حضرت عائشہؓ کی چار سوتیلی بیٹیاں تھیں۔حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ، حضرت فاطمہؓ۔ جب عائشہؓ حضورؐ کے گھر آئیں تو صرف حضرت فاطمہ کنواری تھیں۔ باقی بیٹیاں شادی شدہ تھیں۔ ان کی شادی ہوچکی تھی۔ حضرت فاطمہؓ کو ساتھ رہنے کا موقع ملا۔
حضرت عائشہؓ کو حضرت فاطمہؓ سے دلی محبت تھی۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ دوسری بیٹیوں سے وہ محبت نہ تھی۔ حضرت عائشہؓ حضرت زینبؓ کے بارے میں فرماتی ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’وہ میری سب سے اچھی لڑکی تھی۔ وہ میری محبت میں ستائی گئی‘‘۔ (ایک دشمن نے موقع پاکر اونٹ پر گرادیاتھا۔ اسی صدمے وہ شہید ہوگئی تھیں) حضرت زینبؓ کی ایک بڑی پیاری بچی تھی۔ اس کا نام امامہ تھا۔ اُسے حضورؐ بہت پیار کرتے تھے۔ اُسے گود میں بٹھاتے۔ مسجد لے جاتے۔ نماز پڑھتے تو اُسے کندھے پر بٹھالیتے۔ ایک بار کہیں سے ہار آیا۔ آپؐ نے فرمایاکہ یہ ہار اُسے دوںگا جو مجھے سب سے زیادہ پیارا ہوگا۔ لوگ سمجھے ہار مجھے (حضرت عائشہؓ کو) ملے گا لیکن وہ ہار اُمامہ کو ملا۔
حضرت عائشہؓ کے سامنے حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے ہوئی۔ اس شادی میں سب مائوں نے خوشی خوشی حصہ لیا۔ حضرت عائشہؓ نے خاص طورپر انتظام کیا۔ گھر کو صاف کیا۔ اس کی لسائی پتائی کی۔ بستر لگایا۔ کھجور کی چھال دُھن کر تکیوں میں بھری۔ چھوہارے اور منقے دعوت میںکھلائے۔ لکڑی کی ایک الگنی بناکر دی کہ اس پر کپڑے اور مشک لٹکائیں۔
یہ سب کرنے کے بعد فرماتی ہیں کہ بیٹی فاطمہؓ کے بیاہ سے بہتر میں نے کسی کابیاہ نہیں دیکھا۔ حضرت علیؓ کا حجرہ حضرت عائشہؓ کے حجرے کی دیوار کے بعد تھا۔ ماں بیٹی نے اس دیوار میں بڑا سا سوراخ بنالیاتھا۔ اسی سوراخ سے ماں بیٹی باتیں کرلیا کرتی تھیں۔
بیٹی کی تعریف میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔ میں نے فاطمہؓ سے بہتر کوئی انسان نہیں دیکھا۔ ان سے ایک صاحب نے پوچھا ’’اماں! حضورؐ کو سب سے زیادہ کس سے محبت تھی؟‘‘ جواب دیا: ’’فاطمہؓ سے۔‘‘
ان صاحب کے سوال کا جواب تو ہوگیا لیکن محبت میں آدمی جواب سے آگے بڑھ کر بھی بات کہتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے جواب کے ساتھ فرمایاکہ حضورؐ سے ہر بات میں مشابہ (ملتی جلتی) حضرت فاطمہؓ سے زیادہ کسی کو نہیںدیکھا (یعنی وہ اسی طرح چلتیں جیسے حضورؐ چلتے تھے۔ اسی طرح بیٹھتیں جیسے حضورؐ بیٹھتے تھے۔ حضورؐ کی طرح مسکراتیں۔ حضورؐ کی طرح باتیں کرتیں وغیرہ) وہ حضورؐ کی خدمت میں آتیں تو آپؐ کھڑے ہوجاتے۔ ان کی پیشانی چومتے اور اپنی جگہ بٹھاتے۔ آپؐ اُن کے گھر جاتے تو وہ اُٹھ کھڑی ہوتیں۔ باپ کی پیشانی چومتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔
حدیثوں میں اس طرح کی بہت سی باتیں پائی جاتی ہیں۔ وہ سب حضرت عائشہؓ سے ہی منقول ہیں یعنی عائشہؓ ہی نے لوگوں کو بتائی ہیں۔ یہاں تک کہ شیعہ حضرات جس حدیث پر فخر کرتے ہیں وہ بھی حضرت عائشہؓ ہی سے منقول ہے۔ یعنی اہل بیت اور آل عبا والی حدیث اور وہ حدیث بھی جس میں ذکر ہے کہ فاطمہؓ تمام دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں۔ اس کاواقعہ اس طرح ہے:
حضرت عائشہؓ کہتی ہیںکہ ایک دن ہم تمام بیویاں حضورؐ کے پاس بیٹھی تھیں۔ اتنے میں حضرت فاطمہؓ سامنے آئیں۔ ان کی چال ڈھال اور حضورؐ کی چال ڈھال میں ذرا بھی فرق نہ تھا۔ آپؐ نے بڑی محبت سے پاس بٹھالیا۔ پھر ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ رونے لگیں۔ ان کو روتا دیکھ کرآپؐ نے پھر کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنسنے لگیں۔ میں نے کہا۔ فاطمہ! تمام بیویوں کو چھوڑکر حضورؐ تم سے راز کی باتیں کہتے ہیں اور تم روتی ہو۔‘‘ پھر جب حضورؐ اُٹھ کر چلے گئے تومیں نے راز پوچھا۔ بولیں کہ میں باپ کاراز نہ کھولوںگی۔ پھر جب آپؐ کا انتقال ہوگیا تو میں نے فاطمہؓ سے کہاکہ دیکھو فاطمہؓ! میرا تم پرجو حق ہے اس کا واسطہ دیتی ہوں۔ اس دن کی بات مجھ سے کہہ دو۔ انھوںنے کہا۔ ہاں اب بتائوںگی۔ آپؐ نے پہلی بار مجھ سے اپنی وفات کی خبر دی تھی تو میں روئی تھی۔ پھر آپؐ نے کان میں کہاکہ فاطمہؓ! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ تم تمام دنیا کی عورتوں کی سردار بنو۔ یہ سن کر میں ہنس پڑی تھی۔
دیکھئے تو کتنا پیار ہے ماں بیٹی میں۔ کیا سوتیلی اولاد کے بارے میں حضرت عائشہؓ کا یہ نمونہ ہماری مائوں بہنوں کیلئے بہترین نمونہ نہیں ہے؟!
——