سوغات

سعید اختر اعظمی

نام کتاب : سوغات افسانہ نگار : ذکیہ ظفر

صفحات : ۱۲۰ ٭قیمت:۱۰۰؍ روپئے ٭اشاعت: ۲۰۰۷ء

ناشر : موڈرن پبلشنگ ہاؤس، ۹؍گولہ مارکیٹ دریاگنج، نئی دہلی-۲

…………

’’میری داستان کو یوں ورق ورق نہ کرو، کوئی تو ہوگا جو میرے بعد انہیں پڑھ سکے گا۔‘‘ یہ ایک قلم کار کا کرب ہے جو کہانی کے ایک کردار کی چیخ بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ ’’مرنا روا ہے؟‘‘ کی خر دماغ اور سگھڑ خاتون ’’میں کہاں ہوں‘‘ میں آنسوؤں میں تیرتی ہوئی صبح کے ساتھ ویرانیوں میں بھٹکتی ہے۔ وہ اپنی شخصیت کو اس لیے پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے کیونکہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کی دی ہوئی زندگی جی رہی ہے۔ جب وہ اپنے وجود کے ٹکڑوں کو یکجا کرتی ہے تو کہانی کی موجودگی کا احساس اسے اپنے قریب ہوتا ہے۔ ذکیہ ظفر کے افسانوں میں یہ پہلو اس لیے بھی نمایاں ہے کہ وہ مشاہدہ اور تخیل کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کرتی ہیں۔ اس طور جو متحرک کردار سامنے آتے ہیں ان میں مصنوعیت اور بناوٹی پن کا شائبہ ہی نہیں ہوتا۔

’’نیا رخ‘‘ کی اشاعت کے ۳۰ سالوں کے بعد ’’سوغات‘‘ کا منظر عام پر آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ذکیہ ظفر بسیار نویسی کی قائل نہیں ہیں۔ معاشرہ کی کجرویاں اور بدعنوانیاں انہیں کچوکے لگاتی ہیں تو ان کا حساس ذہن کرداروں کے تانے بانے بننے لگتا ہے۔ انھوں نے نسوانی کردار پر زیادہ توجہ دی ہے، جس کی وجہ شاید یہی ہے کہ وہ روشِ عام کو دیکھتے ہوئے اسے کسی صورت کمزور نہیں رکھنا چاہتیں۔ ’’سوغات‘‘ میں ماں کی تحریری وراثت کی منتقلی بیٹی کے لیے ہو یا ’’بس ایک کمرہ‘‘ میںکوما میں پڑے ہوئے والد کے لیے رضیہ کی قربانیاں، ’’تذبذب‘‘ میں فرح اور خلیق بھائی کے رشتوں کا انسلاک ہو یا ’’سبزہ زار‘‘ میں سنجے، نادرہ، مریم، جوزف کے توسط سے اولاد سے اپنا ئیت کا جذبہ،’’خوشبو یادوں کی‘‘ میں انسداد جہالت کے لیے سرگرم آپا جان ہوں یا مہاوٹ میں میم صاحب کے حسن کی جلوہ گری سے ستیہ رام کی حواس باختگی، یہ ’’شام بھی کہاں ہوئی‘‘ میں شبنم اور انجو کے متضاد رویے ہوں یا ’’تجارت‘‘

(بقیہ صفحہ نمبر66پر)

میں نگو خالہ کی عیارانہ سازشیں، ’’لکیریں‘‘ کی آنچل ، شانتا، سانوری، شبو کی آپ بیتیاں بھی تو نئی نہیںہیں۔ ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد جب عورت خود کو مکمل طور سے خاوند کے سپرد کردیتی ہے تو وہ بھی شیر ہوجاتا ہے۔ کیا اسے احتجاج کا بھی حق نہیں۔ اگر وہ حق پر ہے تو پھر ’’آنچل سے پرچم بنانے‘‘ کا اقدام غلط ہوگا؟

ذکیہ ظفر نے ’’بھورے شکاری‘‘ جیسے علامتی افسانے بھی لکھے ہیں لیکن ان کا اصل جوہر وہاں سامنے آتا ہے جب وہ کرداروں کو حقیقت سے ہم رنگ کرنے کے لیے منظر کشی کا سہارا لیتی ہیں۔ کہیں وہ خود کہانی کا کردار بن جاتی ہیں تو کبھی وہ کٹھ پتلی کی طرح اپنی انگلیوں کے اشارے پرانہیں آزاد چھوڑ دیتی ہیں تاکہ وہ فطری روپ میں سامنے آسکیں۔ اُن کی انفرادیت، تنوع، سادگی و سلاست اور بشاشتِ اسلوب قاری کو اپنے ساتھ دور تک لے جاتی ہے۔ اس طرح تخیل اور حقیقت کی آمیزش سے جو تخلیق سامنے آتی ہے وہ زود اثر اور متاثر کن ہوتی ہے۔ ذکیہ ظفر کے یہ افسانے بھی دامنِ دل کو کھینچتے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146