سندری کی موت

نصرت علی

سندری مرگئی!
کیسے؟ رضیہ جاء نماز سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ شاکر آنکھیں ملتا ہوا بیڈ روم سے نکل آیا۔ شمسہ، کنول، جاوید ، طاہر سب مراری کے گرد جمع ہوگئے۔
’’یہ کیسے ہوا؟ سندری کیسے مرگئی؟ کل تو وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔‘‘
’’پتہ نہیں بیگم صاحبہ! میں صبح اٹھا تو سندری برف کی طرح ٹھنڈی پڑی تھی۔‘‘ مراری نے جیسے اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کیا۔
سب افسردہ، پریشان اور حیران تھے۔
عذرا اپنے کمرے میں سو رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ سندری کے مرنے کی خبر اس تک نہیں پہنچی۔
چار سال قبل عذرا اس گھر میں دلہن بن کر آئی تھی۔ سارے محلے میں دھوم مچ گئی… رضیہ کی بہو تو بالکل تصویر ہے۔ آنکھیں تو کمال کی ہیں۔ ناک تراشا ہوا نگینہ ہے۔ ہنستی ہے تو پھول کھلتے ہیں۔ دودھ میں پلی لگتی ہے… کتنی سندر ہے! چال بالکل ڈیانا جیسی ہے! نخرہ تو ہے ہی نہیں۔ بھئی واقعی رضیہ نے بہو لاجواب ڈھونڈی ہے۔
عذرا واقعی پرکشش اور پرنور تھی۔ دبلی پتلی، چھوئی موئی سی۔ آنکھوں میں بے پناہ کشش، بوٹا سا قد، خوبصورت دانت اور گفتگو میں اپنائیت و محبت!…
اس کی ساس بے حد خوش تھی… دلہن کی بلائیں لیتی نہ تھکتی۔ اور نندیں تو ہر وقت ساتھ چپکی رہتیں۔ دلہن جہیز بھی تو کم نہ لائی تھی، بڑا والا انورٹر، رنگین ٹی وی، فل سائز فریج، ڈیپ فریزر، ایئر کنڈیشنر، اعلیٰ فرنیچر، بیش قیمت کراکری اور سو تولے سے اوپر سونا۔ ساس کا زیور، نندوں کی چوڑیاں اور جھمکے اس پر مستزاد، دور و نزدیک والے رشتے داروں کے جوڑے، تحائف۔ کیا کچھ نہیں تھا۔
رضیہ نے جہیز کا سامان بڑے کمرے میں سجا رکھا تھا۔ وہ ملنے والیوں کو اس کمرے میں لے جاتی۔ جہیز دیکھ کر سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں۔
پچھواڑے کے چھوٹے لان کے ایک گوشے میں اپنی سندری بھی موجود تھی۔ ’’یہ ہے میری عذرا کی لاڈلی، اس کی جان۔‘‘ ساس بتاتی۔
سندری، ہلکے بھورے رنگ کی بھینس تھی، جسے عذرا جہیز میں لائی تھی۔ اس کی دیکھ بھال کے لیے پینتالیس پچاس برس کا مراری ملازم رکھا گیا تھا۔ وہ ایک مم گو شخص تھا۔
سندری بھی عذرا ہی کی طرح سندر تھی۔ ہلکا بھورا رنگ، پاؤں گلابی، سینگوں اور نتھنوں کے درمیان ماتھا سفیداور بادامی۔ بڑی بڑی کھلی شفاف آنکھیں، پتلی کھال، گلے میں موٹے موٹے موتیوں کی مالا اور ایک خوبصورت گھنٹی۔ پاؤں میں چاندی کی پازیبیں اور سونے کا چھوٹا سا تعویذ جو ایک کان میں آویزاں تھا۔ سندری بہت حساس تھی۔ بڑی نزاکت سے سرہلاتی اور اس کی گھنٹی کی جلترنگ ہلکا ہلکا سکون بخشتی۔
عذرا کی سندری سے رفاقت کئی برسوں پر محیط تھی۔ اس کا چچا سندری کو پنجاب سے لایا تھا۔ عذرا ہر صبح اٹھ کر اس کی گردن پر تھپکیاں دیتی۔ سندری بھی نتھنوں سے گرم گرم سانسیں نکالتی۔ ہنکارے بھرتی اور اپنی بڑی بڑی کھلی آنکھوں سے عذرا کی طرف اپنائیت سے دیکھتی۔ عذرا کو اس کے پاس بیٹھ کر بہت سکون ملتا تھا۔
عذرا کو بیماری کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تو سندری نے دودھ دینا بند کردیا۔ اورجب عذرا ہسپتال سے لوٹی تو سندری کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھے گئے۔
جاوید نے پہلی بار عذرا کو اپنی بہن کنول کے ساتھ کالج میں دیکھا تھا۔ عذرا اس کے دل ودماغ پر چھا گئی۔ جلدہی پیغام بھیج دیا گیا۔ عذرا کے والد خلیل احمد خاں ابتدا میں رضا مند نہ تھے۔ لیکن جاوید کے والدین کے بے پناہ اصرار سے آخر کار رشتہ طے پاگیا۔ کچھ عرصہ بعد شادی کردی گئی۔ خوشی کے دائرے پھیلتے گئے۔
پہلا سال خواب کی مانند تھا۔ شادی کی پہلی سالگرہ دھوم دھام سے منائی گئی۔عزیز، دوست، رشتے دار سبھی جمع تھے۔ مبارکبادیں، تحائف، دعائیں۔ عذرا نے کیک کاٹا۔
عین اس وقت مراری بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا: ’’بی بی جی، بی بی جی! مبارک ہو! سندری نے خوبصورت کٹی کو جنم دیا ہے۔‘‘
’’ہرّا! ہیپی برتھ ڈے ٹو کٹی۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے۔‘‘
شادی کی پہلی سالگرہ پر عذرا کے لیے سندری کا یہ تحفہ بھی سندر تھا۔عذرا کا چہرہ دمک اٹھا۔ جاوید کے ساتھ کھڑی وہ معصوم سی دیوی لگ رہی تھی۔ اسے اپنی قسمت پرناز تھا۔
عذرا صبح اٹھتی اور سیدھے پچھلے دالان میں سندری کو دیکھنے چلی جاتی۔ رات کو جاوید کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سندری کے پاس جاکر اسے چمکارتی اور تھپکی دیتی۔ اس پیار کے جواب میں گرم ہوا کا جھونکا سندری کے نتھنوں سے باہر آتا اور وہ عذرا کے آگے سرجھکا دیتی۔ کبھی کبھی میاں بیوی دونوں سندری کے پاس بیٹھ جاتے۔
شادی کو پندرہ ماہ گزر گئے تھے۔ ’’رضیہ! کوئی خوشخبری؟ ہماری تو آنکھیں لگی ہوئی ہیں! پوتا کب آئے گا؟‘‘ اڑوس پڑوس کی عورتیں پوچھتیں۔
رضیہ ہنس کر کہتی: ’’بہن! اتنی جلدی کاہے کو ہے؟ ابھی تو بچوں کے کھیلنے گھومنے کے دن ہیں۔ ساری زندگی اسی کام کے لیے ہے۔ اللہ پوتا نہیں، پوتے دے گا۔‘‘
دوسرا سال شروع ہوگیا تھا۔
صبح اٹھتے ہی رضیہ بہو کو دعائیں دیتی، اس کی بلائیں لیتی۔ بہت غور سے اس کو دیکھتی، سر سے پاؤں تک۔ عذرا باتھ روم جاتی تو ساس چپکے چپکے اس کے پیچھے ہولیتی، لیکن عذرا بالکل خاموش تھی۔ ابھی تک کوئی غیر معمولی آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
رضیہ فکر مند رہنے لگی۔ خاص وظیفے شروع کردئے گئے۔ منتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ کوئی گھر سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا، مگر اللہ کو ابھی منظور نہ تھا۔
سندری نے دوسرے سال کٹّے کو جنم دیا۔
عذرا اور جاوید ایک روز سندری کے پاس بیٹھے تھے۔ وہ عذرا کی طرف بٹ بٹ دیکھ رہی تھی۔
’’بھئی سنو! سندری تم سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ وہ تم سے تیز نکلی۔‘‘ جاوید نے کہا۔
’’دولت عورت کی وجہ سے ہوتی ہے اور اولاد شوہر کا نصیب!‘‘ عذرا بولی۔
’’ہونہہ!‘‘ جاوید منہ بسور کر چلتا بنا۔
تیسرا سال شروع ہوچکا تھا، ہر قسم کے نسخے آزمائے جارہے تھے۔ ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی، یونانی علاج، دیسی ٹوٹکے، بھاری بھاری فیسیں طرح طرح کے ٹیسٹ۔
ڈاکٹر نے کیس ہسٹری لکھتے وقت کئی سوالات کیے۔ اس پر جاوید نے کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! میرے سسرال کی بھینس بھی کوئی سال خالی نہیں جانے دیتی۔ ایک یہ بیگم ہے جس کی کوکھ خالی ہے۔‘‘
عذرا دل مسوس کر رہ گئی۔ اسے اب سندری سے خوف آنے لگا۔ اب وہ صبح اٹھ کر لان کی طرف نہ جاتی۔ رات کو سیدھی اپنے کمرے میں جاگھستی۔ اس کی ماں ایک روز ملنے آئی تو عذرا نے کہا: ’’ماں جی! آپ سندری کو واپس لے جائیں۔‘‘
’’بیٹی! اچھا نہیں لگتا۔ سندری اب تیری اور جاوید کی ملکیت ہے۔ میں تیرا دکھ سمجھتی ہوں۔ خدا خیر کرے گا۔ شادی کو دیر ہی کتنی ہوئی ہے۔ ویسے بھی عورت کوئی گائے بھینس تھوڑی ہے۔ تم اپنے شوہر کو چیک اپ کرانے کے لیے کیوں نہیں کہتیں۔‘‘
جاوید سے بات ہوئی۔ ’’نہیں، مردوں کو کچھ نہیں ہوتا۔ میں ٹھیک ہوں۔ ہمارے خاندان میں ایسی کوئی روایت نہیں۔ میرا باپ ٹھیک ہے۔ میرے دادا نے تین شادیاں کیں اور تایا نے دو۔ اب تم میری مونچھ نیچی مت کرادینا۔‘‘
چوتھا سال شروع ہوگیا تھا۔ سندری پھر تیار تھی۔
مہینے گزر رہے تھے۔ عذرا کی اذیت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اسے اب ٹھیک سے نیند بھی نہیں آتی تھی۔ ڈپریشن اور چڑچڑاپن غالب آرہا تھا۔ ملائمت ختم ہوتی جارہی تھی۔ کبھی کبھی عذرا کو یوں لگتا جیسے اس کا نچلا دھڑ سندری کے مانند ہوتا جارہا ہو۔
پورے محلے کی انگلیاں اور نظریں اٹھنے لگیں۔ ’’بہو ہے تو خوبصورت مگر کوئی اندرونی روگ ہے بے چاری کو۔ کسی نے کچھ کر نہ دیا ہو۔ نظروں میں آگئی ہے۔ بس جی! والدین نے جہیز دے کر بیٹی کو ڈھانپ دیا ہے۔ کوئی بچہ گود ہی لے لیں۔‘‘
جاوید کی دوسری شادی کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔ ساس کا لہجہ بدل گیا۔ نندوں کی آنکھوں میں طنز اور حقارت کے شعلے پھوٹنے لگے۔ جاوید کھچا کھچا سے رہتا۔
’’سندری پھر بچہ دے گی؟‘‘ عذرا کو ایسے لگا کہ سندری کی بڑی بڑی آنکھیں ہر طرف پھیل گئی ہیں اور اس کا تعاقب کرتی ہیں۔ ’’نہیں … نہیں… سندری کوئی بچہ نہیں جنے گی… کوئی نہیں۔‘‘ وہ چیخ اٹھی۔
رات کا اندھیرا ہوا تو عذرا لان کی طرف گئی۔ اس نے ملازم کو آواز دی۔ مراری کام چھوڑ کر چلا آیا۔ ’’بی بی جی! خیر تو ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’دکان سے پان لے کر آؤ۔‘‘ عذرا نے فرمائش کی۔ مراری پان لینے چلا گیا۔
عذرا کچھ دیر سندری کے پاس ٹھہری اور پھر چلی آئی۔ مراری پان لے آیا تھا۔
اگلی صبح سندری مردہ پائی گئی۔ وہ کیوں مرگئی… شاید کوئی زہریلا سانپ کاٹ گیا یا کسی کی نظر کھاگئی اسے۔
مرتے وقت سندری ایک کٹی کو جنم دے گئی تھی۔ کٹّی زندہ تھی۔ سندری مرگئی، مگر حق ادا کرگئی۔
’’اپنی کوکھ جلی بہو سے تو بہتر نکلی۔‘‘ ساس بڑبڑائی۔
عذرااس دن کمرے سے باہر نہیں آئی۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ پتہ چلا اس کے سر میں سخت درد ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں