سماج کے بھیڑیے

سید علی عباس

یہ قصہ ہے جب کا کہ ہندوستان ابھی ابھی آزاد ہوا تھا۔ ہر ہندوستانی کے دل میں ایک نیا جوش اور نیا حوصلہ تھا کہ اپنے ملک کو یوں سنواریں کہ جلد سے جلد وہ دنیا کے ملکوں میں سب سے بڑا سب سے شاندار ملک بن جائے۔ ان دنوں میں دربھنگہ ضلع کا ایس پی تھا۔

۱۹۴۷ء ختم ہوچکا تھا یا ختم ہوہی رہا تھا جب ایک دن ہم لوگوں نے سمستی پور کے تھانے میں ایک شاندار جلسہ منعقد کیا جس میں ایک شخص کو انعام دیا جانے والا تھا۔ اس آدمی کا نام اب یاد نہیں، بس سمجھ لیجیے کہ اس کا نام رتن تھا اور وہ ایک سچا رتن تھا جو ہماری آنکھوں میں یوں چمکا جیسے کنکر پتھر کے بیچ پڑا ہوا کوئی نایاب ہیرا چمکے۔ رتن کے گھر پر ایک رات ڈاکوؤں نے حملہ کیا۔ دروازے ٹوٹے اور مار کاٹ شروع ہوئی۔ رتن نے اس آفت میں فوراً اپنا بھالا اٹھایا اور ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنے لگا۔ وہ تنہا اس بہادری سے لڑا کہ ڈاکو آخر بھاگ کھڑے ہوئے بلکہ ان میں سے ایک تو ایسا گھائل ہوا کہ لوٹ نہ سکا۔ دوسرے دن وہ بھی مرگیا۔ اس زخمی ڈاکو کی شناخت اور ان کے بیان سے سارا گینگ پکڑا گیا۔ اس موقع پر میں نے چاہا کہ ایسے بہادر اور دلیر شخص کی آؤ بھگت کی جائے اور کچھ ایسا انعام دیا جائے کہ لوگ سمجھیں کہ بہادروں کی کیا عزت ہوتی ہے اور دشمنوں کو چاہے وہ دیش کے ہوں یا سماج کے، جو بھی نیچا دکھائے اس کی کیا قدرومنزلت ہوتی ہے۔ اسی خیال سے یہ جلسہ ہوا تھا۔

جلسے میں سیکڑوں لوگ شریک ہوئے۔ شہر اور گاؤں کے باشندے، سرکاری حکام، آس پاس کے سبھی بڑے لوگ اور پولیس افسر ہر رینک کے افسر موجود تھے اور ان سب کے بیچ ایک اونچی کرسی پر رتن ہم لوگو ںکے ساتھ شان سے بیٹھے تھے۔ انہیں پولیس محکمے کی طرف سے ایک بندوق انعام میں دی گئی۔ پھر لوگوں نے اپنی تقریروں میں ان کی بہادری اور ہمت کا ذکر کرتے ہوئے تعریف کے پل باندھے دیے۔ جب میری باری آئی تو میں نے بھی رتن کو ان کی شجاعت اور دلیری پر مبارکباد دی۔ اس کے علاوہ جو کہا وہ مختصر الفاظ میں یہ تھا:

آزادی کے ساتھ جہاں ہندوستان کی قسمت بدلی ہے وہاں اس کے سماج اور اس کے لوگوں کو بھی بدلنا ضروری ہے۔ چوری، شیطانی، شرارت، بے ایمانی تو ہر ملک میںتھوڑی بہت ہوتی ہے اور شاید قیامت تک ہوتی ہی رہے گی، مگر ڈکیتی جیسا جرم یا ظلم کسی مذہب اور اچھے ملک میں نہیں ہوتا اور ہوتا ہے تو برداشت نہیں کیا جاتا۔ ایک مٹھی بھر آدمی رات کے سناٹے میں آتے ہیں اور کسی بے چارے کے گھر پر حملہ کردیتے ہیں۔ عموماً بستی کی بستی ڈر سے بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ ہمسائے بھی اپنی اپنی جان بچا کر کہیں چھپ رہتے ہیں اور جس غریب پر مصیبت ٹوٹتی ہے، وہ یکبارگی اس بڑی دنیا میں خود کو اکیلا اور بے سہارا پاتا ہے۔ کسی اچھے ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ انسانیت کا تقاضہ ہے کہ کسی پر بھی ظلم ہو یا کسی کی جان یا عزت خطرے میں پڑجائے تو ہر دیکھنے والا اپنی جان ہتھیلی پر لے کر ظالموں کا مقابلہ کرے تبھی کوئی ملک شریفوں اور بہادروں کا ملک کہلائے گا۔ ورنہ جب تک لوگ مصیبت میں گھرے ہوئے اپنے بدنصیب بھائیوں کو اکیلا چھوڑ کر خطرے سے دور بھاگتے رہیں گے ملک بدنام رہے گا ، پریشان رہے گا، تباہ رہے گا، ملک میں ہر باشندے کا فرض ہے کہ ظالموں کے ظلم کرنے سے روکے چاہے اس کے لیے جو بھی قیمت دینی پڑے۔ جس قوم میں انسانیت نہیں وہ قوم ایک مردہ قوم کہلائے گی۔ میں نے ان ہندوستانیوں سے بھی اپیل کی جو غلط راہ پر ہیں اور جنھوں نے چوری ڈکیتی کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ میں نے کہا کہ اپنی بقا یا نفع کے لیے وہ جو چاہیں کریں مگر آزاد ہندوستان میں یہ بزدلانہ اور وحشیانہ کام نہ کریں۔

میری تقریر ختم ہوئی تھی کہ اس بڑے مجمع میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: ’’مجھے بھی کچھ کہنا ہے۔ وہ دیکھنے ہی سے کچھ اوباش قسم کا لگتا تھا۔ بال پریشان، چہرہ خونی، مونچھیں بڑی بڑی سی، آنکھیں سرخ سرخ، ہٹّا کٹّا،لمبا چوڑا، میلے کپڑے پہنے ہوئے وہ آدمی اس مجمع میں یوں کھڑا ہوا جیسے جھاڑیوں کے بیچ سے اچانک ایک خوفناک بھیڑیا سامنے آجائے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ کوئی شرابی ہے یہ کیا بولے گا۔ کئی طرف سے آوازیں بلند ہوئیں۔ بیٹھ جاؤ بیٹھ جاؤ۔ مگر وہ کھڑا کہتا رہا کہ مجھے کچھ بولنا ہے۔ میں نے کہا تو پھر آجاؤ اور کہو کیا کہنا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مائک کے پاس آیا۔ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر آواز نکلتی نہ تھی۔ وہ کانپ رہاتھا۔ دوچارمنٹ کے بعد وہ کھانسا اورپھر ہمت کرکے بولنے لگا۔ اس نے کہا:

میرا نام پھدّی جھا ہے۔ میں ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ بڑی عزت سے لوگ میرے باپ دادا کا نام لیتے تھے۔ میں بھی اپنے گاؤں میں ایک بڑا آدمی سمجھا جاتا ہوں۔ میں سامنے بیٹھے ہوئے سارے پولیس افسروں کو جانتا ہوں۔ وہ بھلے ہی مجھے نہیں پہچانتے۔ آج میں ان کو بتلا دوں کہ میں کون ہوں۔ میں ڈاکوؤں کے ایک بڑے گروہ کا سردار ہوں۔ میں نے بیسیوں بار ڈاکے ڈالے ہیں۔ سیکڑوں سیندھ کاٹی ہیں۔ کتنے ہی خون کیے مگر آج ایس پی صاحب کی تقریر سننے کے بعد میرے دل میں ایک عجیب قسم کا ہیجان پیدا ہوا اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آج سے پھر کوئی غلط کام نہ کرو ںگا۔ چوری ڈکیتی سے باز آیا۔ آج آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آج تک زندگی میں جو بھی کیا وہ سب کہہ ڈالوں کہ میرا دل ہلکا ہوجائے اس کے بعد جو بھی سزا مجھے ملے گی میں ہنس کر اسے قبول کرلوں گا بلکہ موت ملے تو اور خوش ہوں گا کہ یہ دیش مجھ جیسے درندوں سے خالی ہوکر ایک سندر سا ملک بنے جس میں ہر سو شانتی اور امن ہو، جہاں لوگ چین کی نیند سوسکیں، جہاں ہر شخص کو یہ یقین ہو کہ سوتے میں اسے کوئی مار نہ ڈالے گا۔ اس کی پونجی لوٹ کر نہ لے جائے گا، اس کی بہو بیٹیوں کی عزت نہ لوٹے گا۔ میں آج سب کچھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں کیسے ایک اچھے شریف نوجوان سے ظالم خونی ڈاکو بنا اور میں نے کیا کیا ظلم کیے ہیں۔

جھا کی یہ باتیں سن کر سارے مجمع میں ایک بجلی سی دوڑ گئی۔ شہر کے لوگ ہر چار طرف سے ایسے نڈر اور نرالے ڈاکو کو دیکھنے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ اچھی خاصی کھلبلی مچ گئی اور وہ معمولی سا جلسہ عجیب و غریب کہانی بن گیا۔

پھدّی جھا اپنی رام کہانی سناتا گیا اور لوگ منہ پھاڑے حیرت سے سنتے رہے۔ کچھ دیر بعد اس کی آواز بھرّائی ۔ آنکھیں ڈبڈبائیں اور سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔ پھر اچانک یوں روپڑا جیسے نشتر کے بعد کوئی بچہ چیخ پڑے۔ ہم لوگوں نے اسے تسلی دی، پاس بٹھلایا اور پھر تقریروں کا دوسرا سلسلہ شروع ہوا۔ بولنے والوں نے کہا کہ ایسے زندہ ضمیر والے انسان جس دیش میں بستے ہوں اس ملک کو کوئی انتہائی بلندی پر پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔ ایک نیتا نے کہا کہ جھا بیسیوں صدی کے والمیکی ہیں اور لوگوں کے لیے ایک نایاب سبق، ایک شاندار مثال۔

جلسہ ختم ہوا اور ہم لوگ پھدّی جھا کو تھانے لے گئے۔ وہاں آدھی رات تک اس کی داستان سنتے رہے۔ کئی ڈکیتی اور کتنی چوریوں کا اصل پتہ ملا جس کانتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے ڈاکو پکڑے گئے۔ کتنے سامان چوری کے برآمد ہوئے اور جھا کو پاکر ہم ایسے خوش ہوئے جیسے کوئی زمین کھودنے والا اچانک اشرفیوں کا گھڑا پاکر خوشی سے پاگل ہوجائے ۔

دو دن کے بعد جھا جیل سے مجسٹریٹ کے سامنے لایا گیا کہ اس کا بیان درج ہو مگر جب مجسٹریٹ نے پوچھا کہ بتلاؤ کن جرائم کا تمہیں اقرار کرنا ہے تو جواب میں اس نے کہا۔ مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔ میں کچھ نہیں جانتا۔ مجھے کسی چوری یا ڈکیتی کی کچھ خبر نہیں۔ اس پلٹا کھانے کی خبر جب مجھ تک پہنچی تو میں دنگ ہوگیا۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ ایک آدمی جو ہزاروں کے بیچ کھڑا ہوکر اپنے گناہ کا اقرار کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچایا وہ کیسے یوں بدل جائے گا۔ یقین نہیں آیا کہ جو کوئی سچائی کی راہ پر بے دھڑک چل پڑا تھا وہ دو دن بعد پھر سچ سے کیوں اس طرح کترا گیا۔ نیک زندگی اختیار کرنے کا اعلان کرنے کے بعد پھر وہ کیوں بدی کی طرف مڑگیا؟

میں فوراً جیل گیا اور جھا سے ملا۔ میں نے پوچھا: کیوں بھئی یہ تم نے کیا کیا۔ اتنی بلندی پر پہنچ کر پھر کیوں پستی کی طرف جارہے ہو؟ وہ دیر تک خاموش رہا پھر بہت اصرار پر آنکھوں میں آنسو لیے بول اٹھا:

’’آپ ہی بتلائیں آخر میں کیا کروں۔ میں نے تو سچے دل سے چاہا تھا کہ نیک راہ اختیار کروں مگر دنیا نے کچھ دور بھی چلنے نہیں دیا۔ ان دو دنوں میں مجھ پر کیا بیتی آپ کو کیا خبر؟ میری بھی تھوڑی سی سن لیجیے۔ اس جیل میں کئی پرانے قیدی کبھی میرے ساتھی تھے۔ انھوں نے کہا یہ کیا کررہے ہو جھا۔ کیوں اپنے دوستوں کے گلے میں پھانسی ڈلوارہے ہو۔ کیا ملے گا تمہیں اس سے؟ کیا بگاڑا ہے ہم لوگوں نے تمہارا؟ ان لوگوں کی باتوں پر میں نے کان میں انگلی ڈال لی اور یہ جتایا کہ جیسے کچھ سناہی نہیں۔ کل شام کو دوچار میرے بڑے قریب اور بڑے زبردست ساتھی جیل تک مجھ سے ملنے آگئے اور جب سامنے آئے تو میرے رو برو میری ننھی سی بچی رادھا کو کردیا جس کی عمر صرف ۷ برس ہوگی۔ مجھے دیکھ کر میری بچی بیساختہ مسکرائی اور پھر اس کی آنکھوں میں خوف سمٹ آیا مگر نہ جانے کس ڈر سے وہ کانپنیلگی۔ قید خانے کی سلاخوں نے مجھے اجازت نہ دی کہ میں اسے گود میں اٹھا لوں اور پوچھوں کہ کون سا ڈر تمہیں ستارہا ہے۔ میری پریشانی دیکھ کر میرے ساتھی جو اسے لائے تھے انھوں نے ایک قہقہہ لگایا، اور کہا بولو تمہیں یہ سچ پیارا ہے یا یہ بچی۔ سمجھ لو پھدّی جھا کہ تم نے اگر ہم لوگوں کو سولی کے تختے پر چڑھایا تو اس سے پہلے ہم نہ صرف یہ کہ اس بچی کو زندہ دفن کردیں گے بلکہ تمہاری بیوی، تمہارا لڑکا، تمہارا گھر کوئی بھی نہ ہوگا۔ اس دنیا میں جب تم والمیکی بن کر سرخ رو گھر کو لوٹو گے، اب بولو کیافیصلہ کرتے ہو۔ سماج کی بے معنی فضول کھوکھلی تعریفیں چاہتے ہو یا اپنے بال بچوں کی سلامتی، جلد سودا کرلو۔ اس لیے کہ وقت تھوڑا ہے۔

اپنے ساتھی ڈاکوؤں کی یہ باتیں سن کر میرے گھر بار کا مستقبل میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ میرا دل اس زور سے دھڑکا جیسے اس چڑیا کا دھڑکے جو پنجرے میں بند ہو اور چاروں طرف سے بلّے گھیرے ہوئے پنجرے کی کمزور تیلیاں توڑ رہے ہوں۔ میری ہمت نے جواب دے دیا۔ میرے سارے نیک ارادے یوں کافور ہوگئے جیسے کہ تیز ہوا کے آگے بادل کے ٹکڑے اُڑ جائیں اور کھیت ایک بوند کو ترستے رہ جائیں۔ سچائی کی راہ اتنی سخت اور پُر خطر لگی کہ میرے ہاتھ پیر شل ہوگئے۔ دل و دماغ مفلوج ہوگئے۔ میرا سرچکرا گیا اور حواس گم ہوگئے۔ میری شکست ہوئی اور ظالموں کی فتح۔ آخر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہاکہ اب جاؤ اور مطمئن ہوجاؤ۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔سماج کے ساتھ نہیں، ملک کے ساتھ نہیں۔ یہ سن کر وہ مسکراتے اینٹھتے، مونچھوں پر تاؤد یتے میری بچی کو گھسیٹ کر چل دیے اور آج میں ہوں اپنی شکست کی آواز ۔خدا کے لیے مجھ سے اور کچھ نہ پوچھئے۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجیے۔ مجھے پھانسی پر چڑھا دیجیے مگر میرے ساتھیوں نے کیا کیا یہ نہ پوچھئے۔ میں کچھ نہیں جانتا۔ میں کچھ نہیں جانتا۔ میں کچھ نہیں جانتا۔

جھا کا اچانک ایک گڑھے سے اٹھنا اور ہمالیہ کی چوٹیوں تک پہنچنا اور پھر وہاں سے پھسل کر گرنا اور سمندر کی تہ میں کھوجانا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ تھا جس کی مثال میں نے نہیں پائی۔

جھا کو پہلی بار دیکھ کر جتنا دل خوش ہوا تھا اتنا ہی دل بیٹھ گیا۔ اس سے جیل میں ملنے کے بعد پہلی بار ہمیں محسوس ہوا کہ کبھی کوئی آدمی اچھا بننا چاہے تو آج کل کی دنیا میں کچھ لوگ اسے اچھا بننے نہیں دیتے۔ سچائی کی راہ کتنی کٹھن ہے۔ سماج کے بھیڑیوں کے خلاف اپنی مرضی سے جینا کس قدر دشوار ہے، خدا کی پناہ!

(ماخوذ از حجاب نومبر ،دسمبر ۱۹۸۱ء)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146