’’ارے آفت کے پُرزو! ذرا ٹھہروتو! مجھے دم تو لینے دو‘‘ میرے کانوں میں ایک عورت کی آوازآئی اور میں نے سر موڑکر دیکھا۔
کچھ فاصلے پر مجھے ’’دو آفت کے پُرزے‘‘ لڑھکتے دکھائی دئے۔ ایک بچہ اور ایک بچی۔ بچے کی عمر سات سال کی ہوگی اور بچی کی عمر کا صحیح اندازہ لگانا مشکل تھا۔ شاید یہ دونوں ہم عمر تھے۔ دونوں ایک ہی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھے۔ یہاںتک کہ ان کی تراش بھی ایک تھی۔ بچے کے سر پر ایک سرخ اونی ٹوپی تھی اور لڑکی کے بال پیلے فیتوں سے گوندھے ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے تھوڑے فاصلے پر ایک فربہ تن اور جوان عورت نمودار ہوئی۔ وہ ہاپنتے کانپتے بڑی مشکل چل پارہی تھی۔ اس کے سر پر ایک سیاہ رومال بندھا ہواتھا اور اس کے بال ہوا میں لہرارہے تھے۔
’’ارے شیطان! ذرا سستا تو لینے دے۔‘‘ سانسیں بھرنے لگیں۔
’’ماں ہم تو چلے چٹانوں میں کھیلنے۔ تم سستاتی رہو۔‘‘ بچے نے اس کی بات کا جواب دیا اور بچی کا ہاتھ پکڑکر بولا۔ ’’چل عشرت! میں تیرے لئے مونگے تلاش کروںگا اور تو میرے لیے گھروندے بنائے گی۔ کیوں؟‘‘ اور دونوں سمندر کی طرف بھاگ گئے۔
’’تم نے روکا نہیں انھیں؟‘‘ میں نے اس موٹی عورت سے کہا۔ ’’اگر وہ موجوں میںکھوگئے تو؟‘‘
’’خدا نہ کرے!‘‘ اس نے پلٹ کر جواب دیا۔ مگر ڈرنے کی کوئی بات نہیں وہ دونوں میرے بہت پیارے بچے ہیں۔ بے خطر، شرارتی۔ اگرچہ ان میں سے صرف ایک کو ہی میں نے اپنی کوکھ سے جنم دیا ہے۔‘‘
’’اچھا!‘‘میں اس کی طرف کھسک گیا۔ مگر دونوں کے چہرے ایک دوسرے سے کس قدر ملتے ہیں؟‘‘
’’ہاں!‘‘ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ ’’آخر دونوں ہیں نا۔ بھائی بہن۔‘‘
میری سمجھ میں اس کی اٹپٹی سی بات نہیں آئی۔ جب اس نے صرف ایک ہی کو اپنی کوکھ سے جنم دیا ہے۔ تو دونوں کیسے بھائی بہن ہوسکتے ہیں۔ میں نے اس کی ممتا کی روشنی سے تمتماتی ہوئی خود غرض آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔ ’’تم ذرا تفصیل سے ان کے بارے میں بتائو۔ تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں۔‘‘
اس نے فوراً جواب دینے کی بجائے اپنی بھدّی ٹانگوں پر نظر ڈالی، جو ساڑی سے باہر نکل آئی تھیں اور ریت پر گری ہوئی تھیں۔ ایک بار بے کنار سمندر کی طرف تاکا پھر بندرگاہ کی اکا دکا روشنیوں کو دیکھتی رہی۔ ’’آہ ہماری دکھی زندگی! گزشتہ کل سے ہمارا کتنا اٹوٹ رشتہ ہے؟ تم سنوگے ہم لوگوں کی داستان؟ ضروری تو نہیں۔ پھر بھی سنو۔‘‘
’’تم نے ابھی جس بچی کو دیکھا ہے (اسے ہی میں نے اپنی کوکھ سے جنم دیا ہے) اس کا نام عشرت ہے اور بچے کا نام ہے انور… خیران دونوں کا ذکر بعدمیں آئے گا۔ پہلے میں تمہیں یہ بتادوںکہ میں کون ہوں۔‘‘
’’میں ایک لوہار کی بیٹی ہوں۔ میرا باپ اب بھی زندہ ہے مگر سر سے پائوں تک اس کا جسم مفلوج ہوچکاہے۔ اسرائیل کا نام تم نے سناہوگا تو میں اسی کی بیٹی ہوں۔ آج سے بارہ سال پہلے اس نے گودی کے ایک مزدور سے میری شادی کردی۔ اس کا نام احمد تھا۔‘‘
’’تو وہ مرچکاہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں۔‘‘ ایک منٹ کے لیے اس کاسر خاموشی سے سینے پر لٹکا رہا۔ میں اپنے سوال پر شرمندہ ہوگیا۔
اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’ہماری ازدواجی زندگی بڑی خوشگوار تھی۔ احمد مجھ پر جان نچھاور کرتا اور میں بھی حتی الامکان اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتی۔ شادی سے پہلے وہ شراب پیتاتھا مگر بعدمیں میرے کہنے پر اس نے شراب پینا چھوڑدیا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ اس نے شراب پینا بالکل ترک کردیاہوگا۔ وہ ضرور پیتا ہوگا مگر وہ گھر میں کبھی نہیں پیتا، نہ پی کر آتا۔ وہ دن بھر کاتھکارا ماندہ جب گھر لوٹتا تو یہ پوچھنا کبھی نہ بھولتا۔ ’’کہوعائشہ! دن تو اچھا گزرا؟‘‘ میں مسکراکر اس کا استقبال کرتی۔ ہماری زندگی بہت عمدہ گزر رہی تھی ادھر میں دیکھتی وہ کچھ زیادہ پیسے لانے لگاتھا۔وہ مجھ سے کہتا۔ ’’عائشہ! خبردار جلد بچہ مت پیداکرنا۔ بڑی بھیانک بات ہے یہ!‘‘
’’چار سال گزرگئے۔ ہماری ازدواجی زندگی میں کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہونے لگاکہ جیسے اس کی دلچسپی یکایک مجھ سے ختم ہوچلی ہو۔ پہلے پہل تو میں نے اسے اپنا وہم سمجھا مگر دھیرے دھیرے سب باتیں ظاہر ہونے لگیں۔ اب اس کا پیار سرد اور اُکتادینے والا ہوتا۔ اور عجیب بات تو یہ تھی کہ میں بھی اس کا سردمہری سے استقبال کرنے لگی تھی۔ وہ شراب پی کر گھر آنے لگا۔ بہت کم پیسے گھر لانے لگا اور اس نے گھر کے اندر ہی شراب پینا شروع کردیا۔ شراب پی کر وہ بہت خوفناک ہوجایا کرتا اور مجھے پیٹنے لگتا۔ مگر جب اس کانشہ ٹوٹتا وہ معافی مانگ لیتا اور میں اسے معاف کردیا کرتی۔ ہم عورتوں میں یہی تو ایک کمزوری ہوتی ہے کہ ہم شوہروں کی خطائیں جلد معاف کردیا کرتی ہیں۔ اگرچہ یہی دریا دلی بعد میں ہمارے گلے کاپھندا ثابت ہوتی ہے۔‘‘
ایک رات جب وہ گھرلوٹا تو اس کے ساتھ ایک جوان عورت تھی۔ ’’تم اسے دیکھ رہی ہو۔‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔ ’’تم اپنے باپ کے گھر چلی جائو۔‘‘
’’کیوںجائوں؟‘‘ میں نے غصّے سے اُبلتے ہوئے کہا۔ ’’اس چڑیل کو میں کبھی اس گھر میں برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ گلا پھاڑکر چلایا۔ اس نے مجھے گردن سے پکڑکر دیوار سے پٹک دیا اور اپنی کہنیوں سے میرے سینے کو دبانے لگا۔ بھاگ جا کتیا! اپنے باپ کے گھر بھاگ جا۔ اب تیرے لیے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں۔‘‘ اس نے مجھے دھکا دے کر گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ اندر سے بند کردیا۔ بہت دیر تک میں دروازے پر کھڑی روتی رہی اور جب اس نے دروازہ نہ کھولا تو اپنے باپ کے گھر چلی آئی۔ یہ سوچ کر میں نے خاموشی اختیار کرلی کہ شاید وہ معافی مانگنے آئے۔ مگر وہ نہیں آیا اور مجھے اس کے بارے میں طرح طرح کی خبریں ملنے لگیں۔ میرا باپ یہ سب خبریں لا لاکر مجھے دیتا۔ وہ بڑھتی عمر کے ساتھ بہراہوچکاتھا۔ صبح سے شام تک وہ دکان میں دھونکنی کے سامنے بیٹھا کام کرتارہتا اور رات کو بے سدھ سوجاتا۔
میں نے کئی بار اپنے شوہر کے گھر جانے کی کوشش کی مگر ہمت نہ ہوئی۔ آخر کار ایک شام ہمت کرکے نکل ہی پڑی۔ اس کے دروازے پر تالا پڑا ہواتھا۔ میں اس کا انتظار کرنے لگی۔ آدھی رات کو وہ آیا۔ اس کے ساتھ وہی عورت تھی۔ دونوں نشے میں دُھت تھے۔ مجھ سے وہ سب دیکھا نہ گیا اور میں وہاں سے بھاگ آئی۔
بعد مجھے خبر ملی کہ اس نے اس عورت کو مستقل طورپر گھر میں ڈال لیاتھا۔
تم سوچتے ہوگے کہ آخرمیں نے اپنے مرد کا سامنا کیوں نہ کیا، اپنے حق کا استعمال کیوں نہ کیا؟ مگر تم نہیں جانتے ہم عورتوں کے دل میں کتنا شدید خوف بھرا ہوتا ہے۔ مردوں کی مار کا خوف نہیں بلکہ دوبارہ اسی دہلیز سے نکالے جانے کا خوف جس سے وہ ایک بار نکالی جاچکی ہو۔ جب بھی میں نے اس قسم کاکوئی ارادہ کیا مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دوبارہ گردن سے پکڑکر گھر سے باہر کردے گا۔ وہ عورت مجھ پر دانت نکال کر ہنسے گی اور میں ایک بار پھر روتی ہوئی بھاگ جائوںگی۔ پھر وہاں جانے سے حاصل؟
قدرت کی ستم ظریفی دیکھو۔ ایک مہینہ بھی نہیں گزراتھا کہ میرا شوہر عرشے پر کام کرتے ہوئے ایک بھاری بھرکم زنجیر کی زد میں آکر جان کھو بیٹھا۔ پے درپے حادثات نے میرے دل کو پتھر بنادیاتھا۔ میں اپنے ’’اصلی گھر‘‘ گئی اور اس عورت کو نکال باہر کیا۔ وہ روتی چلاتی رہی مگر میں نے اس کی ایک نہ سنی۔ وہ چلی گئی۔ کہاں؟ یہ مجھے معلوم نہیں۔ وقت گزرتا گیا۔ اسی سال خزاں کے موسم میں میری بچی عشرت پیداہوئی۔ خلاف توقع ایک نئی مسرت پاکر میری زندگی نہال ہوگئی۔ سب کچھ کھوکر بھی میں نے سب کچھ پالیا اور میں نے اپنا سارا پیار اس پر نچوڑدیا۔
’’جب عشرت چار ماہ کی ہوئی تو یکایک وہی چڑیل اُبھرا ہوا پیٹ لے کر نمودار ہوئی۔ میںاس وقت اپنے گھر کے آنگن میں بیٹھی برتن مانجھ رہی تھی۔ اس نے آتے ہی میرے گھٹنے پکڑلیے اور رو رو کر کہنے لگی کہ اس کے پیٹ میں میرے شوہر کابچہ ہے اور میں اسے صرف مہینہ بھر کے لیے اپنے گھر میںجگہ دے دوں۔ مگر میں نے دھکیل کر اسے گھر سے باہر کردیا اور سختی کے ساتھ دروازہ اندر سے بند کرلیا۔‘‘
’’رات سرد اور کہرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس نے میرے گھر کے پچھواڑے ایک زنگ آلود سائبان کے نیچے ایک بچے کو جنم دیا۔ مجھے یاد ہے میں رات بھر اس کا چیخناکراہنا سنتی رہی مگر میرا دل نہ پگھلا۔
مگر صبح جیسے ہی میری نظر اس کی اکڑی ہوئی ٹھنڈی لاش پر اور اس کی گود میں کلبلاتے ہوئے نوزائیدہ بچے پر پڑی جو اس کے پتھر کی طرح بے حس سینے سے چپکا ہواتھا تو یکایک میرا دل پگھل گیا۔ میری آتما نے مجھے زدوکوب کیا۔ میں نے اس کی تجہیزو تکفین کی اور بچے کو اپنالیا اور اس کا نام انوررکھا۔ تو یہ ہے میری کہانی۔
اس نے اپنی آنکھیں موند لیں جیسے اب وہ کبھی نہ کھولے گی۔ بچے لوٹ آئے۔ وہ انھیں لے کرچل دی۔ مڑکر میری طرف دیکھا۔ بولی۔ ’’آپ سمجھے، یہ دونوں میرے بچے ہیں۔ میرے پاس امانت ہیں۔ میں امانت کی پوری حفاظت کروںگی۔ کیا سمجھے آپ؟‘‘
’’ہاں! میں سمجھا اور یہ سوچتا ہوا لوٹ آیاکہ سوتیلی مائیں اسی طرح بچے کو امانت سمجھنے لگیں تو گھروں میں بڑا امن رہے۔ ——