کسی سماج کا صحیح نقشہ وہاں کے شاندار قسم کے شاپنگ سنٹرز، امیروں کی بستیاں، خوب صورت قسم کی عمارات،شاندار قسم کی شاہ راہیں، حکومت کے لاؤ لشکر، خزانے اور ظاہری تیپ ٹاپ سے قائم نہیں ہوتا بلکہ اس معاشہر کے لوگوں کے کردار سے ہوتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ دنیوی خوش حالی کی علامات موجود ہوں لیکن دلوں میں افتراق کی کیفیت ہو، بے چینی ہو قلب و دماغ مضطرب اور بے سکون ہوں تو کیا وہ معاشرہ صحیح معنوں میں زندگی کی حقیقی راحتوں سے ہم کنارہوگا؟
یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے۔ سماج میں ہر سطح پر صحیح قیادت و رہ نمائی کا فقدان ہے۔ زندگی کے مادہ پرست نقطہ نظر سے معاشرہ میں جو کردار ہر سطح پر ابھرتے ہیں وہ خدا سے بغاوت اور بے وفائی کی بنیاد پر اٹھتے ہیں اور ان میں وہ سیاست داں پیش پیش ہوتے ہیں جو مفاد ذاتی و گروہی کو اپنا مطمح نظر بناتے ہیں۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں افراد میں نفس پرستی اور خواہشات کی پیروی زور پکڑتی ہے اور سماج کے بگڑے ہوئے عوامل کی مدد سے وہ اپنی قیادتوں کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سماج کو بگاڑنے اور تباہ و تاراج کرنے، رنگ و نسل، زبان و علاقہ کی بنیاد پر فساد و جھگڑا کرانے میں ان کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ آخر اس سیاست میں ہم کس درجہ پر پہنچ چکے ہیں اور جو تباہی انھوں نے مچائی ہے اس کی آخر ی حدود کیا ہیں؟ یہ سیاست داں خدا کی زمین کو غارت گری کا سبق دے رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر ان کے پاس کچھ موجود نہیں ہے۔
باطل نظریات اور قیادتیں کس طرح سماج کو تباہی کے غار میں دھکیل رہی ہیں، اس کا اندازہ جرائم پیشہ بدکاریوں کے سرغنوں اور غنڈہ گردی کے منظم کاروبار سے لگایا جاسکتا ہے جو کہیں کم، کہیں زیادہ مگر ہر ملک میں موجود ہے۔
جہاں تک ہمارے ملک کا سوال ہے، معاملہ انفرادی و گروہی جرائم پیشہ وری سے بڑھ کر لا اینڈ آرڈر کی مشنری کو بھی متاثر کرتا جا رہاہے۔ عورتوں کی عزت و ناموس کی تباہی کا معاملہ ہو، سیاسی انتقام کا مسئلہ ہو، حق و انصاف کی آواز کا گلا گھونٹنا ہو یا پسماندہ طبقات کے ساتھ ظلم ہو۔
لا اینڈ آرڈر لانے والے انسانوں کی جان و مال کے محافظ، عزتوں اور عصمتوں کے نگہبان اگر خود قاتل، ڈاکو، غنڈے، رہزن اور لٹیرے کا کردار ادا کرنے لگیں تو کون کس کے پاس شکایت لے جائے، کون فریادی بنے کون فریاد لے کر کہاں جائے…؟
کسی فساد اور کسی حادثے کے بعد ہم تحقیقاتی کمیشن بٹھانے کے عادی ہوگئے ہیں، لیکن مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ظالم، ظالم رہتا ہے اور مظلوم کی قسمت میں ظلم سہنے کے سوا کچھ نہیں۔ ملک میں فسادات کی صورت میں ظلم و ستم کی جو کہانی دہرائی جاتی رہتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ظالم کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ مظلوم کی داد و فریاد تباہی و بربادی کا تذکرہ تو اخبارات میں آجاتا ہے لیکن فریاد رسی کا نہیں۔
اس بگاڑ کا علاج ہوسکتا تھا اگر نیکی اور بھلائی کی طاقتیں یک جا اور منظم ہوتیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ منتشر ہیں، پراگندہ اور غیر منظم ہیں اور سب سے بڑھ کر بدقسمتی یہ ہے کہ نیکی بھلائی اور مذہب کے نام پر بعض مفاد پرستوں نے دوہرے قسم کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ بڑے بڑے عبادت گزار، جبہ و دستار والے، مذہب و دھرم کے نعرے لگانے میں سب سے آگیہیں طواف حرم میں بھی کسی سے پیچھے نہیں لیکن اسمگلنگ و چور بازاری میں، نفرت و حقارت پھیلانے میں، سماجی رشتوں کو کچلنے اور برباد کرنے میں، جھوٹی گواہیاں دینے اور حق پسندوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنے میں بھی سب سے آگے۔
بگاڑ کا علاج اب بھی ممکن ہے
ہمہ گیر فساد اور خرابی کی وجہ سے رونما ہونے والا عالمی بگاڑ دور ہوسکتا ہے اگر انسانی فطرت، بگاڑ کے گہرے تجزیے اور سابقہ اقوام و زمانوں پر آزمودہ خدائی طریقہ علاج کی طرف رجوع کیا جائے جو ان مرحلوں اور اجزاء پر مشتمل ہے۔
۱- انسانوں کے ذہنوں میں اس عقیدے کو پختہ کیا جائے کہ خدا فساد و بگاڑ کو سخت ناپسند کرتا ہے۔
۲- انسانوں کے ذہن میں یہ عقیدہ راسخ کیا جائے کہ وہ عبث پیدا نہیں کیے گئے ہیں نیز یہ کہ وہ اپنے بھلے و برے اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ آخرت کی دائمی زندگی کی راحت و سکون یا ہمیشگی کی جہنم میں سزا پانے کا انحصار اس پر ہے کہ اس دنیا کے دار العمل میں کیسی زندگی گزاری جاتی ہے۔
۳- جرائم خواہ کسی مقصد سے کیے جائیں ان کی سنگینی بدل نہیں سکتی اور کسی انسان کو سزا صرف خدائی قانون کے مطاق دی جائے تو انصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر زناکاری خواہ جبری ہو یا باہمی رضا مندی سے دونوں صورتوں میں قابل سزا جرم ہے اور جو خدا اور بندوں کی نگاہ میں سب سے بدترین قسم کا جرم ہے۔
۴- نیکی اور بھلائی کو منظم کیا جائے اور اسے انفرادی اکائی کی سطح سے لے کر خاندان، معاشرہ او ر ریاست کی سطح تک وسعت دی جائے۔
۵- نیکی چاہنے والوں اور خدا پرستوں کو اس طرح بیدار، باشعور اور منظم کیا جائے کہ وہ باطل پرستوں سے اور ان کی لیڈر شپ سے پنجہ آزمائی کر کے ملک و قوم کی قیادت حاصل کریں۔ اقوام و ملل کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لیں اور باطل نظریات کو پامال کر کے دنیا پرستی کے خاتمہ اور آخرت پسندانہ کردار کو ابھارنے کی جنگی پیمانے پر کوشش کی جائے اور کوشش کی جائے کہ ذہن و فکر پر آخرت میں جواب دہی کا نظریہ دوبارہ وارد ہوجائے اور خدا کو راضی کرنے کے لیے اپنے بڑے سے بڑے مفادات سے بھی انسان دست بردار ہو جائے۔ مخلوق خدا سے ایسی ہی محبت کرے جیسی وہ اپنی ذات سے اور اپنے چہیتوں سے کرتا ہے۔
۶- ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کا نقطہ نظر اپنائیں۔ مظلوم کی طرف داری اور اس کی حفاظت تو ظاہر ہے کہ مدد ہی ہے لیکن ظالم کو ظلم سے روکنا، ظلم کو سرزد نہ ہونے دینا، زبان سے اسے منع کرنا برے انجام آخرت سے خبردار کرنا اور طاقت ہو تو اس کے بل پر اسے ظلم کرنے سے روک دینا یہ بھی اس کی مدد ہے کیوں کہ اگر اس سے یہ جرم سرزد ہوگیا تو خواہ وہ دنیا کی پولس و عدالت سے چھوٹ جائے لیکن خدا کی پکڑ اور اس کی عدالت سے چھٹکارا ممکن نہیں وہاں اس کو سزا ضرور مل کر رہے گی۔
۷- سماج کی اصلاح کے لیے بھلائی کو پروان چڑھانے کا وہ نقطہ نظر اختیار کیا جائے جسے حضور کی اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے:
’’اگر قیامت قائم ہوجائے اور کسی کو اتنی مہلت بھی ملے کہ ایک شاخِ تر کو زمین میں لگا سکتا ہے تو وہ فوراْ یہ کام انجام دے لے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس کام کے عوض بھی اسے اجر عطا فرمائے گا۔‘‘
یعنی نتیجہ سے بے پروا ہوکر نیکی کے کام اور اس کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کا جذبہ سماج کے ہر فرد میں پیدا کر دیا جائے۔
سماج سدھاار کا چھ نکاتی پروگرام
اب میں آپ کو سماجی بگاڑ کے علاج کے لیے اسلام کے پیش کردہ پروگرام سے واقف کر اؤں گا۔ یہ پروگرام تین بنیادی باتوں سے زندی کے اصول اخذ کرتا ہے:
٭ خدا کی توحید تمام مشکلات و مسائل کا واحد حل ہے۔
٭ اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور، انسانوں کے اعمال کی فلاح کا ضامن ہے۔
٭ محمدﷺ کی قیادت و رہ نمائی دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے، ان اصولوں کو فکر وذہن میں راسخ کر کے اعمال و سرگرمیوں کا جو نقشہ کار ہمیں قرآن شریف میں ملتا ہے وہ حسب ذیل ہے:
یعنی اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تم عدل و انساف پر قائم ہوجاؤ، نہ صرف یہ کہ حق ادا کرو بلکہ حسن سلوک کی روش اختیار کرو، قرابت دار خواہ وہ خاندان کا ہو، پڑوسی ہو، شہری ہو یا غیر ملکی۔ سب آدم و حوا کی اولاد ہونے کے ناطے باہم بھائی بھائی ہیں اور قرابت دار ہیں ان کے حقوق ادا کرو، برے اور گندے کاموں سے روکو، منکرات سے روکو، باغیانہ سرگرمیوں کی بیخ کنی کرو، جو خدا سے بغاوت کر کے زندگی کے تعمیری رخ کو بدل کر تخریب کی روح پر ڈالتے ہیں انھیں روکو۔
یہ پروگرام سماج کے اندر بنیادی قسم کا انقلاب برپا کرے گا اور اپنی عظیم سعادتوں و برکتوں سے تمام انسانوں کو فائدہ پہنچائے گا۔