دنیا کے لوگ کہتے ہیں کہ عورت صنفِ نازک ہے۔ دنیا کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ مرد کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ دنیا کے لوگ کہتے ہیں کہ عورت کی وجہ سے مرد گنہگار ہوتا ہے۔ یہی لوگ کہتے ہیں کہ عورت شیطان کی ایجنٹ ہے۔ اور یونانی کہتے تھے عورت سانپ سے زیادہ خطرناک ہے۔ کہیں پر عورت کو یوں کہا جاتا ہے کہ عورت سے زیادہ اور کوئی چیز دنیا میں فتنہ و فساد کی نہیں۔ وہ ایک ایسا خوش نما درخت ہے جو بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن جب کوئی پرندہ اس کے پھل کھاتا ہے تو فوراً مرجاتا ہے۔ اور کہا کہ عورت شیطان کا آلہ ہے اور امن و سلامتی کی دشمن ہے۔ اور کہیں پر عورت کو شیطان کے بازوؤں کا کرشمہ اور کہا کہ اس کی آواز سانپ کی آواز ہے۔ اور عورت اس بچھو کی مانند ہے جو ہر وقت ڈنگ مارنے پر تلا رہتا ہے۔ اور شیطان عورتوں کے ذریعہ ہماری روحوں پر قبضہ کرتا ہے۔ اور نہ جانیں کن توہین آمیز الفاظ اور جملوں کے ذریعہ اس کی ذات کی تذلیل کی گئی۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔ ہر عظیم کام یا عظیم شخصیت کے اٹھنے اور اس کی تعمیر و ترقی میں کسی خاتون کا کردار ہونا فطری ہے۔ جس طرح میٹھے دودھ میں شکر شامل ہوتی ہے لیکن نظر نہیں آتی اسی طرح عورت بڑے بڑے کاموں میں شامل ہوتی ہے لیکن نظر نہیں آتی۔
جس طرح ایک عمارت چند ستونوں پر قائم ہوتی ہے اسی طرح سماج کا سب سے مضبوط اور اہم ستون عورت ہے۔ اور اسی ستون پر سماج کی عمارت قائم رہتی ہے اگر یہ ستون کمزور ہوجائے یا اسے بیماری لاحق ہوجائے تو پورا سماج خطرے میں پڑجاتا ہے۔
اسلام گھر کے جملہ امور کی نگرانی اور ادائیگی کی ذمہ داری عورت کے سپرد کرتا ہے اور اس ذمہ داری کو اتنا اہم اور بنیادی قرار دیتا ہے کہ اسے دیگر تمام کاموں سے قطعاً آزاد کردیتا ہے۔ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَہُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۔ … وَالْمَرْأۃُ رَاعِیَۃٌ فِیْ بَیْتِ زَوْجِہَا وَوَلَدِہٖ۔ عورت نگراں و ذمہ دار ہے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی۔
اسلامی معاشرے میں مسلمان عورت زندگی کی گاڑی کا دوسرا پہیہ ہے اور اس کا خاص میدان کار گھر ہے۔ بچوں کی تربیت اور دیکھ ریکھ ایک بنیادی کام ہے جس پر آئندہ نسلوں، اقدار اور معاشرہ و سماج کی بقا کا انحصار ہے۔ اگر اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتی ہے تو پورا معاشرہ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ جس کا اندازہ ہم آج کے سماج کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں، جہاں عورت کو آزادی و مساوات کے نام پر دوسرے کاموں میں لگادیا گیا اور اب ہماری نسلیں مجرم پیدا ہورہی ہیں۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک حقیقت ہے جس سے انکا رممکن نہیں۔ اور بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمان خواتین کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ انہیں حضرت عائشہؓ حضرت اسماءؓ حضرت سلمیٰؓ، حضرت زینبؓ اور حضرت خدیجہؓ جیسی عظیم خواتین کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہ کون تھیں؟ کیا یہ صورت حال ہمارے لیے افسوس ناک اور عبرت ناک نہیں ہے؟ جبکہ ہماری نئی نسل فلمی اسٹار اور دیگر اسٹارس کے ناموں کا ورد اس طرح کرتی ہے جیسے تسبیح پڑھی جاتی ہے۔
اسلام نے عورت کو ظلم و ستم سے نکال کر اسے بلند مقام عطا کیا۔ معاشرے میں اسے اس کا حق دلایا، اقامتِ دین کی ذمہ داری میں اسے شریک ٹھہرایا۔ چاہے وہ عورت ہو یا مرد دونوں سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔
تو کیا ہم اس ذمہ داری کو سمجھنے اور اسے ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا چاہتے ہیں؟ اللہ اور اس کے رسول نیکیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کے لیے ایک فعال رول ہمارے سپرد کرتے ہیں مگر ہم ہیں کہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز زمانے کے بہاؤ میں بہے جارہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بیدار ہوں، دوسروں کو بیدار کریں اور ملت اسلامیہ کو ذلت و پستی کے اس غار سے نکالنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔
وقت تیزی سے بدل رہا ہے اور آنے والا ہر دن نئے نئے چیلنج ہمارے سامنے کھڑے کر رہا ہے۔ ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا امتحان ہے اور ہمیں اپنے وجود کے لیے زبردست جنگ لڑنی ہے۔ تہذیب و ثقافت کے میدان میں دین و مذہب کے مسئلہ پر اور دینی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے۔ یہ جنگ کوئی ہتھیاروں کی جنگ نہیں جس کو دیکھا جاسکے۔ بلکہ یہ نہ نظر آنے والی لڑائی ہے۔ اور آئندہ سالوں میں ہماری کامیابی و ناکامی کا انحصار اسی جنگ کی تیاری پر ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس جنگ کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ، بلند اخلاق اور دین کا گہرا شعور رکھنے والے سپاہی فراہم کریں۔