حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص ہمارے دین میں کوئی نئی بات داخل کرے جو دین میں نہیں وہ مردود ہے۔(بخاری)
دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم بدعت کو بدعت سمجھتے ہی نہیں اس کو ہم دین اور ثواب کا ذریعہ سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ اور جب دین میں کوئی نئی بات داخل ہوتی ہے تو وہ دین ہی کی توڑی مروڑی شکل ہوتی ہے۔ اگر کوئی چوری کرتا ہے اور چوری پکڑی بھی جائے تو لوگ اس کو دیکھ کر چوری نہیں کرنے لگیں گے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں چوری گناہ ہے۔ لیکن کوئی شخص اگر بدعت کرتا ہے تو لوگ اس کو دیکھ کر اس کو ثواب کا کام سمجھ کر اس پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ اور ایک سے دوسرا سیکھتا ہے۔ اس طرح بدعت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
ہمیں کہیں اور جانے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ہمارے ایمان کی کسوٹی قرآن و سنت ہے ہم خود کو اس پر پرکھ کر دیکھیں تب ہمیں خود پتہ لگ جائے گا کہ ہماری عبادتوں میں کتنی ملاوٹ ہے۔
حضرت حذیفہ بن یمان فرماتے ہیں:’’جو عبادت صحابہ کرام نے نہیں کی وہ عبادت اختیار نہ کرو کیونکہ پہلے لوگوں نے پچھلے لوگوں کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کو یہ پورا کریں۔ اے لوگو! خدا سے ڈرو اور پہلے لوگوں کے طریقے کو اختیار کرو۔‘‘ رسول اللہ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی زندگی کے تمام معاملات پررہنمائی فرمادی۔ شادی بیاہ،تجارت، سفارت، عقائد، اخلاق، طلاق اور خلع وغیرہ کے بارے میں آپؐ نے اللہ کا حکم نافذ کرکے دکھا دیا۔ اللہ کے رسول کی ہر ہر بات پر آپؐ کے پیارے صحابہ نے عمل کیا۔ صحابہ کرام حضورؐ سے پوچھا کرتے تھے کہ یا رسول اللہ ہمیں دین کی کوئی ایسی بات بتائیے جس سے ہمیں نیکی زیادہ ملے۔ پھر کیوں ہم صحابہ کرام کے عمل کو چھوڑ کر اپنی عبادتوں میں ملاوٹ کررہے ہیں۔ اور بدعت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر ہم سیرت رسول کا مطالعہ کریں اور صحابہ کے حالات زندگی پڑھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ نہ تو حضرت محمدؐ اور نہ صحابیوں نے شب برات کا حلوہ بنایا نہ کسی کی موت ہونے پر سوئم کیا چالیسی بھی نہیں کی نہ ہی برسی کی۔ اور نہ قرآن ختم ہونے پر قرآن پڑھانے والے کو جوڑا دینا ضروری قرار دیا گیا۔ ان سبھی رسموں کی سند قرآن و حدیث میں کہیں نہیں ملتی۔
حال ہی میں ایک مثال نے مجھے چونکا دیا۔ معلوم ہوا کہ کئی قرآن پڑھی ہوئی خواتین باوضو ہوکر، جس طرح قرآن خوانی کی جاتی ہے،اسی طرح قرآن کا ایک ایک پارہ لے کر اور اسی کی لائنوں پر اول سے آخرتک تلاوت کرنے کے بجائے صرف بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتی جاتی ہیں۔ پھر اجتماعی دعا ہوتی ہے۔ اس دعا میں مراد مانگی جاتی ہے۔ آپ ہی بتائیے یہ کیسی عبادت ہے۔ قرآن کریم میں تلاوت کے بجائے صرف بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کی سند ہمیں کہاں سے ملتی ہے۔ اللہ کے رسول نے فرمایا ’’لازم پکڑو میرے طریقے کو اور خلفائے راشدین کے طریقے کو جنہیں اللہ نے ہدایت دی اسی پر بھروسہ کرو اور اسی کو دانتوں سے پکڑو۔ خبردار دین میں نئی نئی باتوں سے بچے رہنا ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
صحابہ کرام کی زندگی سے ہماری زندگی کتنی مختلف ہوتی جارہی ہے۔ ہم سے فرض کی ادائیگی تو ہوتی نہیں۔ مگر دین میں نئی باتیں نکالنے میں ہم پیش پیش ہیں۔ دین میں نئی بات نکالنے کا مطلب رسول اللہ پر الزام لگانا ہوا کے اللہ کے رسول نے مکمل دین ہم تک نہیں پہنچایا اس کا کچھ حصہ چھپالیا جو اب دریافت ہورہا ہے (نعوذ باللہ) ۔ جب کہ اللہ کے رسولؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! تم سے میرے بارے میں (خدا کے ہاں) سوال کیا جائے گا۔ بتاؤ تم کیا جواب دو گے لوگوں نے جواب دیا کہ ہم اس بات کی گواہی دیں گے کہ آپؐ نے مکمل دین ہم تک پہنچادیا اور آپؐ نے حق رسالت ادا فرمادیا اور ہماری خیر خواہی فرمائی۔ یہ سن کر حضورؐ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی جانب اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’خدا گواہ رہنا، خدا گواہ رہنا ، خدا گواہ رہنا۔‘‘
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں اور اپنا جائزہ لیں کہ ہم قرآن و حدیث کی بتائی ہوئی باتوں سے ہٹ تو نہیں رہے ،اسے مضبوطی سے پکڑے ہیں یا نہیں۔ اگر کہیں ہم بدعت کا ارتکاب کررہے ہیں تو اس سے دور رہنے کی کوشش کریں۔ ہر وہ عبادت اور طریقہ چھوڑ دیں جسے اللہ کے رسول اور صحابہ کرام نے نہیں کیا۔ اسی میں ہماری دین و دنیا کی فلاح وکامرانی ہے۔