتا ہے۔
ایک وزیر با تدبیر نے عرض کیا کہ جہاں پناہ یہ کہتا ہے کہ جو لوگ غصے کو مار کر خطا کاروں کی خطا معاف کردیتے ہیں وہی دونوں جہانوں میں محبوب ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
دوسرے وزیر نے جو پہلے وزیر سے دل میں کدورت رکھتا تھا بادشاہ سے کہا : جہاں پناہ! یہ آپ کا نمک خوار ہوکر جھوٹ بول رہا ہے موت کی سزا پانے والے قیدی نے تو آپ کو گندی گالیاں دی ہیں۔
یہ سن کر بادشاہ نے جواب دیا: ہمیں اس وزیر کا جھوٹ اس لیے پسند ہے کہ اس جھوٹ میں صلح اور اصلاح کا پہلو ہے۔ جو تمہارے اس سچ سے بہتر ہے جو فساد برپا کرے۔ زندگی سے مایوس شخص نتیجہ کی پرواہ کیے بغیر جو زبان پر آئے کہہ دیتا ہے اور جو جی میں آئے کرگزرتا ہے۔
اس بات سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ ’’ایسا سچ فتنہ برپا کرے اس جھوٹ سے بدتر ہے جس میں اصلاح کا پہلو ہو۔‘‘
دوست کی ناراضگی اور دشمن کا ظلم
ایک نادان شخص بادشاہ سے لڑ پڑا۔ بادشاہ نے اسے گرفتار کرکے اس کے دشمن کے حوالے کردیا۔ اور کہا کہ اس کی گردن اڑا دے۔ اس کینہ پرور کے ہاتھ میں قید ہوکر وہ شخص بڑی گریہ وزاری کرنے لگا۔ اور خود سے کہنے لگا کہ اگر میں دوست کو ناراض نہ کرتا تو آج دشمن کا ظلم برداشت نہ کرنا پڑتا۔ جو شخص دوست کو ناراض کرے دشمن اس کی کھال ادھیڑ دیتا ہے۔
اس بات سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا تو شیطان ہماری عاقبت