سونامی زلزلہ اور سمندری طوفان

حشام احمد سید

یہ عذاب آیا تو اکثر نے یہی کہا کہ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر۔ میرے نزدیک یہاں مسلمان سے مراد ایک عام انسان ہے جو اپنی زندگی کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں زیادہ تر مسلمان ہی تھے۔ یہ سوا لاکھ سے زیادہ جانوں کے ضیاع سے اور ۵۰ لاکھ سے زیادہ متاثر افراد کے بارے میں یہ سمجھنا کہ سب گنہگار لوگ تھے اور اسے طوفان نوح اور دیگر عذابِ الٰہی جو تاریخ میں درج ہیں خود شقی القلبی اور فکر کی گمرہی ہے۔ اگر یہ عذابِ الٰہی ہے تو یہ زلزلہ اور طوفان ان علاقوں میں ہی کیوں آیا؟ بداعمالیوں اور شیطان کی وحشت نگری تو کہیں اور ہے؟ اس کا جواب تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ وہ جگہ کہیں اور کہاں ہے جہاں کہ یہ تباہی آنی چاہیے تھی یہ قارئین کرام ہی سمجھ سکتے ہیں اور اللہ کو آئندہ کے لیے مشورہ بھی دے سکتے ہیں۔ خیال یہی ہے کہ سفید گھروں میں رہنے والے سفید خون لوگ عذابِ الٰہی کے زیادہ مستحق ہیں۔ ایک نیم دانشور اور مولوی نما نے اپنی توجیح یوں پیش کی کہ اللہ کسی کو صبر میں رکھ کر کی اس آزمائش کرتا ہے اور کسی کو عیش میں رکھ کے۔ سو استعماری قوتوں کا عذاب عیش و کیش کی صورت میں ہے اور ایک عام آدمی اور دیگر مصائب کے مارے کا عذاب صبر کی صورت میں ہے۔ موجودہ المیہ کو گناہ اور ثواب سے کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے اور کیوں منسوب کیا جائے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان وضاحتوں سے ہمارے مولوی حضرات یا نیم دانشوروں نے اللہ کو بھی ایک ایسی ہستی ثابت کردیا جو کیپٹلسٹ ہے۔ ایسے لوگوں نے اس مسئلہ کا حل یوں نکال لیا کہ وہ خود اس حادثے کا شکار ہونے سے بچ گئے اس لیے انہیں ٹی وی پہ آکر اپنی بقراطی کرنے کا موقع مل گیا۔ جن لوگوں کے پیٹ بھرے ہوںوہ بھوک کو بھی ایک افسانوی حقیقت سمجھتے ہیں اور انسانی مصائب کے بارے میں ان کے پاس بڑی رنگین اور فلسفیانہ دلیلیں ہوتی ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کسی نے کہا ہے کہ:
اے موجِ حوادث ہلکے سے دو چار تھپیڑے ان کو بھی
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ جب انسان کو کسی معاملے میں علم نہیں ہوتا تو اپنی کم فہمی اور بے بضاعتی کو تسلیم کیوں نہیں کرتا۔ بجائے اس کے کہ وہ خود خدا بن کر خدائی حکمت کی تاویلیں کرنے لگتا ہے۔ علم کیا علم کی حقیقت کیا، جو بھی جس کے گمان میں آئے، ہر جگہ دیکھئے تو کالم نگاری ہورہی ہے، ٹی وی، اخبار، ریڈیو، ویب سائٹ، شاعروں اور ادیبوں کے ہاتھ میں ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا۔ ہر کوئی اس واقع سے نت نئے فلسفیانہ پہلوؤں کی کھوج کررہا ہے۔ اپنے اشعار، طرز نگارش اور تقریر و تحریر کی داد وصول کررہا ہے۔ کوئی آخرت کے عذاب سے ڈرا رہا ہے تو کوئی آئندہ کے آنے والے عذاب کی خبر دیتا ہے۔ چرچ، مندر، عبادت گاہیں، مسجد سب اپنے اپنے کام میں جٹ گئی ہیں اور ہر اس بات کا مدعی ہے کہ پناہ صرف اور صرف اس کی عبادت گاہ میں ہے جبکہ مسمار ہوئی ساری عبادت گاہیں اس کے خلاف چغلی کھا رہی ہیں۔ ساری لاشیں بلا کسی تمیز مذہب،رنگ و نسل کے بغیر کسی نماز کے، پوجا پاٹ کے ایک ہی ساتھ بڑے سے گڑھے میں دفن کی جارہی ہیں۔ کون کیا تھا یہ سارا کام اب فرشتوں کے سر ہے کہ وہ ان اجتماعی قبور سے اچھے اور بروں کو چھانٹتے رہیں۔ اور جن کی لاشیں دستیاب نہ ہوسکیں ان کا بھی ڈھونڈنا کارے دارد۔ یہ وقت مرنے والوں کے لیے دعائیں کرنے کا ہے۔ ان کے لواحقین کی صبر و تحمل دلانے کا ہے۔ کام کرنے کا اب یہ ہے کہ وہ جو بچ گئے ہیں ان کی مدد کی جائے۔ ہر قسم کی امداد پہنچائی جائے۔ بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ اسلامی حکومتیں یا ایسی مملکتوں کے عوام اس فلاحی کام میں شریک نہیں لیکن یہ صرف شمالی امریکہ کی ابلاغ عامہ کی بددیانتی ہے جس میں اسلامی حکومتوں اور مسلمانوں کی معاونت کا ذکر نہیں کیا جاتا تاکہ ان کے بارے میں غلط تاثر قائم ہو۔ دوسرے ذرائع سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہر ملک کے مسلمان انفرادی طور پہ اور اجتماعی طور پر اس انسانی ہمدردی اور مالی معاونت میں یکساں شریک ہیں۔ ان کے مساجد اور دیگر فلاحی اور تنظیمی ادارے تندہی سے انسانی خدمت میں مصروف ہیں۔ الحمدللہ۔ ایک انتباہ یہ ہے کہ ایسے کئی جعلی شیطانی ادارے ابھر کر سامنے آگئے ہیں جو اس سانحہ کے حوالے سے لوگوں سے چندہ یا امدادی رقم کی صورت میں انہیں لوٹ رہے ہیں۔ ہشیار رہنے کی ضرورت ہے خصوصاً ویب سائٹ پہ جو اپیل کی جارہی ہے اس کی پوری تفتیش کے بعد لوگ امدادی رقم بھیجیں۔
ہولناک تباہیوں کے ساتھ چند ایک معجزانہ واقعات کا بھی پتہ چلا۔ اس تباہی میں جانور شاذ و ناظر ہی مرے اور سب بچ گئے۔ سمندر کے بیچ جو ماہی گیروں کا ٹولہ تھا وہ سب کا سب بچ گیا کیونکہ یہ طوفانی لہر ساحل کے اطراف میں آئی۔ اس کے علاوہ چند ایک مساجد کا ذکر ہے اور شاید دوسری عبادت گاہیں بھی ہوں واللہ اعلم۔ رہ گیا معاملہ کہ جن بستیوں پہ عذاب اب تک نہیں آیا جہاں کہ آنا چاہیے تھا اس کے بارے میں انذارِ الٰہی موجود ہیں اللہ کی آخرت کتاب قرآن میں۔ اس ضمن میں بیشتر آیات موجود ہیں جن میں سے چند ایک یہاں درج کی جارہی ہیں:
اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں بلکہ آدمی اپنی جان پہ خود ظلم کرتا ہے، اللہ تو بہت ساری خطاؤں سے درگزر کرتا ہے۔ (۴:۴۰،۴۹،۶۴۔ ۳:۱۰۸،۱۱۷، ۱۳۵۔ ۱۶:۳۳،۱۱۸۔ ۳۰:۹۔ ۴۲:۳۰ وغیرہ)۔ لوگ اللہ کے ارضی و سماوی عذاب یا قیامت کی اچانک آمد سے بے خوف ہوکر کیوں غفلت کی نیند سونے یا لہوو لعب میں مصروف ہیں۔(۷:۹۷ تا ۹۸۔ ۱۲؍۱۰۷۔ ۱۶:۴۵ تا ۴۷۔ ۶۷:۱۶-۱۷)۔ جو خدا کے ذکر سے اعراض کرتا ہے، چڑھتے ہوئے عذاب کا شکار ہوتا ہے۔ عذاب جس پہ آجائے اس میں نہ تخفیف ہوگی اور نہ مہلت ملے گی (۷۲:۰۷۱ ۱۶:۸۵)۔ بہت ساری ایسی بستیاں تباہ و برباد کردی گئیں جو اپنی معیشت پر اتراتی تھیں۔ (۱۹:۹۸۔ ۲۰:۱۲۸۔ ۲۸:۵۸۔۳۲:۲۶)۔ جن لوگوں پہ اللہ کا عذاب مسلط ہوجاتا ہے ان کی صفات قرآن میں یوں بتائی گئی ہیں کہ : وہ خدا سے اعراض کرتے ہیں، اس کے سچے رسولوں کا مذاق اڑاتے ہیں، دین میں تحریف کرتے ہیں، لہو و لعب میں مصروف رہتے ہیں، معیشت پر غرور کرتے ہیں، ظلم و تکبر کرتے ہیں یا اس کا ساتھ دیتے ہیں، آخرت سے بے خوف ہوکر اپنی من مانی کرتے ہیں، برائیوں کو روا رکھتے ہیں، رسول کے خلاف سازشیں کرتے ہیں، فتنہ کھڑا کرتے ہیں وغیرہ۔ اگر ملائکہ اور اہل اللہ زمین کے لیے استغفار نہ کرتے تو قریب تھا کہ زمین و آسمان پھٹ جاتے (۴۲:۵)۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو عذاب دیتا ہے تو انجام کی پرواہ نہیں کرتا (۹۱:۱۵)۔ اللہ انہیں ڈراتا ہے لیکن ان کی حد سے بڑھی ہوئی سرکشی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ (۱۷:۶۰)۔
اب یہ کہ ان تک یہ عذاب اب تک کیوں نہیں آیا سو یہ اللہ جانتا ہے کہ حجت کس پہ کب تمام ہوتی ہے شاید اللہ (کافروں، منافقوں) ناپاک و پاک کو الگ الگ کرنا چاہتا ہے اور پھر ناپاکوں کو جمع کرکے جہنم میں ڈالنا چاہتا ہے۔ (۸:۳۷)۔ یہ بہرحال درس عبرت ہے اللہ ہمیں اپنے گناہوں سے توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور زندگی کو بامقصد بنائے۔ ورنہ بے شعوری سے بڑا عذاب کیا ہوگا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں