ایک کھاتے پیتے زمیندار نے اپنے دو بیٹوں کے درمیان اپنی ساری جائیداد برابر حصوں میں تقسیم کردی اور خود اللہ کوپیارا ہوگیا۔ بڑے بیٹے کے حصے کی زمین سونا اگلتی تھی اور چھوٹے بیٹے کے حصے کی ساری زمین سیلاب بہا کر لے گیا۔ ایک دن دوپہر کے وقت بڑا بیٹا اپنی حویلی میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا کہ اس کی نظر کھڑکی سے باہر زمین کے ایک خطے کی طرف پڑی، جہاں اس کا لاڈلا بھائی تیز دھوپ میںکدال سے زمین کھود رہا تھا۔ بڑے بھائی نے ایک نوکر کو بلاکر حکم دیا کہ وہ چاندی کے برتنوں میں کھانا لے جاکر اس شخص کو دے آئے اور یہ بھی تاکید کی کہ چاندی کے برتن اس سے واپس نہ لائے۔
چھوٹا بھائی نہ جانے کب سے بھوک کے مارے نڈھال ہورہا تھا۔ اس نے جلدی سے کھانا کھالیا اور برتن ایک طرف رکھ کر دوبارہ کام میں مشغول ہوگیا۔ شام کو حسبِ معمول گھر جاکر سوگیا۔ آدھی رات کو آنکھ کھلی توخیال آیا کہ وہ چاندی کے برتن وہیں چھوڑ آیا ہے۔ یہ خیال آتے ہی وہ اندھیری رات میں چاندی کے برتن لینے کے لیے چل پڑا۔ دور سے دیکھا کہ وہ برتن اندھیرے میں چمک رہے ہیں اور ان کے پاس کوئی بزرگ کھڑے ہیں۔ پوچھا آپ کون ہیں؟ جواب ملا کہ میا ںمیں مقدر ہوں، تمہارے بھائی کا مقدر۔ اور ان برتنوں کی حفاظت کے لیے یہاں کھڑا ہوں۔ چھوٹا بھائی حیران ہوکر بولا کہ اگر آپ میرے بھائی صاحب کا مقدر ہیں تو پھر میرے مقدر کے بارے میں کچھ فرمائیے؟
مقدر نے ایک زور دار قہقہہ لگایا کہ تمہارا مقدر تو سمندر کے اس پار سویا ہوا ہے۔ چھوٹے بھائی نے حسرت سے کہا کہ اس تک میری رسائی کیسے ہوسکتی ہے؟ مقدر نے کہا کہ تم ہمت کرو تو رسائی بہت آسان بھی ہے۔ یہ سن کر چھوٹے بھائی نے کہا کہ اچھا آپ ان چاندی کے برتنوں کی حفاظت کرتے رہیے۔ صبح کو بھائی جان کا نوکر خود ہی آکر لے جائے گا۔ میں تو اپنے مقدر کی تلاش میں جاتا ہوں۔
کئی روز دیوانوں کی طرح جنگل بیاباں طے کرتے ہوئے وہ برابر آگے ہی بڑھتا رہا۔ راستے میں ایک ببر شیر کو دیکھا جو سوکھ کر کانٹا ہوچکا تھا۔ شیر نے پوچھا میاں کہاں جارہے ہو، کہنے لگا میں اپنے مقدر کی تلاش میں جارہا ہوں۔ شیر بولا اب جو تم مقدر کو جگانے جارہے ہو تو مہربانی فرماکر یہ پوچھ لینا کہ میرے اس جان لیوا سر درد کا بھی آخر کوئی علاج ہے جس کے مارے میں بے بس ہوکر گھڑیاں گن رہا ہوں۔
نوجوان نے شیر سے وعدہ کیا کہ وہ مقدر سے ضرور اس کے سردرد کا علاج دریافت کرے گا۔ یہ کہہ کر وہ پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ رات کو ایک چھتنار درخت کے نیچے لیٹنے کے ارادے سے ابھی درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ہی تھا کہ اس کی نظر تنے کے ایک حصے پر پڑی جو بالکل خشک تھا۔ اب جو نظر اٹھا کر غور سے دیکھا تو آدھا درخت ہرا اور آدھا سوکھا ہوا پایا۔ درخت اپنی نامعلوم بیماری کا دکھڑا سناتے ہوئے بولا کہ نوجوان تم جو اپنے مقدر کو جگانے کے لیے جارہے ہو تو میری طرف سے بھی پوچھ لینا کہ میرے نصیب کب جاگیں گے؟ نوجوان نے درخت کی لاعلاج بیماری کا سبب دریافت کرنے کا وعدہ کیا اور صبح اٹھ کر اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ جنگل بیاباں طے کرنے کے بعد آگے حد نظر تک سمندر ہی سمندر نظر آرہا تھا جسے عبور کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ نوجوان ناامید ہوکر واپس لوٹنے والا تھا کہ سمندر سے ایک آواز آئی… نوجوان ہمت سے کام لو… دیکھا تو کوئی بھی قریب نہ تھا۔ نوجوان پلٹنے لگا تو پھر کنارے کے قریب سے آواز آئی۔ نوجوان نے اپنے پیروں تلے کسی چیز کو حرکت کرتے دیکھا۔ اب جو غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بے خیالی میں سمندر کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس کے پاؤں ایک بڑی مچھلی کے جسم پر ہیں۔ یہ دیوہیکل مچھلی بڑی نقاہت بھری آواز میں بولی کہ نوجوان میں ایک عجیب و غریب بیماری میں مبتلا ہوں۔ کھانا پینا تو درکنار مجھ پر سانس لینا بھی بھاری ہے۔ ذرا میرے مقدر سے پوچھ لینا کہ اس بیماری سے مجھے کیسے نجات ملے گی؟ نوجوان بولا کہ مقدر سے میں یہ بات تو پوچھ لوں گا لیکن وہاں تک کیسے پہنچوں گا؟ مچھلی نے کہا کہ میں تمہیں اپنی پیٹھ پر پار اتاروں گی۔ نوجوان دوسرے کنارے جالگا تو سوئے ہوئے مقدر کی تلاش کا کام شروع کردیا لیکن سویا ہوا مقدر بھلا اسے کہاں ملتا۔ کئی روز کی بے سود تلاش کے بعد نوجوان تھک ہار کر سوگیا۔ خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ وہی معقول آدمی… وہی بزرگ جو اس روز کھیتوں میں چاندی کے برتنوں کی رکھوالی کررہے تھے، اس کے سرہانے کھڑے ہنس رہے ہیں۔ نوجوان خواب میںانہیں دیکھتے ہی ان کے قدموں پر گرپڑا اور کہنے لگا حضرت! آپ میرا کوئی امتحان لے رہے ہیں یا یہ کوئی خوفناک مذاق ہے؟ خدارا مجھے اصل حقیقت سے آگاہ کیجیے۔ یہ سن کر وہ بزرگ مسکرادیے اور کہنے لگے کہ میں تمہارا امتحان لے رہا تھا اور تم امتحان میں کامیاب ہوگئے ہو۔ اب جو بھی چاہو تمہیں ضرور مل جائے گا۔
نوجوان نے کہا: ’’جناب میری خواہش ہے کہ میں اپنے بھائی سے زیادہ دولت مند بن جاؤں۔‘‘ مقدر نے کہا ٹھیک ہے کوئی اور خواہش؟ کہنے لگا کہ راہ میں ایک شیر نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں اس کے مسلسل سر درد کا علاج آپ سے معلوم کرلوں؟ جواب ملا کہ اس شیر کے درد کا صرف ایک ہی علاج ہے، کسی بے وقوف و جاہل آدمی کا مغز۔ شیر سے کہہ دینا کہ کسی کم عقل آدمی کو ہلاک کرکے اس کا مغز کھا لے، سر کا درد ہمیشہ کے لیے جاتا رہے گا۔ جناب ایک درخت نے اپنے سوکھے کی بیماری کا علاج دریافت کیا تھا؟ نوجوان نے سوال کیا۔ جواب ملا کہ اس درخت کی جڑوں میں سات خزانے دفن ہیں، وہ خزانے کوئی نکال لے تو درخت پوری طرح سرسبزہوجائے گا۔ ایک آخری سوال مجھے پار اتارنے والی مچھلی نے بھی پوچھا ہے۔ اس کے گلے کی تکلیف کیسے دور ہوگی؟ اس کے گلے کی بیماری کا سبب ایک قیمتی ہیرا ہے، جو اس کے گلے میں اٹک کر رہ گیا ہے۔ اگر وہ مچھلی کسی طرح قے کرکے اس قیمتی ہیرے کو اگل دے تو صحت یاب ہوجائے گی۔
یہ سن کر نوجوان کو اپنی تکلیف کا احساس ہوا اور پوچھنے لگا کہ مجھے اس سفر سے کب فراغت ملے گی۔ مقدر نے ایک قہقہہ لگاکر کہا کہ میاں اب میں تمہارے ساتھ رہ کر تمہارے سارے کام سنوار دوں گا۔ اب اٹھو اور واپسی کا بندوبست کرو۔ یہ سن کر نوجوان کی آنکھ کھل گئی اس نے سمندر کے کنارے پھر اسی مچھلی کے کراہنے کی آواز سنی۔ نوجوان خوش خوش مچھلی کی طرف بڑھا اور اس کی پیٹھ پر سوار ہوکر دوسرے کنارے جاپہنچا۔ کنارے پر پہنچ کر اس نے مچھلی کو گلے کی تکلیف کا سبب بتایا اور مچھلی نے قے کرکے وہ ہیرا اگل دیا جو اس کے لیے عذاب بن گیا تھا۔ مچھلی نے کہا کہ نوجوان اس ہیرے کو سنبھال کر رکھو، لیکن نوجوان نے مچھلی کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مجھے تمہارے ہیرے کی کیا پرواہ ہے، میرا مقدر میرے ساتھ ہے۔ یہ کہہ کر نوجوان آگے بڑھا۔ درخت کے پاس سے گزرا تو درخت نے پکارا کہ حضرت! کچھ اس دکھی کا علاج بھی کرتے جائیے۔ نوجوان نے کہا کہ تمہاری جڑوں کے نیچے سات خزانے دفن ہیں، انہیں کوئی نکال لے تو تم ہرے بھرے ہوجاؤ گے۔ درخت نے کہا کہ اے خوش بخت! انسان تو میرے کہنے کا کیا انتظار کررہا ہے۔ ہاتھ اٹھا کہ یہ ساتوں خزانے تیرے ہیں لیکن نوجوان نے کہا کہ مجھے کسی خزانے کی کیا ضرورت ہے؟ مقدر میرا غلام ہے اور یہ کہہ کر اپنی راہ پر روانہ ہوا۔ اب ببر شیر کی باری آئی جو درد کے مارے زور زور سے دھاڑ رہا تھا۔ نوجوان نے کہا کہ اے جانور جاکر کسی بے وقوف انسان کا مغز کھا لے، ٹھیک ہوجائے گا۔
شیر نے نوجوان کو پیار سے بلا کر پوچھا کہ میاں دم تو لو، کچھ اپنے سفر کی سناؤ، کچھ میری سنو۔ نوجوان نے کھڑے کھڑے مچھلی اور درخت کا واقعہ سنایا اور جانے لگا۔ شیر نے کہا کہ میری ایک درخواست ہے۔ میں تم سے پھر اس بات کی تصدیق چاہتا ہوں کہ کیا واقعی تم نے ہیرے اور خزانوں کو حقارت سے ٹھکرا دیا ہے۔ نوجوان بولا کہ ہاں اب مقدر میرا غلام ہے مجھے کسی کی کیا پروا ہے۔ شیر نے کہا کہ آؤ آخری بار مجھ سے گلے تو مل لو۔ جب نوجوان شیر کی باہوں میں اچھی طرح سماگیا تو اس نے پھر مقدر کے قہقہوں کی آوازیں سنیں۔ مقدر کہہ رہا تھا:
’’اے جنگل کے بادشاہ تو یقینا مقدر کا سکندر ہے۔ اس آدمی سے زیادہ بے وقوف اور زیادہ جاہل کوئی اور کیا ہوگا جس کا مغز کھا کر تو عمر بھر کے درد سے نجات حاصل کرلے گا۔‘‘
——