سلمیٰ بنت مالک

لطیف پریشان

امِّ زمل سلمیٰ بنت مالک بن حذیفہ عرب کے مشہور قبیلہ بنو فزارہ کی ایک جری، بہادر اور خوبصورت خاتون تھی جس کے جمالِ ہوش ربا پر جان دینے والوں کی کمی نہ تھی۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ نجمِ سحر سے زیادہ چمکیلی اور چاند سے زیادہ حسین تھی۔ اس کے دل میں دنیوی اعزاز و ناموری حاصل کرنے کا بے پنا ہ شوق تھا۔ اسی شوق نے اس کو اپنے حسن کی دولت سے کام لینے کی ترغیب دی۔ چنانچہ طلیحہ بن خویلد جس نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا، جب حضرت خالدؓ بن ولید سے شکست کھا کر اپنی بستی ہزافد سے فرار ہوا تو ام زمل نے اس کے لاتعداد ساتھیوں کو اپنے حسن کے جال میں گرفتار کرکے اپنے گرد عشاق کی عظیم الشان فوج جمع کرلی اور مسلمانوں کے خلاف زبردست جنگ کی تیاری کرنے لگی۔

حضرت خالدؓ بن ولید کو امِ زمل کی فوجی سرگرمیوں کی خبر ملی تو آپ نے ایک مردِ مجاہد سلیمانؓ بن مالک کویہ ہدایت دے کر روانہ کیا کہ وہ امِ زمل کے ارادوں، اس کے لشکر کی تعداد اور فوجی منصوبہ بندیوں کے متعلق ضروری معلومات حاصل کرکے فوری اطلاع دیں۔ سلیمانؓ بنو فزارہ کی بستی میں ایک اجنبی کی حیثیت سے اس وقت پہنچے جب ام زمل کے حسن کے شیدائی اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوچکے تھے۔

ایک اجنبی کے لیے فوجی منصوبہ بندیوں کے متعلق سراغ لگانا کوئی آسان نہ تھا، لیکن سلیمانؓ نے بڑی ذہانت کا ثبوت دیا۔ وہ ام زمل کے لشکر میں شامل ہوکر بہت جلد عام فوجیوں میں اتنا گھل مل گئے کہ انہیں امِ زمل کے ارادے بھی معلوم ہونے لگے اور اس کے خفیہ پروگرام بھی۔ چنانچہ سلیمانؓ جو سپاہی ہونے کے ساتھ ساتھ زاہدِ شب زندہ دار بھی تھے ہر روز آدھی رات کے بعد جب سارا لشکر نیند کی آغوش میں مدہوش ہوتا، بستی سے نکل کر اپنے سپہ سالار حضرت خالد ؓ بن ولید کو ام زمل کی فوجی منصوبہ بندیوں اور جنگی تیاریوں کی خبریں پہنچاتے رہے۔ حضرت خالدؓ بنو فزارہ کی بستی کے قریب پڑاؤ ڈالے پڑے تھے اور سلیمانؓ کی اطلاعات کے مطابق ام زمل کے حملے کا انتظار کررہے تھے۔ ام زمل کو حضرت خالدؓ کی پیش قدمی کی خبر ملی تو اس نے اپنی سپاہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’میں نے اسلام کے جھنڈے کو نیچے گرادینے کا تہیہ کرلیا ہے۔ میں مسلمانوں کی فوج کو کچل ڈالوں گی اور اس دین کو نیست و نابود کردوں گی جو ہمارے آبائی دین کے خلاف ہے۔‘‘ اس نے جھنجھلا کر حضرت خالدؓ کا نام لیتے ہوئے بآوازِ بلند کہا: ’’مسلمانوں کو اپنے سپہ سالار کی جرأت پر ناز اور جنگی قابلیت پر فخر ہے، لیکن میں بہت جلد اس سپہ سالار کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر دنیا کو دکھا دوں گی کہ ایک عورت نے جو کہا تھا وہ کر دکھایا۔‘‘

اس کا لشکر جس میںا س کے عشاق کی کثرت تھی، اس کی تقریر سن کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے بے چین ہوگیا اور جو ش وجرأت میں ڈوبی ہوئی جو بھی نظر اٹھی وہ اس کے حسنِ بے پناہ کو عقیدت کا نذرانہ پیش کرکے جھک گئی۔

اس نے مسکرا کر انگڑائی لی اور اپنے برق رفتار گھوڑے پر سوار ہوکر اپنی سپاہ کا جائزہ لینے لگی۔ وہ جدھر سے گزرتی تھی، سپاہیوں کے سربارگاہِ حسن میں نیاز مندی کے ساتھ جھک جاتے تھے۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ ہر شخص اس کے قدموں پر جان نچھاور کرنے کی تمنا رکھتا ہے۔ یہ دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھتا تھا، اس کے دل کو کامیابی اور فتح کا یقین ہوتا گیا۔ اپنی سپاہ کا معائنہ کرتے ہوئے وہ ایک جوان کے پاس ٹھہر گئی۔ جس کا کشادہ سینہ، وجیہہ چہرہ، چمکتی ہوئی آنکھیں، سڈول جسم اور سپاہیانہ انداز اس کی شجاعت و جوانمردی کی غمازی کررہے تھے۔ امِ زمل اسے غور سے دیکھتی رہی۔ اس کی نظر نے کہا وہ کتنا خوبصورت ہے اور پہلی ہی نگاہ میں اس نوجوان کی محبت کا تیر اس کے دل میں پیوست ہوگیا۔ اس نے دل میں ایک خلش سی محسوس کرتے ہوئے پوچھا: ’’نوجوان! تمہارا نام؟‘‘

’’سلیمان بن مالک!‘‘

’’تمہارا قبیلہ؟‘‘

’’قبیلہ طے کی مشہور شاخ عوث۔‘‘

اس کی مختصر مگر شیریں گفتگو میں سلیمانؓ کے لیے بڑی دلکشی تھی۔ اس نے بھی اپنے دل میں اس کی طرف کشش اور ایک کھنچاؤ محسوس کیا اور شاید محبت کی خلش بھی۔ وہ اپنے خیمے میں واپس آیا تو اس کے ذہن پر امِ زمل کا خیال طاری تھا۔

ادھر ام زمل اپنی بارگاہ میں تنہا بیٹھی سلیمانؓ کے تصور سے باتیں کررہی تھی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا: ’’سلیمان! تم کتنے خوبصورت ہو۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ غیر معمولی مسرت محسوس کرکے مسکرانے لگی اور تھوڑی دیر تک چپ رہنے کے بعد اپنے دل کے کسی فرمان کی تابع ہوکر اٹھی۔ اس نے بارگاہ کے درپر پہرہ دینے والے سپاہی کو بلا کر حکم دیا: ’’سلیمان کو فوراً طلب کیا جائے۔‘‘

سلیمانؓ چند ہی لمحوں کے اندر آگیا۔ ام زمل نے مخمور نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا: ’’نوجوان سپاہی! آج کی رات کتنی حسین اور کیف آور ہے۔‘‘

سلیمانؓ خاموش کھڑا رہا۔

اس نے پھر کہا: ’’سلیمان! زندگی کی اس غنیمت رات کو ضائع نہ کرنا چاہیے۔ کل صبح میدانِ جنگ آراستہ ہوگا اور کون جانتا ہے کسے فتح ہو اور کسے شکست، کون زندہ رہے اور کون مرجائے؟‘‘

سلیمانؓ اب بھی خاموش تھا۔ ام زمل نے اسے خاموش دیکھ کر کہا: ’’نوجوان! تو بڑا خوش نصیب ہے جسے ام زمل نے لاکھوں نوجوانوں کے ہجوم میں سے اپنی محبت کے لیے انتخاب کیا ہے۔ تو گوہرِ یکتا ہے اورمحبت کے بے رحم ہاتھوں نے تیرے قدموں پر اس عورت کے سر کو جھکنے کے لیے مجبور کردیا ہے جو ہزاروں محبت بھرے دلوں کو ٹھکراتی رہی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ سلیمانؓ کے قریب آگئی۔

سلیمانؓ گھبرا گیا اور بے چین ہوکر ایک قدم پیچھے ہٹا اور پھر اس نے چلا کر کہا: نہیں، خدا کی قسم نہیں‘‘

امِ زمل اس کی گرجدار آواز سن کر تھرا گئی۔ اور وہ تیزی سے بارگاہ کا پردہ الٹ کر باہر نکل گیا۔

کچھ دیر بعد امِ زمل کا دل ٹھہرا تو اس نے سوچا کہ سلیمانؓ نے خدا کی قسم کھائی۔ خدا کی قسم تو مسلمان کھاتے ہیں۔ کیا وہ مسلمان ہے؟ اس نے آہستہ سے کہا اور غصے میں اپنے ہونٹ چبانے لگی۔ وہ یقینا مسلمان ہے۔ اس کے دل نے گواہی دی اور جنسی کشش جسے وہ محبت سمجھ رہی تھی اچانک نفرت میں تبدیل ہوگئی۔ اس نے چلا کر کہا: ’’سلیمان کو گرفتار کرلو۔ اس کی بوٹیاں اڑادو۔ اس کو قتل کردو۔‘‘

لیکن سلیمانؓ اس کی دسترس سے بہت دور نکل چکا تھا۔ اس نے لشکرِ اسلام میں پہنچتے ہی اپنے سپہ سالار حضرت خالدؓ بن ولید کو امِ زمل کے ارادوں کی خبر دی اور بتایا کہ کل صبح وہ مقابلے کے لیے نکلے گی۔ لیکن اس کی وارفتگی کہہ رہی تھی کہ وہ کسی عظیم کشمکش سے چھٹکارا حاصل کرکے واپس آیا ہے۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے مسکرا کر ایک طنزیہ فقرہ چست کیا تو اس نے وہ سارا قصہ دہرادیا جو امِ زمل کی بارگاہ میں پیش آیاتھا۔ حضرت خالدؓ نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے جذبۂ ایمان کی تعریف کی۔

سلیمانؓ احتراماً سر جھکائے خاموش کھڑا رہا۔ اور جب حضرت خالدؓ دوسری طرف متوجہ ہوگئے تو وہ اپنے خیمے میں واپس آگیا، لیکن امِ زمل کے حسن کی یاد اس کے دل میں رہ رہ کر چٹکیاں لے رہی تھی۔ وہ رات بھر جاگتا رہا اور سوچتا رہا۔ جب مؤذن نے اذان دی تو اس نے جلدی جلدی وضو کرکے نماز باجماعت ادا کی اور خدا کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کیا، جس نے اسے گناہِ عظیم کے ارتکاب سے محفوظ رکھا تھا۔

سورج کے طلوع ہوتے ہی ام زمل کی ٹڈی دل فوج میدان میں آگئی اور مسلمانوں کو للکار للکار کر مقابلہ کی دعوت دینے لگی۔ حضرت خالدؓ نے اپنی فوج کو اس ترتیب سے تقسیم کیا تھا کہ وہ تعداد میں بہت کم ہونے کے باوجود کم نظر نہ آتی تھی اور مسلمان فولاد کی دیوار بن کر ام زمل کی فوج کے سامنے کھڑے تھے جو ایک زرد رنگ کے اونٹ پر سوار تھی اور جس کے سر پر سنہرا پھیریرا لہرا رہا تھا۔ اس نے دور سے دیکھا کہ سلیمان بن مالک لشکرِ اسلام کے میسرہ میں کھڑا ہے اور اس کی نظریں اس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں تو وہ غصے سے بل کھانے لگی، لیکن سلیمانؓ نے مسکرا کر زیرِ لب کہا: ’’رات کے فساد کا بدلہ دن میں لیا جائے گا۔‘‘ اور اس نے اپنی تلوار کھینچ کر سورج کے سامنے اتنا بلند کیا کہ ام زمل کے رخسار پر اس کی پرچھائیاں پڑنے لگیں۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو سلیمان اپنی جگہ مسکرا رہا تھا۔ وہ شعلے کی طرح بھڑکنے لگی۔ اس نے للکار کر اپنی فوج کو حملہ کرنے کا حکم دیا اور اس کی سپاہ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی۔ اس کے اونٹ کو سو غلام گھیرے ہوئے تھے جن میںہر ایک دس دس مسلمانوں سے لڑنے کی طاقت رکھتا تھا۔ اس کا ٹڈی دل لشکر مسلمانوں کی صفوں کو درہم برہم کرنے لگا اور حضرت خالدؓ جیسے سپہ سالار کی قیادت کے باوجود مسلمان اس کے لشکر کے نرغے میں گھر گئے۔ قریب تھا کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ جائیں۔ اتنے میں سلیمانؓ نے پُر زور نعرۂ تکبیر بلند کیا اور بجلی کی طرح ام زمل کے اونٹ کے قریب پہنچ کر ایک وار میں اس کے پاؤں قلم کردیے۔ اونٹ لڑکھڑا کر زمین پر گرا اور اللہ اکبر کے پرجوش نعروں سے میدان کی فضا گونج اٹھی۔ مسلمانوں کی فتح کا نعرہ بلند ہوتے ہی اس کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔

ام زمل شدید طور پر زخمی ہوئی۔ سلیمانؓ جو خود بھی زخموں سے چورچور تھا، جب اس کے سرہانے پہنچا تو وہ آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اس نے کہا:

’’سلیمان! تم نے مجھے مار ڈالا لیکن میں تمہاری اخلاقی عظمت کی قائل ہوگئی۔ سچ ہے اسلام نے انسان کو انسان بنادیا ہے جو گناہ اور خطا کی منزلوں سے بلند ہوکر فرشتوں کے لیے بھی لائقِ سجدہ بن گیا ہے۔ میں اگرچہ مررہی ہوں، لیکن تمہاری شرافت اور عظمت کو تسلیم کرتی ہوں۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔

حضرت خالدؓ سلیمانؓ کے قریب پہنچے تو انھوں نے امِ زمل کی لاش کے پاس سے اٹھتے ہوئے فتح کی مبارکباد دی، اور سرجھکا کر خاموش کھڑے ہوگئے۔ حضرت خالدؓ نے ان کے دل کی خلش محسوس کی۔ انہوں نے انہیں گلے سے لگا کر کہا: ’’اسلام کی عظمت اور اسلام کے نام پر ایک نہیں ہزاروں محبتیں قربان کی جاسکتی ہیں۔‘‘ اور سلیمانؓ نے ایک بار پھر پورے جوش و خروش کے ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور ام زمل پر آخری نظر ڈال کر اپنے خیمے میں چلے گئے…

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146