سود یا ’ربا‘ معاشرے کی وہ لعنت ہے جس کی تباہ کاریوں نے ہمیشہ غریبوں کا استحصال کیا ہے اور ان کا خون چوسا ہے۔ یہ دراصل سماج میں معاشی عدم مساوات کی بنیاد ہے جس کے نتیجے میں سماج کے اندر عدم معاشی توازن، غریبوں کا استحصال، محبت و الفت اور ہمدردی کے جذبات کا خاتمہ اور باہمی نفرت پروان چڑھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقہ کی پرورش اور نشوونما کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سود کس قدر قابلِ نفرت ہے اس کا اندازہ اس آیت سے کرسکتے ہیں: ’’اگر وہ (سود سے) باز نہ آئیں تو گویا وہ اللہ اور اس کے رسول سے کھلی جنگ پر آمادہ ہیں۔‘‘
موجودہ معاشی نظام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پوری طرح سودی نظام پر مبنی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں معاشی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا کی ساری دولت سمٹ کر گنتی کے چند ارب پتیوں کی تجوری میں جمع ہورہی ہے اورایک عام غریب آدمی کے لیے زندگی گزارنا ایسا دشوار ہورہا ہے کہ وہ خود کشی کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ خود ہمارے ملک میں اس طرح کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جہاں قرض کے بوجھ تلے دبے ایک شخص نے اپنی بیوی بچوں کے ساتھ خود کشی کرلی۔ سودی نظام میں پھنسے آندھرا پردیش اور مہاراشٹر کے کسانوں کی خود کشی کے واقعات نے تو پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
واقعات کے اس تناظر میں جب ہم سود کی حرمت اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اس نفرت کا جائزہ لیتے ہیں تو بہ آسانی یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ سود کو حرام ہی ہونا چاہیے۔
اسلام کے مزاج اور اس کے معاشی نظام کی خوبی یہ ہے کہ وہ سود کے مقابلے میں صدقہ اور خیرات کو بڑھاوا دیتا ہے۔ ایک غیر مسلم دولت مند اگر کسی غریب حاجت مند کو قرض دیتا ہے تو وہ اس پر سود وصول کرتا ہے جب کہ ایک مومن حاجت مند کی مدد صدقہ اور انفاق کے جذبے سے کرتا ہے۔ دونوں میں کتنا فرق ہے، آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ دولت کو ایک جگہ سمیٹنے اور جمع ہونے سے روکتا اور اس کی گردش کو فروغ دیتا ہے۔ جبکہ سود دولت کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے اور اس سے غریب اور امیر کے درمیان کی کھائی اور گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ نے سود کو اس قدر قابلِ نفرت قرار دیا ہے کہ اہلِ ایمان اس سے اسی طرح دور رہتے ہیں جس طرح انسان آگ سے۔ چنانچہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’سود لینے والے، سود دینے والے اور سود کے کاغذات لکھنے والے پر لعنت ہے۔‘‘
ایک مرتبہ آپ نے سود کی برائی اور اس سے نفرت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
’’سود کا ایک درہم کھانا، یہ جانتے ہوئے کہ یہ سود ہے، چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔‘‘
سود سے اسلام کی اس نفرت اور ممانعت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں سود پر مبنی کاروبار یا معاملات میں حصہ داری کس قدر بڑے گناہ میں ملوث کرنے والی ہے۔
ادھر دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ جس معاشی نظام میں ہم زندگی گزار رہے ہیں وہ اس کی نت نئی شکلیں ایجاد کرکے عوام کو اپنے دامِ فریب میں لینے کی کوشش کررہا ہے۔ اور عملاً یہ دیکھنے میں آتا ہے سود اور منافع دونوں کے درمیان ایسا مبہم سا فرق باقی رہ گیا ہے کہ پتہ لگانا دشوار ہے۔ اسی طرح سود کی کئی ایسی شکلیں موجودہ معاشی نظام نے نکال لی ہیں جن پر عام حالات میں نظر جانا دشوار ہوتا ہے۔
ہم اہلِ ایمان کو چاہیے کہ اپنے معاملات اور کاروبار میں شرکت و مضاربت میں او ر انوسٹمنٹ میں اس بات پر نظر رکھیں کہ کہیں اس میں سود کا عمل دخل تو نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ ہمارے کاروبار اور دولت میں سود کی کوئی آمیزش ہوگئی ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں ہم گناہ گار ہوں گے قیامت کے دن سخت عذاب کے حقدار۔