گزشتہ دنوں نئی دہلی میں صحافیوں کی ایک تنظیم کے پروگرام میں خواتین کے تئیں معاشرے کے رویے پر منعقد مباحثے میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ عام طور پر محسوس کیا گیا کہ سماج کے طور پر خواتین کے تئیں ہمارا رخ دقیانوسی ہے اور اس کو ہر حال میں بدلنا ہوگا۔ اس بحث کا اثر یہ ہوا کہ بہت سی تصویریں دماغ میں گھومنے لگیں، جہاں عورت کو مردوں کے مقابلے میں دوسرے درجے کا تصور کیا جاتا رہا ہے۔ جب آر ایس ایس کے کارسیوک اجودھیا میں ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کو منہدم کررہے تھے تو وہاں بڑی تعداد میں صحافی بھی موجود تھے۔ آج کی طرح لائیو ٹیلی ویژن کا زمانہ نہیں تھا۔ ان دنوں سب سے زیادہ قابل اعتماد خبروں کا ذریعہ بی بی سی کو ہی سمجھا جاتا تھا۔ بی بی سی کے ہندوستانی نمائندے مارک ٹلی بھی وہاں تھے۔ کارسیوکوں نے صحافیوں کے ساتھ بھی کافی زیادتی کی، جن صحافیوں کو وہ آر ایس ایس کا مخالف سمجھتے تھے، ان کے ساتھ زیادہ ہی غیر مہذب رویہ اختیار کیا گیا، لیکن سب سے زیادہ پریشان ہماری ساتھی صحافی روچرا گپتا کو کیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آر ایس ایس کی عدم تحمل فکر میں عورت کے احترام کا کوئی التزام نہیں ہوتا۔ دوسری بات اور بھی زیادہ عجیب تھی، روچرا نے سردی سے بچنے کے لیے اپنے سر پر ایک طرح کی ٹوپی پہن رکھی تھی، جو عام طور پر مسلمان پہنتے ہیں۔ اجودھیا میں صحافیوں کو زدوکوب کررہے کارسیوکوں نے سوچا کہ روچرا کوئی مسلمان عورت ہے۔ یہ ساری باتیں بعد میں سب کو پتہ چلیں، جب اس کی تفتیش وغیرہ ہوئی۔ روچرا کے ساتھ عورت ہونے کی وجہ سے ایسا سلوک کیوں ہوا؟ یہ بات اس وقت تو ماہرین سیاست کا موضوع تھی، لیکن بعد میں یہ معاشرے کے دانشوروں کی بحث کا موضوع بن گئی ہے۔ روچرا گپتا کو ہم بہت عرصے سے جانتے ہیں۔ ان کی زندگی کے اس تکلیف دہ پہلو کا ذکر کرکے ہم بار بار یہ سوال کرتے رہے ہیں کہ کیوں ایک سماج کے طور پر ہم عورت کے تئیں انصاف نہیں کرپاتے۔ ہندوستانی معاشرے میں عورت کے تعلق سے ایک خاص سوچ کی موجودگی کی لاکھوں مثالیں ہیں۔ ہر آدمی کوایسی بہت سی کہانیاں معلوم ہوں گی، جن سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ اپنے ملک اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے میں عورت کو وہ مقام نصیب نہیں ہے، جو اس کو ملنا چاہیے۔ اس کے پیچھے ہماری سوچ کام کرتی ہے، جسے ہم نے سیکڑوں برس میں ایک سماج کے طور پر اختیار کیا ہے۔ ایسی کچھ اور مثالوں کا ذکر کیا جائے گا۔ دہلی شہرمیں ترقی پسند لیفٹسٹوں کا ایک بڑا گروپ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک کمیونسٹ کارکن عورت اور مرد کے مابین برابری کے سوال پرہمیشہ ترقی پسندانہ رخ اختیار کرتا ہے، لیکن جب بات اپنے گھر کی ہوتی ہے تو شاید ایسا نہیں ہوتا۔ ۱۹۴۰ء کی دہائی میں دہلی کے ایک ترقی پسند کنبے کے ایک نوجوان نے سماج میں انصاف کے جذبے کو فروغ دینے کی غرض سے لڑائی لڑی۔ ملک کی تقسیم کے وقت اس نے پاکستان جانے سے انکار کردیا اور انسانی برادری کے اتحاد میں یقین رکھتے ہوئے دہلی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ شادی کی اور ۱۹۴۹ء میں ان کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ بیٹی کو لیفٹ کی ترقی پسند سوچ کی گھٹی پلا کر بڑا کیا گیا۔ ہمیشہ بتایا گیا کہ ایک انسان کے طور پر اس لڑکی کو پوری آزادی ہے، لیکن جب اس لڑکی نے ۱۹۷۰ء میں اپنی مرضی سے شادی کرلی تو اس نوجوان نے، جو اب باپ تھا اپنی بیٹی سے ہی بولنا بند کردیا۔ اترپردیش کے اودھ علاقے میں ایک تقریباً ناخواندہ زمیندار کے یہاں ۱۹۵۵ء میں بیٹی پیدا ہوئی۔ اس نے اپنی بیٹی کو پرائمری اسکول کے بعد پڑھنے نہیں دیا، کیوں کہ اسے خوف تھا کہ پڑھ لکھ کر لڑکی سوال کرنے لگے گی۔ ۱۴؍برس کی عمر میں ایک لڑکا تلاش کرکے اس بچی کی شادی کردی گئی۔ بچی کو دو بیٹے ہوئے اور جب اس کی عمر ۲۱؍برس کی تھی، وہ بیوہ ہوگئی۔ جب زمیندار کے کنبے والوں نے لڑکی کی دوسری شادی کا مشورہ دیا تو بابو صاحب نے ہنگامہ کردیا اور کہا کہ اگر لڑکا ہوتا تو شایداس لائن پر سوچا جاسکتا تھا، لڑکی کے لیے نہیں۔
لوک سبھا میں دیہی ترقیات کی وزارت کے بجٹ مطالبات پر بحث کے دوران ایک پرانے سرکاری ملازم اور موجودہ ایم پی نے بیوہ پنشن کے حوالے سے عورتوں کے بارے میں عجیب بات کہی۔ جب ایوان میں موجود کچھ خاتون اراکین پارلیمنٹ نے اعتراض کیا تو ان کو یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کہا ںسے آئی ہیں اور کہاں جانے والی ہیں۔ عام طور پر اس طرح کے تبصرے پر ہنگامہ ہوجاتا، لیکن اس معاملے میں جن خواتین کے خلاف تبصرہ کیا گیا تھا، ان کے علاوہ کوئی کچھ نہیں بولا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سماج کے طور پر عورتوں کے تئیں یہ رویہ کیوں ہے۔ کیا اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟ اگر تبدیلی کی ضرورت ہے تو پہل کہا ںسے ہونی چاہیے۔
سماجی تبدیلی کے لیے سب سے ضروری سیاسی سمجھداری ہوتی ہے۔ اگر سیاست کی سمجھ جدید اور ترقی پسند اصولوں پر مبنی ہو تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ ایک بار صحیح سیاسی سمجھ پیدا ہوجائے تو ذرائع ابلاغ کا رول شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ سیاسی سمجھ میںانصاف اور برابری کو اہم جگہ دی جائے، کیونکہ اگر سیاست کی سمجھ دقیانوسیت اور تنگ ذہنی پرمبنی ہوگی تو ذرائع ابلاغ سے اسی کی پبلسٹی ہوجائے گی۔ برابری کی سب سے بڑی تحریک اسلام کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ حضرت محمدؐ نے اپنی تعلیم خواتین کو وقار فراہم کرنے پر مبنی رکھی تھی۔ حضور اکرم ﷺ کے دور میں تو عورتیں جنگوںمیں بھی شریک ہوتی تھیں، شادی بیاہ کے معاملے میں آپؐ اس قدر کشادہ ذہن تھے کہ جب حضرت فاطمہؓ کے لیے حضرت علیؓ پیغام لے کر آئے تو آپؐ نے پہلے اپنی بیٹی سے دریافت کیا پھر رشتہ طے کیا، لیکن آج تصویر بالکل الگ ہے۔ بہت سے مذاہب میں تو عورت کو مرد سے نیچے کا درجہ ہی دیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے عورت کے اسی روپ کو آگے بڑھایا، جو مرد بالا دست سماج میں مقبول تھا۔ شروع میں ذرائع ابلاغ کا سب سے مضبوط وسیلہ مسافروں کے بیانات ہوا کرتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدل گئے ہیں۔ آج ذرائع ابلاغ کی سب سے نئی شکل انٹر نیٹ ہے، لیکن سنیما اور ٹیلی ویژن آج کے معاشرے کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان دونوں میڈیموں میں عورت کو مرد کی مرضی کی کٹھ پتلی یا اس کے ذریعہ ڈیزائن کیے گئے کردار میں ہی دکھایا جاتا ہے۔ اسی کردار کو ٹیلی ویژن بھی آگے بڑھاتا ہے۔ ہماری فلموں میں عورت ایک بھرتی کے رول میں ہی پیش کی جاتی ہے۔ وہ آزادانہ طور پر کہیں نہیں آتی۔ اگر کسی فلم میں عورت کو بہت ماڈرن دکھایا بھی جاتا ہے تو اسے مردوں کی طرح گالیاں بکتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ یہ ماڈرن ازم نہیں ہے۔ ٹیلی ویژن میں بھی عورت کی ڈھلی ڈھلائی تصویر کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سوچ میں تبدیلی ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مساوی اصول پر مبنی معاشرے کا تصور کرنا بہت مشکل ہوگا۔
——