پچھلے کچھ عرصے میں دنیا نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی دیکھ کر حیرت سے آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ پہلے جہاں مہینوں کا سفر طے کرکے کہیں پہنچتے تھے وہاں آج ہوائی جہاز کے ذریعے انسان گھنٹوں میں پہنچ جاتا ہے۔ جہاں پہلے خط پہنچنے میں کافی وقت لگتا تھا آج ٹیلیفون، موبائل، فیکس اور انٹرنیٹ کے ذریعہ انسان گھر میں ہو یا گھر کے باہر چند لمحوں میں صرف انگلی سے چند بٹن دبا کر ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی خبر لینا صرف لمحوں کا کھیل ہے۔
اگر پہلے کہیں کوئی حادثہ پیش آجاتا تھا تو دوسری جگہ خبر پہنچتے پہنچتے ہی باسی ہوجاتی تھی۔ مگر آج دنیا کے کسی بھی حصے میں کچھ بھی ہوا ہو اس کو جاننے کے لیے ہمیں گھر سے باہر جانے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ گھر بیٹھے ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے اسی لمحے ہم تک خبر پہنچ جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ حادثہ بھی ہم اپنی نگاہوں سے دیکھ لیتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، آئی ٹی میں تو اتنی ترقی ہوگئی ہے کہ پوری دنیا سمٹ کر ایک گاؤں بن گئی ہے۔ مگر اس تمام کے باوجود انسانوں کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ پوری دنیاکی خبر رکھنے کے باوجود انسان انسانوںسے بلکہ اپنے قریبی رشتہ داروں تک سے ناواقف اور غافل ہوتا جارہا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اور کیا واقعی ہم ترقی کررہے ہیں؟
ایک صاحبہ نے کہا کہ کچھ دن پہلے انہیں اپنی ایک رشتہ دار کی موت کی خبر ملی تو انھوں نے پریشان ہوکر پرسے کے لیے ان رشتے داروں کے ہاں فون کیا تو معلوم ہوا کہ انکی مرنے والی رشتے دار تقریباً ایک سال سے سخت بیمار تھیں، چند ماہ سے تو بولنا، چلنا، پھرنا سب کچھ بند ہوگیا تھا۔ ان صاحبہ نے کہا کہ مجھے اتنی حیرت ہوئی کہ میری قریبی رشتہ دار اتنی سخت بیمار ہیں اور مجھے کچھ معلوم نہ ہوسکا، جبکہ میں جانتی ہوں کہ کس ملک میں کیا ہورہا ہے۔ بالی ووڈ کا کون سا سپر اسٹار کتنے دن اسپتال میں رہا۔ ہالی ووڈ کے کس جوڑے کے یہا ںبچے کی ولادت ہوئی، لیکن اپنی اتنی قریبی رشتے دار کی لمبی بیماری کا مجھے علم بھی نہ ہوسکا۔
گزشتہ دنوں اخبار میں خبر تھی کہ کراچی کے کسی علاقے میں ایک گھر سے شدید بدبو آنی شروع ہوئی تو پولیس کو بلوایا گیا اور جب گھر کا دروازہ توڑا گیا تو دیکھا کہ بوڑھے میاں بیوی کئی دنوں سے مرے پڑے تھے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ان کی موت کی اصل وجہ بھوک تھی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ پڑوسیوں کو کوئی اطلاع نہیں تھی کہ پڑوس میں کیا واقعہ ہوا ہے جبکہ ٹیلی ویژن کے ذریعے انہیں یہ ضرور معلوم تھا کہ دنیا کے کس حصے میں کتنے حادثات ہوئے اور کتنے لوگ مرے۔ ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر بحثیں کی جاتی ہیں کہ دنیا میں حکمران کیا کررہے ہیں، لیکن ہمارے پڑوس میں بھوک سے تڑپ تڑپ کر کون اپنی جان دے رہا ہے، یہ ہم نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی۔ ہم خواتین یہ بہانہ نہیں کرسکتیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا کیونکہ پہلے کھانا پکانے میں بہت زیادہ وقت لگتا تھا مگر آج مصالحہ پیسنے ا ور سبزی کاٹنے کی مشین سے لے کر مائیکروویو اوون تک ہمارے پاس موجود ہے۔ گھنٹوں میں ہونے والا سارا کام اب محض منٹوں میں ہوجاتا ہے۔ یعنی آج وقت ہماری مٹھی میں قید ہے۔
پہلے جب نہ فون تھے، نہ کاریں، نہ ہوائی جہاز، نہ گھر کے آلات جن سے ہمارے وقت کی بچت ہوتی ہے۔ پھر بھی لوگوں کو اپنے رشتے داروں، پڑوسیوں کی خبر رہتی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کا سکھ دکھ بانٹتے تھے مگر آج کہیں کسی تقریب میں رسمی سی ملاقات ہوجاتی ہے اور لوگ مطمئن بھی ہوجاتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کرلیا۔
مسز۔ ر۔ نے بتایا کہ ان کے کوئی رشتہ دار جن سے وہ بچپن میں ملی تھیں رہائش کے لیے جدہ آئے اور باقاعدہ تین سال تک ٹیلیفون پر رابطہ بھی رہا۔ تین سال بعد جب مسز ’ر‘ نے ان کے گھر جانے کا ارادہ کیا اور دریافت کیا تو مسز ’ر‘ کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ انھوں نے گھر کا جو پتہ بتایا وہ مسز’ر‘ کی عمارت میں بالائی منزل پر تھا۔اس واقعہ پر ہمیں ہنسی نہیں بلکہ رونا آتا ہے۔ واقعی آج ہماری یہی کیفیت ہے کہ ہمیں ساری دنیا کے حالات کا علم ہے مگر اپنوں کی خبر نہیں۔ آج کے دور میں جہاں دنیا کی دوریاں ختم ہوگئی ہیں وہیں دلوں کے فاصلے بڑھتے جارہے ہیں، جہاں جدید آلات کی وجہ سے وقت کی بچت ہوتی ہے وہیں ہم اور زیادہ مصروف ہوتے جارہے ہیں۔ جہاں گھر بڑے ہوتے جارہے ہیں وہیں دل چھوٹے ہوتے جارہے ہیں۔ دین سے دوری کے باعث ہمارے دلوں میں بھی دوریاں ہوگئی ہیں۔
سائنس کتنی ہی ترقی کرے مگر وہ دلوں کی دوری کو ختم نہیں کرسکتی۔ آج زندگی اتنی پر آسائش وآرام دہ ہے لیکن زندگی میں جہاں سکون ہی سکون ہونا چاہیے تھا وہاں چاروں طرف ہر دل اور زندگی میں بے سکونی کا عالم ہے اور یہ سکون اس ساری دنیا کے سائنسداں مل کر بھی ایجاد نہیںکرسکتے۔
دلوں کا سکون حاصل کرنے کے لیے اور دلوں کے فاصلوں کو ختم کرنے کا طریقہ ہمیں صرف قرآن شریف اور اتباع رسول ﷺ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ اس لیے ان فاصلوں کو دور کرنے کے لیے ہمیں اپنے دین سے جڑنا ہوگا ورنہ دلوں کی دوریاں بڑھتی ہی جائیں گی۔