سماج کی بھینٹ

سعیدہ امجد

گھر میں کئی دنوں سے چہ مگوئیاں ہورہی تھیں، اجالا کو پتہ تھا کہ گھر میں کوئی اہم مسئلہ چھڑا ہوا ہے مگر یہ نہیں پتہ چل سکا تھا کہ مسئلہ ہے کیا۔ اس نے ہمت کرکے اماں سے پوچھ ہی لیا۔

’’اماںکیا بات ہے۔ آج کل آپ بڑی خوش نظر آرہی ہیں۔‘‘

اماں نے اجالا کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا:

’’جب بیٹی ماں کے برابر ہوجائے تو پھر ماں کی نیند اس وقت تک اڑی رہتی ہے جب تک وہ اپنے گھر کی نہ ہوجائے۔ مجھے بھی تیری بڑی فکر لگی رہتی تھی۔ پر اب پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ میری بیٹی تو بڑی بھاگوں والی ہے تیرے چچا نے تیرا رشتہ مانگ لیا ہے۔‘‘

’’میرا رشتہ کس کے لیے؟‘‘ اجالانے حیران ہوکر پوچھا۔

’’میری پیاری بیٹی بھلا تیرے چاچا کے کتنے بیٹے ہیں۔ ایک ہی تو ہے دلاور۔‘‘ باپ کی تمام جائیداد کاتنہا وارث اور علاقے کا بڑا زمیندار۔

’’اماں یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میرا رشتہ دلاور کے ساتھ! یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ لڑکا جسکی میں آپا ہوں۔ اس سے آپ لوگ میرا رشتہ جوڑ رہے ہیں؟ اماں آپ بابا کو منع کردیں۔ آپ سب کو میری اور دلاور کی عمر کا فرق نظر نہیں آتا۔

’’ایسی منحوس باتیں مت کر۔ اگر کسی نے سن لیں تو تیرے ساتھ مجھے بھی ماردیں گے کہ مجھے بیٹی کی پرورش کرنی نہیں آتی۔ تو خوش نہیں ہوئی کہ ماں کی فکر دور ہوگئی ہے اور اتنی زمینوں کے اکیلے وارث سے تیری شادی ہوگی۔ میں تو اس وقت سے پچھتاتی ہوں، جب تجھے تیرے بابا نے پڑھنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ اسی پڑھائی کا تو اثر ہے کہ تو اتنا بول رہی ہے۔ ہمارے گھروں کی بیٹیاں تو گونگی اور بہری ہوتی ہیں۔‘‘

’’اماں آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ اس سے تو بہتر تھا میں جاہل ہی رہتی۔ کچھ نہ سوچنے سمجھنے والی، اک عام سی لڑکی۔‘‘

اجالا کو شروع ہی سے پڑھنے کابہت شوق تھا، پرائمری تک تو بابا نے خود اپنی مرضی سے پڑھنے کے لیے اسکول میں داخل کروادیا، لیکن بعد میں اس نے اپنے شوق سے میٹرک کیا۔ اسکول کی ٹیچر جو شہر سے آئی ہوئی تھیں اجالا کی ذہانت سے کافی متاثر تھیں اس نے اجالا کو آگے پڑھنے کامشورہ دیا۔ اجالا نے گھر آکر ذکرکیا تو گویابھونچال آگیا۔ اجالانا نے بھائیوں سے لاکھ منتیں کیں۔ بابا سے اصرار کیا۔ آخر اسے آگے پڑھائی کی اجازت اس شرط پر ملی کہ ٹیچر گھر آکراجالا کو امتحان کی تیاری کروائے گی اورپھر بھائی کے ساتھ وہ شہر جاکرپیپر دے آئے گی۔

کورس کی کتابوں کے علاوہ اجالا کو اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کابہت شوق تھا۔ اس طرح وہ اپنے علم میں اضافہ کرتی رہی۔ اب جب کہ وہ کچھ باشعور ہوگئی تھی تو اس کی زندگی کااہم فیصلہ اس کی مرضی کے بغیر کیا جارہا تھا۔

اجالا تھی بھی بہت حساس، ہر ایک کادکھ درد محسوس کرنے والی۔ وہ اپنی ماں کی زندگی دیکھ کر ہر وقت کڑھتی رہتی تھی۔ کہنے کو تو وہ گھر کی مالکن تھی لیکن اسکے اختیارات تھے ہی کتنے، بابا کے آگے جی ہاں، کے علاوہ اور کوئی بات کہتے ہوئے نہیں سناتھا۔ انہیں اپنی اولاد کے معاملے میں بھی صلاح مشورے کی جرأت نہیں تھی۔ گھر کی عورتیں ہر وقت سجنے سنورنے کے باوجود اپنی آنکھوں کی اداسی نہیں چھپاسکتی تھیں۔ احتجاجاً اجالا نے کھانا پینا بند کردیا مگر کسی پر بھی اثر نہ ہوا۔ اسے بخار نے آگھیرا۔ اجالا کو عجیب گھٹن کا احساس تھا، جیسے زندگی اس کے ساتھ کوئی گھناؤنا مذاق کررہی ہو۔ ایک دن ملازمہ نے آکر بتایا کہ اسے بڑے صاحب نے بلایا ہے۔ بابا کے کمرے میں پہنچتے ہی حالات کی سنگینی کااندازہ ہوگیا۔

’’اجالا میں کسی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا مجھے صرف یہ بتادو کہ جو تمہاری ماں کہہ رہی ہے کیا وہ سچ ہے؟‘‘

’’ہاں بابا! ماں نے آپ کو صحیح بتایا ہے۔‘‘

’’لیکن کیوں؟‘‘ باپ کی کڑک دار آواز سن کر ہی وہ خوفزدہ ہوگئی۔

’’مجھے نہیں معلوم تھا تم نافرمان ہوجاؤ گی۔ تمہیں پتہ ہے ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو بغاوت کی کیا سزا دی جاتی ہے۔‘‘

’’نہیں بابا جان، نہ ہی میں نافرمان ہوں اور نہ ہی باغی۔ بابا میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں اور مجھے پتا ہے کہ آپ بھی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ آپ خود ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ جس رشتے کو میرا ذہن قبول ہی نہیں کررہا اگر آپ زبردستی کر بھی دیں گے تو میں خوش کیسے رہ سکوں گی اور مجھے ناخوش دیکھ کر آپ دکھی نہیں ہوں گے کیا؟ بابا مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے میری زندگی ایک تماشا بن جائے گی۔‘‘

’’بد تمیز دفعہ ہوجاؤ شرم نہیں آتی باپ کے سامنے زبان چلاتے ہوئے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ چار جماعتیں پڑھنے سے تو اتنی بگڑ جائے گی، تمہارے حق میں بہتر ہے کہ آئندہ اپنی زبان بند رکھنا۔ اگر آج ہم نے تمہارے آگے بند نہ باندھے تو پھر تو یہ ریت پڑجائے گی، ہر عورت کے منہ میں زبان آجائے گی اور وہ بولنا سیکھ جائے گی، یہ ہم کبھی نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

اجالا نے کمرے سے نکلتے وقت ایک التجائی نظر اماں، بابا، بھائی، بھابھی سب پر ڈالی۔ سب کی نگاہوں میں جھلکتی ہوئی بیگانگی دیکھ کر اس کا دل بھر آیا۔ اسے محسوس ہوا وہ تنہا رہ گئی ہے، دل نے چاہا کہ وہ کسی کونے میں چھپ جائے۔

گھر میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ماحول کافی سوگوار ہوگیا تھا۔ شام کو وہ کمرے سے نکلی اماں اپنے کمرے میں خاموش بیٹھی تھیں۔

’’اماں سب چپ کیوں ہیں کوئی مجھ سے بات کیوں نہیں کررہا۔ آپ بھی اپنی بیٹی سے ناراض ہیں۔‘‘

’’نہیں تو میری بیٹی نہیں ہے۔ اگر تجھے ماں کا ذرا سا بھی لحاظ ہوتا تو اپنے باپ کے سامنے مجھے یوں ذلیل نہ کرتی۔ اجالا آج تیری وجہ سے میں تیرے باپ کی نظروں میں بھی گر گئی ہوں۔ اللہ ایسی نالائق اولاد کسی دشمن کو بھی نہ دے۔‘‘

’’اماں آپ صحیح کہہ رہی ہیں، یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے۔ میں ہی ہوں سب کی پریشانی کاسبب۔ اماں میں آپ سب کی مجرم ہوں۔ جو مرضی چاہے مجھے سزا دیں۔‘‘ اجالا ان جھوٹی روایتوں اور انا کی فصیلوں کو نہیں توڑسکتی تھی کیونکہ وہ بہت اونچی اور مضبوط تھیں، ان سے ٹکرانے والا خود ہی ٹوٹ جاتا تھا۔ اجالا کے کانوں میں بار بار ماں کے الفاظ گونچ رہے تھے کہ وہ ان کی بیٹی نہیں ہے اورسب کچھ اس کی وجہ سے ہورہا ہے، وہ نافرمان ہے، باغی ہے اس نے کان بند کرلینے چاہے۔ وہ چیخنے لگی۔

’’نہیں نہیں میں ایسی نہیں ہوں میں باغی نہیں ہوں، سب کچھ ویسا ہی ہوگا جیسا اماں بابا چاہیں گے۔‘‘ اچانک سامنے آئینے میں ایک اجالا نمودار ہوئی وہ کہہ ری تھی ’’پاگل ہوگئی ہے اپنے آپ پر ظلم مت کرو، ہمت نہ ہارو، ورنہ تباہ ہوجاؤ گی تمہاری زندگی تم سے چھین لی جائے گی، تمہیں تم سے جدا کردیا جائے گا۔ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اسے غلط فیصلوں کی بھینٹ مت چڑھنے دو۔‘‘

وہ چیخی ’’نہیں نہیں تم میری دشمن ہو۔ تم مجھے ورغلاتی ہو میں تمہیں ماردوں گی۔‘‘

وہ تیزی سے آئینے کی طرف بڑھی۔ اماں اس کی آوازیں سن کر دوڑتی ہوئی آئیں، وہ اماں سے چمٹ گئی اور آئینے کی طرف اشارہ کرکے چیخی۔

’’اماں وہ مجھے مار دے گی مجھے اس سے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ مجھے چھپالو۔‘‘

’’پر بیٹی وہ تو آئینہ ہے۔ اس میں تیری ہی شکل ہے۔‘‘

’’نہیں نہیں وہ میں نہیں ہوں۔ وہ کوئی اور ہے۔‘‘ اس کاجسم کانپ رہا تھا وہ آگ کی طرح جل رہی تھی۔ اماں نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے آگے سے ہٹا یا، اسے اب وہ آئینے والی اجالا نظر نہیں آرہی تھی اس نے سمجھا وہ مرگئی ہے۔ اجالا فلک شگاف قہقہے لگانے لگی۔

’’میں نے اسے ماردیا ہے۔ ہاں میں قاتل ہوں۔‘‘ بابا بھی آگئے۔ اجالا بیٹی کیا ہوا وہ کہتی رہی ’’اجالا تو مرگئی ہے۔ ہاں وہ سچ مچ مرگئی ہے۔ کسی نے اس کو بچایا ہی نہیں، وہ بہت اکیلی تھی، میں نے اسے ماردیا اب وہ کبھی بھی نہیں آئے گی۔‘‘ نہیں بیٹی ایسی باتیں مت کرو، کون بیٹی کس کی بیٹی؟‘‘ تم ہو میری بیٹی۔ بابا نے اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہا لیکن وہ خوفزدہ ہوکر پیچھے ہٹ گئی۔ ’’نہیں نہیں میں نے تو آپ کی بیٹی کو ماردیا ہے اب آپ مجھے ماردیں۔ آپ کی بیٹی بہت رو رہی تھی بس وہ روتی رہی کسی نے اس کے آنسو نہیں پونچھے، میں نے بھی اس کو چپ نہیں کرایا۔ آپ سب چاہتے تھے ناں کہ وہ سانس نہ لے۔ تو میں نے اس کی سانسیں بند کردی ہیں۔ یہ دیکھیں میرے ہاتھوں پر اسکاخون۔‘‘ ایسے غور سے اجالا اپنے ہاتھ دیکھ رہی تھی جیسے ان پر سچ مچ خون لگا ہوا ہو۔ اجالا کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بھابھی کہنے لگی اماں جی پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ہماری اجالا کی قسمت اچھی دیکھ کر ہمارے دشمن یا کسی دل جلے نے جادو کردیا ہے۔ پہلے ’’ہاں‘‘ نہیں کہتی تھی اب وہ راضی ہوئی تو الٹا جادو کرکے اسے بیمار کردیا ہے۔ ہمارے بڑے پہنچے ہوئے میاں صاحب ہیں انہیں یہاں بلاتے ہیں۔ فوراً توڑ کردیں گے اور ہماری اجالا ٹھیک ہوجائے گی۔

میاں صاحب آئے تو کہنے لگے بہت سخت قسم کا جادو ہوا ہے کوئی بات نہیں ہم ٹھیک کردیں گے ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔ میاں صاحب نے جو جادو کاتوڑ کرنا شروع کیا وہ بہت اذیت ناک تھا۔ اس کے نازک ہاتھوں پر گرم سلاخوں سے نشان لگائے جاتے وہ درد کی وجہ سے چیختی تو سمجھا جاتا جن چیخ رہا ہے۔ جادو کا توڑ کرتے کرتے اجالا کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ وہ پہلے والی نازک اور کومل سی چمکتی آنکھوں والی اجالا ہی نہیں لگتی تھی۔ پہلے اس کے اعصاب نے جواب دیا پھر میاں صاحب نے جادو کا توڑ کرتے کرتے سچ مچ اسے پاگل بنادیا۔ اب سب کو شدت سے احساس ہوا کہ کاش گزرا ہوا وقت لوٹ آئے، وہ اجالا کی زندگی کو تاریک ہونے سے بچالیں۔ لیکن جو وقت بیت گیا سو بیت گیا۔

اجالا گذرے وقت کی ایک داستان بن گئی۔ ایسی داستان جس میں علم کو جہالت سے شکست کھانی پڑی اور دنیا کی بہترین متاع کو حرص و لالچ اور سماجی بندھنوں کی بھینٹ چڑھا کر نام نہاد دولت مندوں نے جہالت کے سمندر میں غرق سماج میں اپنی ناک اونچی رکھی اور اس کے ان حقوق کو پامال کیا جو اللہ اور اس کے رسول نے اجالا کو دئے تھے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146