’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ ‘‘۔ میں صحن میں ڈرم سے پانی نکال رہی تھی۔ تب میرے چھوٹے بھائی شعیب نے باہر سے آتے ہوئے مجھے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ صحن سے گزر کر اس نے دادی کے کمرے میں جھانکا۔
’’السلام علیکم دادی‘‘ دادی نے سلام کے جواب میں اسے ڈھیروں دعائیں دے دیں۔ حتی کہ وہ آگے چلا گیا مگر دادی کی دعائیں جاری رہیں۔ سامنے ہی بڑی امی اور بھابی دھوپ میں بیٹھی لہسن چھیل رہی تھیں۔ شعیب نے بھابی کی گود میں بیٹھی چھ ماہ کی انعم کو پیار کیا اور انھیں سلام کرتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ میں بھی اپنا کام ختم کرکے اس کے پیچھے جانے لگی۔ امی اور باجی کچن میں تھیں۔ شعیب نے انھیں بھی سلام کیا پھر ہال میں موجود ماجد بھائی و واجد بھائی کو سلام کیا۔ میں نے شعیب سے حیرانی سے پوچھا ’’تمہیں اندازہ ہے پچھلے ایک ڈیڑھ منٹ میں تم نے کتنی نیکیاں کما لیں؟‘‘
’’جی نہیں!‘‘ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’اور میں حساب رکھنا بھی نہیں چاہتا کیوں کہ آپ نے ہی تو کہا تھا کہ ……‘‘
’’ٹرن ٹرن …… ٹرن ٹرن‘‘ اس کا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ فون بج اٹھا۔ اس نے ریسیور اٹھا لیا۔
’’السلام علیکم‘‘ …… جی جاوید بھائی گھر پر نہیں ہیں …اچھا وہ آئیں گے تو بتادوں گا … جی … جی ٹھیک ہے … اچھا السلام علیکم، خدا حافظ‘‘
میں حیرانی سے اسے تکتی رہ گئی۔ حساب لگایا تو معلوم ہوا پچھلے دو منٹ میں شعیب اقبال سلام کے ذریعہ ایک سو دس نیکیاں کماچکا تھا۔ پھر سوچا اس دن جب لوگ ایک ایک نیکی کے لیے ترسیں گے، ایک دوسرے سے بھیک مانگیں گے، اس دن یہ نیکیاں اس کے کتنے کام آئیں گی جو اس نے صرف اور صرف سلام کی بدولت حاصل کیں تھیں۔