محلے میں آج چاروں طرف یہی چرچا تھا کہ اس بار خطبہ جمعہ میں مسجد کے امام صاحب نے جہیز کی رسم کے خلاف جو بیان کیا وہ بہت ہی بہترین و قابل تعریف تھا۔ چالیس منٹ کے اپنے بیان میں امام صاحب نے سماج میں اس جہیز کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو بہترین انداز میں بیان کیا، جس سے حاضرین مجلس کے دلوں پر کافی اثر ہوا۔ محلے کے نوجوانوں کے ایک گروپ نے تو یہ اجتماعی عزم بھی کرلیا کہ وہ اپنی شادی بغیر جہیز کے ہی کریں گے چاہے سماج میں انھیں کتنے ہی مسائل کا سامنا کیو ںنہ کرنا پڑے۔ ان نوجوانوں میں انور بھی پیش پیش تھا۔ اس میں اس کے دلچسپی لینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ عمر کے اس دور سے گزر رہا تھا، جب اس کے لیے والدین مناسب لڑکی تلاش کررہے تھے۔
انور کا گھرانا معاشی اعتبار سے اوسط درجہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس کی تین بہنیں تھیں جن کی شادی میں والدین کو کافی جہیز دینا پڑا تھا۔ شادی کے موضوع پر سماج میں رائج رسم ورواج اور طور طریقہ نبھاتے نبھاتے ان کی معاشی حالت بہت کمزور ہوچکی تھی۔ انور کی شادی سے بھی انھوں نے یہی امید وابستہ کی تھی۔ انہیں امید تھی کہ اب تو سب کچھ آسانی سے ہوجائے گا کیوں کہ وہ لڑکے والے ہیں۔ لیکن ان کی امیدوں پر پانی اس وقت پھر گیا جب انور نے یہ صاف صاف کہہ دیا کہ وہ شادی کرے گا تو بغیر جہیز کے کرے گا ورنہ نہیں۔ کافی سمجھانے کے باوجود وہ جب اپنی ضد پر اڑا رہا تب والدین اس بات پر راضی ہوگئے کہ غریبی میں سیدھے سادھے انداز میں اپنی حیثیت کے مطابق اخراجات کرتے ہوئے انور کی شادی کریں گے۔
انور کی والدہ نے پڑوس کی گلی میں رہنے والی اس خاتون کو بلوایا جو شادی کے پیامات لگانے کا کام کرتی تھی۔ اس خاتون کے پاس تقریباًستّر سے زائد لڑکیوں کے تصویریں اور بائیو ڈاٹاز موجود تھے اس سے یہ اندازہ ہوا کہ سماج میں کتنی لڑکیاں ہیں جو کنواری بیٹھی بیٹھی اپنی عمر گزار رہی ہیں ان میںتعلیمی اعتبار سے چوتھی سے لے کر دسویں بارہویں گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ ہر سطح کی لڑکیاں نظر آرہی تھی۔ زیادہ تعداد میں ایسی لڑکیاں تھیں جو گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن مکمل کرچکی تھیں۔ زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے ان کے پیامات لگنا مشکل ہورہے تھے۔ اور دوسری وجہ یہ بھی کہ ان کے والدین کی یہ خواہش تھی کہ شادی ایسے لڑکے سے کریں گے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تو ہو ہی ساتھ میں سرکاری نوکری کرنے والا بھی ہو۔ اب چونکہ سرکاری نوکریوں کا حصول بہت مشکل ہوچکا ہے۔ اس لیے سماج میں بے روزگاری دن بدن بڑھ رہی ہے، زیادہ تر نوجوان چاہے وہ تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ مختلف قسم کے کاروبار کرنے ہی کو ترجیح دے رہے ہیں اس لیے نوکری والے لڑکے ملنا مشکل ہورہا تھا۔جن لڑکوں کو جیسے تیسے سرکاری نوکری ملی تھی ان کی یہ شرط تھی وہ بھی ایسی لڑکی سے شادی کریں گے جو کسی نہ کسی نوکری سے وابستہ ہوتا کہ آمدنی ڈبل ہو اور معیارِ زندگی اچھے سے اچھا بنایا جاسکے۔
کچھ بائیو ڈاٹا کو انور نے الٹ پلٹ کر دیکھا تو عجیب عجیب چیزیں دیکھنے کو ملیں بعض میں یہ درج تھا کہ شادی ایسے خاندان میں کرنی ہے جو سید ہو، پٹھان ہو، شیخ ہو وغیرہ اور اسی طرح یہ بھی درج تھا کہ چاؤش، انصاری اور فلاں لوگ رابطہ نہ کریں۔ یہ ساری چیزیں دیکھ کر انور حیران رہ گیا کہ مسلمانوں میں بھی کس طرح مختلف طبقات و برادریاں قائم ہوچکی ہیں۔ ایک برادری کے لوگ دوسری برادری کے لوگوں سے رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتے جبکہ اسلام میں تو تمام لوگ یکساں ہیں اور فرق کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔ معاشرہ کی یہ تلخ حقیقتیں دیکھ کر انور کو بہت افسوس ہوا۔
انور کی والدہ نے چند تصویریں چھانٹ کر الگ کیں اور ایک ایک سے ربط قائم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اب لڑکیاں دیکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اور ترجیح کی بنیاد بہترین ناک نقشہ اور حسن قرار پایا۔
انور کے محلے سے بالکل قریب میں ہی ایک لڑکی تھی، چھٹی کے دن کے مناسبت سے انور کی والدہ لڑکی کو دیکھنے اس کے گھر گئیں۔ مروجہ طریقہ کے مطابق لڑکی والوں نے ان کی ضیافت کا بہترین اہتمام کیا۔ مختلف موضوعات پرگفتگو ہوتی رہی بالآخر انور کی والدہ کو وہ لڑکی دکھائی گئی جس کی تصویر انھیں پہلے سے ہی دی جاچکی تھی۔ انور کی والدہ یہ دیکھ کر بڑی حیران ہوئیں کہ تصویر اور اس لڑکی میں بہت فرق نظر آرہا تھا۔ انور کی والدہ لڑکی کو دیکھنے کے بعد گھر لوٹیں اور سارا ماجرہ سنادیا۔ انور کو بھی یہ معاملہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تصویر تو خوبصورت ہو اور لڑکی خوبصورت نہ ہو۔ انور نے اپنے دوست سے اس کا ذکر کیا دوست نے کہا کہ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے آج کل ٹیکنالوجی نے کافی ترقی کی ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعہ تصویروں میں اس قدر مکسنگ کی جارہی ہیں کہ آنکھ کسی ادا کارہ کی ہے تو گال کسی اداکارہ کے۔ غرض یہ کہ مختلف تصویروں کو یکجا کرکے نئی تصویر بنائی جاتی ہیں جو دیکھنے میں بظاہر بہت خوبصورت ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں وہ خوبصورت نہیں ہوتی۔ اپنی لڑکیوں کی شادی کے لیے والدین اس طرح کی حرکتیں تک کرسکتے ہیں یہ جان کر انور کو بہت حیرانی ہوئی۔ اور آخر کار معاملہ ختم ہوگیا۔
اب کی بار انور کی والدہ نے جس لڑکی کو دیکھا وہ دیکھنے میں بھی اچھی اور تعلیم و تربیت سے بھی آراستہ تھی۔ رشتہ کی بات کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا لڑکی والوں نے اپنے چند رشتہ داروں کو جمع کیا اور انورنے اپنے چند رشتہ داروں کو مدعو کیا۔ دونوں طرف کے افراد مل کر گفتگو کرنے لگے بات جب لین دین کی آئی تو انور کی والدہ نے صاف کہہ دیا کہ ہم اپنے بچے کی شادی اسلامی طریقے کے مطابق کرنا چاہتے ہیں ہمیں کسی قسم کا جہیز نہیں چاہیے۔ لڑکی والوں میں سے ایک صاحب نے غالباً یہ لڑکی کے ماموں تھے کہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر ہم لڑکی کو جہیز نہیں دیں گے تو لوگ کیا کہیں گے، سماج میں ہماری بے عزتی ہوجائے گی۔ ان میں سے ایک دوسرے بزرگ نے کہا کہ اگر بغیر جہیز کے یہ شادی ہوگی یہی چیز بچی کے ساتھ ظلم کا سبب نہ بن جائے اور بچی کو بار بار یہ طعنے نے سننا پڑیں کہ بغیر جہیز کے آئی ہو نوکرانی کی طرح رہو۔ اس طرح کے بے شمار اندیشے لڑکی کے رشتہ دار ظاہر کرنے لگے اور اس بات پر بالکل بھی راضی ہونے کو تیار نہیں تھے کہ بغیر جہیز کے شادی کریں۔ انور کے والد اور دیگر رشتہ داروں نے بہت سمجھانے اور یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہم آپ کی بچی کے ساتھ کسی بھی طرح کا غلط سلوک نہیں کریں گے اور یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی کہ یہ ہم اس لیے کررہے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہے۔ دو گھنٹے تک چلی اس گفتگو کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور بات اگلے دن کے لیے ملتوی کردی گئی۔ لوگ اپنے اپنے گھرواپس ہوئے اور اس موضوع پر بحث و مباحثہ ہونے لگا کہ لڑکی کی ممانی نے اس ٹی وی سیریل کی کہانی سنا ڈالی جس میں بغیر جہیز کے شادی کرنے والی لڑکی کے ساتھ سسرال والوں کے مظالم بتائے گئے تھے۔ کہیں ایسا ہی ان کے ساتھ نہ پیش آئے، اس بات کو لے کر وہ کافی فکر مند تھے۔ بالآخر مختلف قسم کے شبہات پیدا کیے گئے کسی اللہ کے بندے نے تو یہ تک کہہ دیا کہ کہیں لڑکے میں کوئی کھوٹ تو نہیں جس کی وجہ سے بغیر جہیز کے شادی کرنے کی بات کررہے ہیں۔ بالآخر طے پایا کہ کہ رشتہ داری مناسب نہیں۔ اس طرح سے انور کو ایک اور جھٹکا لگا۔ یہ اپنی نوعیت کا اکیلا واقعہ نہیں تھا بلکہ قصبہ کے مزید تین لڑکوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوچکا تھا۔ بغیر جہیز کی شادی لوگوں کو ایسی محسوس ہورہی تھی جیسے کسی نے لطیفہ سنا دیا ہو۔ لڑکی والے اپنی معاشی حیثیت کمزور ہونے کے باوجود بھی مختلف قرضوں ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو جہیز دینا لازمی سمجھ رہے تھے۔ ان حالات میں انور کی دینداری پر ایک سوالیہ نشان لگ رہا تھا انور کے والد نے اسے بہت سمجھایا کہ بیٹا اپنی ضد چھوڑ دے بگڑے ہوئے سماج کو سدھارنا اتنا آسان نہیں جن رسموں نے صدیوں سے معاشرہ میں جڑ پکڑی انھیں اکھاڑنا اتنا آسان نہیں۔ انور نے والد صاحب کی پوری بات سنی اورپھر کہا کہ ابا جان یہ صحیح ہے کہ سماج میں مروجہ رسم و رواج کو بدلنا اتنا آسان نہیں مگر کیا یہ صحیح ہے کہ ہم انہیں بدلنے کی کوشش ہی چھوڑ دیں اور انھیں تسلیم کرلیں۔ انور کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ اور ایک انور ہی کیا کتنے انور ہیں جو اپنے عزم مصمم اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ اس راہ میں چلے جارہے ہیں۔ شاید کسی موڑ پر کوئی قدر دان مل جائے۔
انو راپنے مشن میں کامیاب ہوتا ہے یا ناکام مگر اس نے سماج کے دو چہروں کو ضرور لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ ایک انتہائی سیاہ اور بھیانک ہے اور دوسرا نہایت روشن اور نورانی۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم کس کا انتخاب کرتے ہیں۔